تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     31-01-2014

مکالمہ‘ مشکل وقت کا

جس دن یہاں پاکستان اور امریکہ میں مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہوا‘ وہ جنوبی ایشیا کی خبروں سے بوجھل دن تھا۔ کابل میں صدر حامد کرزئی نے ایک پریس کانفرنس میں اپنا یہ مو قف دہرایا تھا کہ اگر واشنگٹن نے افغانستان میں امن کی ضمانت نہ دی تو وہ امریکہ کو سال رواں کے بعد اپنی فوج وہاں رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ افغانستان میں پائدار امن کا قیام‘ تین سال کے توقف کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن میں اس ''سٹریٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کی بحالی کا ایک بڑا موضوع تھا کیونکہ جان کیری نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے فرینکلن روم میں پاکستانی وفد کا استقبال کرتے ہوئے کہا تھا۔ ''ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پا کستان‘ ایک محفوظ افغانستان کی حمایت میں ایک توانا ساجھے دار ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کی اپنی سلامتی‘ افغانستان کی کامیابی سے مربوط ہے‘‘۔ 
اس روز اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف نے ساڑھے تین گھنٹے اپنی پارلیمانی پارٹی سے صلاح مشورہ کیا مگر چند قدم کے فاصلے پر اس ایوان کے اجلاس میں نہیں گئے جس کے وہ قائد ہیں کیونکہ ابھی ان کے پاس اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں تھا کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں یا جنگ‘ اور اپوزیشن کے ارکان‘ جنہوں نے ایک کُل جماعتی کانفرنس میں انہیں خونریز باغیوں سے نبٹنے کا اختیار دیا تھا‘ اس سوال کا جواب سننے کے منتظر تھے ۔ وہ مایوس ہو کر قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے۔ بہرحال اگلے دن وزیراعظم‘ ایوان میں گئے اور انہوں نے پاکستانی طالبان کو ''امن کا ایک اور موقع‘‘ دینے کے لیے ایک چار رکنی غیر سیاسی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا ۔
واشنگٹن میں پاکستانی وفد کے لیڈر سرتاج عزیز نے سیکرٹری آف سٹیٹ کے توسط سے امریکہ کو یا د دلایا کہ ''سن نوے کے شروع میں پاکستان کی سرگرم حمایت کے ساتھ سوویت یونین کی شکست کے بعد جب اس نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا تو پاکستان کی دفاعی فکر مندیوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر فوج کشی کرتے وقت بھی ایسا نہیں کیا گیا‘‘۔ تاہم واشنگٹن میں قیام کے دوسرے اور آخری دن انہوں نے تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں‘ جہاں شجاع نواز جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں‘ تقریر کی اور افغانستان سے ممکنہ امریکی انخلا اور پاکستان امریکہ تعلقات پر اپنے باقی ماندہ نکات بیان کر دیے۔ انہوں نے پہلی بار ڈرون حملوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ شہریوں کا جانی نقصان نا قابلِ قبول ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ''ڈرون حملوں کے ضمن میں ہم امریکہ سے دو طرفہ تعاون چاہتے ہیں‘‘۔ 
بھارت کا یومِ جمہوریہ ایک دن پہلے تھا جب اتوار کی چھٹی تھی۔ سینئر نائب وزیر خارجہ ولیم برنز نے پا کستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کے بعد بھارتی سفیر سبرامنیم جے شنکر کی پزیرائی ضروری سمجھی۔ سرتاج عزیز نے جان کیری کو بتایا کہ ''پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بھارت کی فکر مندیوں کے ضمن میں پاکستان پر خاصا امریکی دباؤ ڈالا جاتا ہے لیکن اسی شدت سے بھارت کو ہماری جائز فکر مندیوں سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ اگر یہ پیشگی شرائط پوری کر دی جائیں تو تجارت میں توسیع‘ نجی سرمایہ کاری کی اونچی سطح اور کچھ بڑے منصوبوں میں لمبی مدت کی ساجھے داری ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کا وسیلہ بن سکتی ہے‘‘۔ تاہم انہوں نے سننے والے امریکیوں کو یقین دلایا کہ گزشتہ سات ماہ میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں ۔انہوں نے واضح کیا کہ ہم ہمسایہ ملک سے تمام تنا زعات کا حل مذا کرات کے ذریعے چاہتے ہیں ۔
دو باتیں‘ جو وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے امریکی تقریبات میں کہنے سے احتراز کیا تھا‘ سفا رت خانے کی قلعہ بندی میں پاکستانی اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران کہیں ۔انہوں نے بتا یا کہ کشمیر کا مسئلہ‘ پا کستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول کی راہ پر لانے میں حائل ہے ۔اس روز لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے سات درجن سے زیادہ تجارتی ٹرک معمولی تنازعہ پر رکے ہوئے تھے اور وہ خواب جو قائد اعظم نے دیکھا تھا اور جس میں وزیر اعظم نواز شریف شریک ہیں‘ چکوٹی بارڈر پر بکھرا ہوا تھا ۔بٹوارے سے پہلے اخبار 'نیو یارک ٹائمز‘ کے نامہ نگار نے بمبئی میں جناح سے پوچھا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ جیسے امریکہ اور کینیڈا کے ہیں ۔دوسری بات افغانستان سے متعلق تھی۔ اندیشہ ہے کہ اس سال لڑائی کا امریکی کردار ختم ہونے کے بعد طالبان کابل پر قبضہ کر لیں گے ۔اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے اس موقف کو دہرایا کہ ہم ہمسایہ ملک سے اتحادی فوجوں کا مکمل انخلا نہیں چاہتے۔ پاکستان میں پہلے ہی تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پڑے ہیں اور خانہ جنگی کے اندیشے کے تحت مزید آنا شروع ہو گئے ہیں ۔یہاں انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ''طالبان کے خلاف طاقت استعمال کرنی پڑے گی‘‘۔ یا یہ کہ ''غیر ملکی دہشت گروں کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جائے گی‘‘۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بھی افغان اور پاکستانی طالبان میں امتیاز نہیں کرتے۔ ''افغان طالبان ابھی سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے تیار نہیں‘‘۔ نیشنل سکیورٹی ا یڈوائزر سوزن رائس اور وزیر دفاع چک ہیگل سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں معنی خیز تھیں۔
یہ ہمارے سامنے کی بات ہے۔ حامد کرزئی سی آئی اے کے کندھوں پر سوار پاکستان کے پہاڑی علاقے سے ہوتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ آج وہ امریکہ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور اس دو طرفہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر رہے ہیں جس کی رو سے امریکہ 2014ء کے بعد آٹھ دس ہزار فوج افغانستان میں رکھے گا ۔گرمیوں میں افغان صدارتی الیکشن ہو گا ۔کرزئی از روئے آئین اب الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔ان کے بھائی محمود امید وار ہیں اور ان کے صاحبزادے قیوم‘ کابل بنک کو لوٹ کر ساری دنیا میں افغانستان کو بد نام کر چکے ہیں ۔ کرزئی نے لبنانی ریسٹورنٹ پر جان لیوا حملے اور افغان سویلین نقصان میں امریکہ کا ہاتھ دیکھا۔ امریکی مبصرین اس الزام تراشی کی دو تشریحات کر رہے ہیں۔ اول: کرزئی‘ باغیوں کے ساتھ اپنے تعلقات آرام دہ بنا نا چا ہتے ہیں۔ دوم: وہ ایک سپر پاور سے محاذ آرائی کرکے اپنا تصور اُجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ 
دو طرفہ میٹنگ کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں شکیل آفریدی کی رہائی کامطالبہ شامل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو امریکہ کو عافیہ صدیقی کی آزادی کے مطالبے کی بھی وضاحت کرنی پڑتی جو ایک عدالتی فیصلے کی رو سے امریکہ میں طویل قید بھگت رہی ہیں ۔ صدر اوبامہ نے 17جنوری کو جس قومی بجٹ کی منظوری دی اس میں تجویز کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر آفریدی کی قید کے حوالے سے 33 ملین ڈالر اس امداد سے روک لیے جائیں جو پاکستان کو دی جائے گی ۔وزارت خارجہ نے اس تجویز پر حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آفریدی کا کیس پاکستان کی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہے ۔ ان پر قوانین کی خلاف ورزی کا الزام ہے جن میں پولیو کی مہم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانا بھی شامل ہے ۔اس کیس کو امداد سے مشروط نہیں کیا جا سکتا ۔غالباً سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کا یہ اعتراض تسلیم کر لیا ہے اسی طرح جیسا کہ ڈرون کا منصوبہ سی آئی اے (سول) سے محکمہ دفا ع (ملٹری)کو منتقل کرنے کا پروگرام اس بجٹ سے باہر رکھا گیا ۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق یہ ''سیشن وزیر اعظم نواز شریف کے اکتوبر 2013 ء کے سرکاری دورے کی اساس پر منظم کیا گیا تھا‘‘۔ 
جان کیری نے ''السلام علیکم‘‘ کہہ کر کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر اپنے دفتر میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور یوں سردی کی شدت میں قدرے کمی کی۔ میٹنگ میں ڈائیلاگ کے ان پانچ مشترکہ گروپوں کی رفتار کار کا جائزہ لیا گیا جو توانائی‘ حفاظت‘ استحکام اور ایٹمی عدمِ پھیلاؤ قانون کے نفاذ اور دہشت گردی کے توڑ اور اقتصادی و تعلیمی ترقی کے میدانوں میں کام کر رہے ہیں ۔ رات کو سرتاج عزیز‘ وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف اور دوسرے پاکستانیوں کے اعزاز میں ڈنر کے دوران نائب وزیر خا رجہ مس ہیدر ہگن باٹم نے پتے کی بات کہی۔ ''دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری‘ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا مستقبل ہیں۔ پاکستان امریکی کاروبار کے لیے ایک اہم منڈی کے طور پر اُبھر رہا ہے اور امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار ہے۔ 2012 ء میں دو طرفہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے زیادہ تھا‘‘۔ با ایں ہمہ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز جیسے بڑے اخبارات نے پاکستانی وفد کے دورے کو کوئی کوریج نہیں دی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved