تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-01-2014

پاکستان کا گوادر

جنوری 2008ء میں بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈ مرل سریش مہتا نے نئی دہلی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا: گوادر کی بندر گاہ بھارت کیلئے سنجیدہ نوعیت کی سٹریٹیجک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ گوادر آبنائے ہر مز کی خارجی گزر گاہ سے محض180 ناٹیکل میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان توانائی کی عالمی شہ رگ کا کنٹرول سنبھال کر بھارتی آئل ٹینکروں کیلئے رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے جبکہ چین بحر ہند میں اپنی توانائی کی آبی گزر گاہ کو محفوظ بنانے کیلئے اس کی راہ میں اپنے اڈوں کا قیام چاہتا ہے اور یہ گزر گاہ شمال کی جانب گوادر کی گہری بندر گاہ تک آتی ہے۔ بھارتی ایڈ مرل نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ گوادر سے کراچی کیلئے سڑک کی تعمیر کا کام جاری ہے اور اسے قراقرم ہائی وے تک توسیع دینے کا منصوبہ ہے جس سے چین کو بحر ہند تک رسائی مل جائے گی۔گوادر کھلے سمندر اور خلیج ہرمز کی سیدھ میں واقع ہونے کی وجہ سے کبھی بھی گنجان ایریانہیں بنے گا۔ یہ واحد بندرگاہ ہو گی جس کے آسان زمینی راستے چین‘ افغانستان‘ ایران اور تمام ایشیائی ریاستوں سے منسلک ہیں۔ انڈس ہائی وے کی تعمیر سے گوادر اور چین کا براہ راست زمینی رابطہ مکمل ہو جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ کیے گئے ایک معاہدے سے چین ‘ قازقستان‘ کرغیزستان اور ازبکستان کے ساتھ ریلوے اور سڑکوں کا معاہدہ ہو چکا ہے جس سے سنٹرل ایشیا اور گوادر ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں گے۔ بر صغیر کی آزادی کے وقت مغربی ساحل کے چار مقامات بیرونی طاقتوں کے زیر قبضہ تھے۔ ان میں 1535 مربع میل کا بھارتی ساحلی علاقہ گوا‘دمن اور دیو پرتگال کے قبضہ میں تھا اور پاکستانی علاقہ میں واقع گوادر ‘مسقط کے زیر تسلط تھا۔ 1958ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم سر فیروز خان نون نے 10 ملین روپے (آج کے 115 بلین روپے ) ادا کر کے کشتیوں کی اس چھوٹی سی بندر گاہ کو مسقط کے سلطان سے خرید لیا۔ 1961ء کی مردم شماری میں یہاں کل 13 ہزار افراد رہائش پذیر تھے ۔گوادر کے 800میل لمبے ساحل پر دنیا کی انتہائی قیمتی مچھلیاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں کچھ سال پہلے امریکہ کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے پاکستان سے 480ملین ڈالر کاایک معاہدہ کیا جس کے مطابق اس کمپنی کے 250 بڑے بڑے ٹرالر یہاں لنگر انداز ہونے تھے تاکہ یہاں سے مچھلیاں پکڑ سکیں کیونکہ گوادر میں انتہائی قیمتی مچھلیاں بے تحاشا موجود ہیں جن میں ''گور‘‘ نام کی نادر اور نا یاب مچھلی بھی شامل ہے جو صرف سردیوں یا سرد ملکوں میں استعمال کی جاتی ہے۔۔۔۔ لیکن سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے یہ معاہدہ ختم کر کے گوادر بندرگاہ بنانے کا اعلان کر دیا اور چین سے اس کی تکمیل کا معاہدہ کر لیا۔ گوادر پورٹ کے پہلے فیز کو چائنا ہار بر انجینئرنگ کمپنی نے 248 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا۔ اس منصوبہ میں چین نے 198ملین اور پاکستان نے 50ملین ڈالر خرچ کئے۔ اس کے علا وہ بندر گاہ کو مزید 14.5میٹر گہرا کرنے کیلئے 2226ملین ڈالر کا ایک اور معاہدہ چین سے کیا تاکہ دنیا کے بڑے سے بڑے جہاز یہاں آسانی سے لنگر انداز ہو سکیں۔یہی وجہ ہے کہ کچھ قوتوں نے تخریب کاری کے نام پرپاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئروں کو قتل کرا نا شروع کر دیا تاکہ چینی حکومت ان منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لے۔ 
پاکستان میں اس وقت دو بڑی بندر گاہیں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم کام کر رہی ہیں لیکن یہ دونوں بندرگاہیں ایشیا کی بیشتر بندرگاہوں کولمبو پورٹ‘ ممبئی پورٹ‘ دبئی پورٹ‘ چاہ بہار ا ور بندر عباس سے کہیں زیادہ مہنگی ہیںلیکن گوادر پورٹ بننے سے یہ دنیا کی سب سے سستی بندرگاہ بن جائے گی اور دنیا کی تمام جہاز راں اور کارگو کمپنیاں اس خطے اور اس کے ارد گرد سمندروں میں واقع دوسرے ممالک کی بندرگاہوں کی نسبت گوادر کو ترجیح دیں گی۔ 1995ء سے 2000ء تک کراچی پورٹ پچاس فیصد سے بھی زیادہ کیش فلو میں نیچے گر چکی جس کی وجہ بندرگاہ کے اخراجات کا ا یشیا کی دوسری بندرگاہوں سے زیادہ ہونا ہے اور اسی مناسبت سے ہماری امپورٹ مہنگی پڑتی ہیں اور بھارت اور دوسرے ممالک کی نسبت ہماری تیار شدہ اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں۔افغانستان اور اس کے پہلو میں واقع وسط ایشیائی ریاستوںکو تجارت کیلئے گوادر بہترین اور سستا ترین ذریعہ ہو گا۔آٹھ کے قریب یہ ایشیائی ریاستیں بہت سے قدرتی وسائل سے ما لا مال ہیں اورانہیں اپنی یہ دولت پوری دنیا میں بکھیرنے کا آسان راستہ نہیں مل رہا تھا۔ گوادر کا یہ ساحل ان کیلئے قریب ترین اور سستاہے۔ 
گوادر کی یہ بندر گاہ نہ صرف ایشیائی اور خلیجی ممالک کیلئے سمندری دروازے کا کام دے گی بلکہ چین کا سامان تجارت بھی شاہراہ قراقرم اور موٹر ویز کے ذریعے گوادر سے تمام بیرونی دنیا کو بھیجا جا سکے گا۔ چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ پاکستان کے شمالی علا قہ جات سے ملا ہواہے اور وہ چین کے ساحل بحرالکاہل کی بندر گاہوں کی نسبت گوادر کے زیادہ قریب ہے۔ درہ خنجراب اور قراقرم ہائی وے کے ذریعے گوادر تک اس کا سمندر سے فاصلہ 2000کلو میٹر سے بھی کم ہے۔ گوادر کی تعمیر کے علاوہ دنیا کی تین سب سے بڑی تیل کمپنیوں نے گوادر کی 
بندرگاہ کو دوسرے ممالک میں اپنے تیل کی شپنگ کیلئے منتخب کر لیا ہے اور وہ وہاں پر اپنی آئل ریفائنریز بنا نا چاہتی ہیں اور یہ آئل ریفائنریاں بننے کے بعد آدھی سے زائد دنیا کو تیل پاکستان سے مہیا ہو گا اور ہمارے ملک میں بھی تیل کی مدمیں کم خرچہ برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ اس سے کروڑوں ڈالر سالانہ کی بچت ہونے کے ساتھ وقت بھی کم لگے گا لیکن دوسری طرف کچھ دوست ملکوں سمیت بہت سوں کے گاہک چھن جائیں گے اور سب سے بڑی فکر جو بھارت کو ایک پل آرام نہیں دے رہی‘ یہ ہے کہ1971ء کی جنگ میں اس نے کراچی کی بندر گاہ کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیا تھا لیکن گوادر کی یہ بندر گاہ بھارتی بحریہ کی پہنچ سے کوسوں دور ہے ۔
چین نے پاکستان کو گوادر پورٹ مکمل کرنے اور چلانے کی پیشکش کی جسے پاکستان نے قبول کر لیا ہے ۔گوادر پر باقی ماندہ سہولتوں کی فراہمی کے بعد کام شروع ہوتے ہی دنیا کی تیس فیصد سے بھی زیادہ برآمدات صرف گوادر سے ہوں گی ۔گوادر ‘ڈیپ سی پورٹ دوبئی اور سلالہ پورٹ سے بھی بڑی ہو گی ۔ پاکستانیوں کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑیں گی کیونکہ گوادر پاکستان کا مستقبل ہے۔ ایک سپر پاور ‘علا قائی قوتوںکو استعمال کر کے بلوچ قومیت کی آڑ میں پاکستان کی ترقی کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کی سازشیں کر رہی ہے۔ عوام یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ مخالفت فوج یا ایف سی کی نہیں بلکہ آنے والے خوشحال اور مضبوط پاکستان اور ان کے شاندار مستقبل کی مخالفت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved