تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     31-01-2014

اپنے اپنے ہیرو‘ اپنے اپنے شہید

بھارت نے 26 جنوری 1950ء کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ (1935ء) ختم کر کے اپنے ملک میں نیا آئین نافذ کردیا تھا۔ اس حوالے سے 26 جنوری کو عام تعطیل ہوتی ہے اور یومِ جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ دہلی میں عسکری پریڈ تقریبات کا حصہ ہوتی ہے۔ پریڈ میں ہر ریاست اپنی اپنی نمائندگی کرتی ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر ایسی یادگاریں یا امتیازی نشانات سوار کر کے پریڈ کے ساتھ پھرائے جاتے ہیں جو متعلقہ ریاست کی تاریخی‘ ثقافتی یا سماجی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب کے 26 جنوری کی پریڈ میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کرناٹک کی ریاست نے پریڈ میں اپنی نمائندگی ٹیپو سلطان کے تابلو (Tableau) سے کی۔ ٹیپو کا بہت بڑا مجسمہ رکھا گیا جس میں وہ تلوار لہرا رہا تھا۔ ساتھ ہی شیر تھا جو ٹیپو کا نام بھی تھا اور نشان بھی۔ ساتھ اُس کے سپاہی تھے‘ جو اسی زمانے کا لباس پہنے تھے۔ کرناٹک کی ریاست کا اصل نام میسور تھا۔ 1973ء میں بھارتی سرکار نے اسے کرناٹک کا نام دے دیا۔ بنگلور اس کا دارالحکومت ہے جو آئی ٹی کا بہت بڑا مرکز ہے۔ 
پریڈ میں ٹیپو سلطان کے تابلو سے پورے بھارت میں ہلچل مچ گئی۔ اکثر بھارتیوں کے نزدیک ٹیپو کو بطور ہیرو قبول کرنا مشکل ہو گیا۔ میڈیا میں مباحثہ چھڑ گیا جو بڑھتے بڑھتے تلخ بحث کی شکل اختیار کر گیا۔ ٹوئٹر پر ایک طویل مناظرہ برپا ہو گیا جس کی گونج بھارتی میڈیا سے ہوتے ہوتے لندن میں بی بی سی تک سنائی دے رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق دس ہزار تبصرے اب تک درج ہو چکے ہیں۔ چند کمنٹ‘ مشتے‘ نمونہ ازخروارے‘ یہ ہیں: 
ٹیپو واحد بادشاہ ہے جو میدانِ جنگ میں ختم ہوا۔ اس نے آزادی کے لیے اپنے بچے تک گروی رکھ دیے۔ وہ اصلی شیر ہے۔ 
......... 
حیدر علی ایران سے تھا اور حملہ آور تھا۔ ٹیپو اس کا بیٹا تھا۔ یہ لوگ ہندوستانی نہیں تھے۔ اگر ٹیپو کو ہیرو مان لیں تو پھر بابر‘ محمود غزنوی‘ نادرشاہ‘ غوری اور محمد بن قاسم سب کو ہیرو ماننا پڑے گا۔ 
......... 
جو ٹیپو کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں انہیں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم! اس نے ہزاروں ہندوئوں کو قتل کیا۔ مندر جلا دیے اور آج ہم اُسے اس لیے ہیرو مان لیں کہ وہ تمہارے فرقے سے تھا؟ 
......... 
میں ایک سیدھا سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب اس ملک میں ہندوئوں کے ہیروز کی تعریف کی جاتی ہے تو کیا کبھی کسی مسلمان نے اعتراض کیا؟ جب کسی مسلمان کا نام لیا جاتا ہے تو کیوں پیشانیوں پر بل پڑ جاتے ہیں اور کیوں لیکچر دیے جاتے ہیں کہ مذہب سے بلند ہو کر سوچنا چاہیے؟ آخر دوہرا معیار کیوں؟ سارے ہیرو خواہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان‘ سکھ ہیں یا عیسائی‘ ہمارے اپنے ہیرو ہیں! 
......... 
تو کیا تمہیں تاریخ پی ٹی سکھانے والے استاد نے پڑھائی تھی؟ 
......... 
تم لوگ تاریخ نہیں بدل سکتے۔ ٹیپو اصل ہیرو ہے۔ اس نے مادرِ وطن کا دفاع کیا۔ اس کے برعکس نظام اور مرہٹے انگریزوں کا ساتھ دیتے رہے اور ان کی مدد سے انگریز قابض ہوئے۔ ٹیپو کی مخالفت کرنے والے بھارت کے غدار ہیں۔ 
......... 
احمق! ٹیپو نے کیرالہ کے تین ہزار سے زیادہ مندروں کو تباہ و برباد کیا اور لوٹا ہوا مال میسور روانہ کردیا۔ 
......... 
ٹیپو کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس نے لاکھوں ہندوئوں کو زبردستی مسلمان بنایا۔ جنہوں نے مزاحمت کی‘ انہیں مار دیا گیا۔ حیرت ہے کہ کچھ لوگ اس ملک میں اب بھی اُس کی تعریف کرتے ہیں! 
......... 
یہ بات خوش آئند ہے کہ کرناٹک کی حکومت نے ٹیپو کو اُس کا اصل مقام دیا۔ 
......... 
اور کرناٹک کی حکومت یہ بھول گئی کہ ٹیپو نے ہندوئوں پر ظلم ڈھائے۔ 
......... 
ٹیپو نے جہاں مسجدیں تعمیر کیں‘ وہاں مندر بھی بنائے۔ 
......... 
یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ٹیپو نے کیرالہ میں ہندوئوں کو مارا لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس کی بہادری کی انگریز حکومت تک نے تعریف کی۔ اس نے دنیا میں سب سے پہلے راکٹ بنایا جس کی امریکیوں نے سول وار میں نقل کی۔ 
......... 
افسوس! ہم ٹیپو کو سلام کرنے کے لیے تیار نہیں‘ لیکن مودی کو ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ 
......... 
مظلوم کون ہے؟ وہ جنہوں نے پہلے ٹرین کو آگ لگائی تھی یا وہ جنہوں نے ردعمل ظاہر کیا۔ 
......... 
یہ ایک لامتناہی بحث ہے جو گزشتہ پانچ دن سے بھارت میں چل رہی ہے۔ ہزاروں لوگ ٹویئٹر کے ذریعے اس میں شریک ہیں۔ ٹیپو کے حامی‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس یا پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں۔ یہ ہے وہ عملی صورتِ حال جس کے متعلق قائداعظم نے تنبیہ کی تھی۔ 1940ء میں مسلم لیگ اجلاس کے صدارتی خطبے میں انہوں نے وہ نقشہ کھینچا جس کا بھارتی مسلمان آج سامنا کر رہے ہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا: ''ہندو اور مسلمان تاریخ کے جن سرچشموں سے قوت لیتے ہیں‘ وہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہیں۔ اُن کے رزم نامے الگ ہیں۔ ہیرو الگ الگ ہیں اور واقعات الگ الگ ہیں۔ اکثر و بیشتر ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہے۔ اسی طرح ایک کی 
فتح دوسرے کی شکست ہے‘‘۔ 
آج جو حضرات کہتے ہیں کہ پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی‘ انہیں قائداعظم کی بصیرت اور دوراندیشی پر غور کرنا چاہیے۔ آج بھارت کے مسلمان بچے مجبور ہیں کہ شیواجی سندھیا اور انندپال کو ہیرو کے طور پر کتابوں میں پڑھیں اور ٹیپو اور محمود غزنوی کا ذکر غیر ملکی اور دشمن کے طور پر سنیں۔ یہ 1947ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان ہونے والی کسی بحث کا تذکرہ نہیں۔ یہ آج کے بھارت کا واقعہ ہے۔ ٹیپو کو پورے بھارت کا تو کیا‘ ایک ریاست کا ہیرو بھی نہیں تسلیم کیا جا رہا! 
لیکن اس آئینے میں ایک اور چہرہ بھی ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ آج پاکستان میں بھی وہی صورتِ حال ہے جس کی طرف قائداعظم نے اشارہ کیا تھا۔ ہیرو اور ولن مختلف۔ ایک کی فتح‘ دوسرے کی شکست! ہم بھارتی مسلمانوں کی کیا اشک شوئی کریں گے‘ جب کہ یہاں قائداعظم کے پاکستان میں قائداعظم کو قائداعظم نہیں سمجھا جا رہا ؎ 
یہاں تو بھرتے نہیں زخم زار اپنے ہی 
کسی کی زرد محبت کی کیا خبر لیتے 
آج پاکستان دو گروہوں میں بٹ چکا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ حقیقت یہی ہے۔ ایک گروہ کے شہید الگ ہیں اور دوسرے کے الگ۔ ایک کے ہیرو دوسرے کے دشمن ہیں اور ایک کے دشمن دوسرے کے ہیرو۔ ایک کی وفاداریاں اس دھرتی سے اور اس دھرتی کی مٹی‘ چاندنی اور ہوا سے ہیں اور دوسرے کی وابستگیاں کہیں اور ہیں۔ 
افسوس! آج حسین احمد مدنی تو بہت ہیں‘ قائداعظم اور اقبال کوئی نہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved