تو جب اس نے یہ کہا کہ وہی اس فیکٹری کا مالک ہے تو مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس لیے کہ میری قیادت میں محنت کش جب توڑ پھوڑ کر رہے تھے تو وہ بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ شریک تھا۔بے یقینی کے عالم میں ، میں اسے دیکھتا رہ گیا۔
ملک میں سوشلسٹ انقلاب رونما ہو چکا تھا۔کارخانوں اور کھیتوں کھلیانوں میں اب پسینہ بہانے والے قابض تھے ۔ بہت سے سرمایہ دار ان کے غیظ و غضب کا نشانہ بن چکے تھے ، باقی جان بچاکر بھاگ رہے تھے ۔ میں اور میری طرح کے دوسرے لکھاری اس انقلاب کے ہیرو تھے ۔ اپنی تحریروں سے ہم ہی نے تو استحصال کے شکار مظلوموں کے ذہن میںبغاوت کے بیج بوئے تھے ۔ اپنی ساری زندگی میں نے اس انقلاب کا انتظار کیا تھا؛چنانچہ قلم ایک طرف رکھ کے میں عمل کے میدان میں کود پڑا۔آج میں کئی کارخانوںپہ محنت کشوں کا قبضہ مستحکم کر چکا تھا لیکن ایسا بے وقوف سرمایہ دار میں پہلی بار دیکھ رہا تھا، راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے ، جو خودہنگامہ آرائی میں شامل تھا۔
میرے تاثرات دیکھ کر وہ ہنس پڑا اور کہا ''برسوں پہلے میرے اہل و عیال ایک حادثے میں مر گئے اور میں اب تنہا ہوں۔ میرے پاس اتنی رقم بہرحال موجود ہے کہ بڑھاپے کے بچے کھچے برسوں میں کسی کی محتاجی نہ ہو۔ جوانی میں یہ کارخانہ میں نے اپنی ساری جمع پونجی لٹا کر بڑی محنت سے قائم کیا تھا۔ اسے منافع بخش بنانے میں میری جوانی کے ماہ و سال صرف ہوئے تھے ۔ توانائی کے شدید بحران کے باوجود میں کسی نہ کسی طرح اس کی گاڑی کھینچتا رہا کہ محنت کش بے روزگار نہ ہوں ۔ گو کہ یہ بڑا مشکل تھا لیکن حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کم از کم اجرت میں انہیں ادا کرتا رہا۔ دوسری طرف تمہیں روزانہ انقلاب کا ڈھول بجائے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ لو آگیا انقلاب‘‘۔
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ''ہاں ، آگیا انقلاب۔ اب نجی ملکیت کا خاتمہ ہوگا۔ استحصال کا خاتمہ ہوگا۔ محنت کشوں کی بادشاہی ہوگی...‘‘ اس نے میرافقرہ اچک لیا ''محنت کشوں کی بادشاہی ہوگی اور چند دنوں میں یہ فیکٹری اللہ کو پیاری ہوگی۔ میرے پیارے، یہ ان پڑھ جاہل مزدور ہیں ۔ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ کاروبار کیسے چلتا ہے۔ تمہارے بہکاوے میں آکر یہ ناچتے پھر رہے ہیں۔ یہ سب مل کر کارخانہ چلائیں گے؟ دو چار دن بعد یہ زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے لیے ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہے ہوں گے۔ اور نجی ملکیت ختم کیسے ہو سکتی ہے ؟ سارے ذرائع پیداوار ، سارے کھیت، سارے کارخانے ، ہر چیز حکومت کی تحویل میں ؟ وہ حکومت جو چند سرکاری کارپوریشنوں میں پانچ سو ارب سالانہ کا خسارہ اٹھاتی ہے ؟جا کر سرکارکے ملازموں کا حال دیکھو، جو منہ لٹکائے بے دلی سے وقت گزاری کرتے ہیں۔ حکومت کا سالانہ بجٹ 3500ارب روپے ہے لیکن ملک میں ہر سال 23ہزار ارب روپے کی معاشی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں ۔ یہ حکومت کے بس کا کھیل نہیں‘‘۔
میں نے یہ کہا ''او بے وقوف ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے ۔ امریکہ اور یورپ کی معیشتیں ڈوب رہی ہیں‘‘ ''ہاں ڈوب رہی ہیں‘‘۔ اس نے کہا ''اس لیے کہ امریکہ کا ہر شہری اپنا گھر رہن رکھوا کر قرض لیتا ہے ۔ گاڑی سے لے کر جہاز تک ، ہر چیز وہ قسطوں پہ خریدتا ہے ۔ ایک جعلی خوشحالی اور بلند طرزِ زندگی ہے ۔جس بینک کے پاس کُل100روپے پڑے ہیں ، وہ ایک لاکھ روپے کے قرض جاری (Credit Creation)کر رہا ہے ۔ معیشت گرے گی نہیں تو اور کیا ہوگا۔ اور یاد رکھو، ازل سے ابد تک ، ہر عالمی طاقت اپنے غلط فیصلوں کا شکار ہوتی رہی ہے ۔روم اور یونان سے لے کر جرمنی اور سویت یونین تک ، سب زوال کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکہ بھی ہورہا ہے‘‘۔
اس بے وقوف کا سارا بھاشن میں نے سنی ان سنی کر دیا اور یہ کہا ''تم جو مرضی بکواس کرتے پھرو، یہ طبقاتی نظام ساری بیماریوں کی جڑ ہے اور یہ ختم ہو کر رہے گا۔ زندگی کی بنیادی ضروریات ریاست ہر شہری کو فراہم کرے گی‘‘ کہنے لگا ''بالکل یہ ریاست کا فرض ہے کہ تعلیم اور علاج سمیت بنیادی ضروریات فراہم کرے اور اس کے لیے ایک تحریک اٹھانی چاہیے تھی۔ ریاست کا فرض یہ بھی ہے کہ اجارہ داریوںکا خاتمہ کرے اور سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو اپنی معاشی پالیسیوں سے ناکام بنائے۔ دوسری طرف یہ جو تم سوچ رہے ہو کہ ہر ہڈ حرام اور محنتی، قابل اور کور مغز ، اعلیٰ تعلیمی صلاحیتیں دکھانے والے اور کتاب کو ہاتھ نہ لگانے والے کو ایک ترازو میں تول دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں ۔ جو نظام تم بنانے چلے ہو، اس میں محنتی اور قابل لوگوں کے لیے مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ جو دماغ استعمال نہ کرے ، جو زندگی میں آگے بڑھنے کی تگ و دو نہ کرے ، اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ ایسے ناکارہ لوگوں کو ریاست گود میں اٹھائے پھرے تو اتنا بوجھ اٹھانا اس کے بس میں نہیں‘‘۔
میں نے اسے سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی تضاد بتایا ۔ یہ کہ قرض کے بل پر کارخانے قائم کیے جاتے ہیں ۔ پھر اسے لوٹانے کے لیے محنت کشوں کو کم از کم اجرت ادا کی جاتی ہے؛ چنانچہ ان کی قوتِ خرید میں کمی آجاتی ہے ۔ دوسری طرف فیکٹری میں بننے والی اشیا انہی کے لیے پیدا کی جا رہی ہوتی ہیں۔ ایسا نظام کیسے چل سکتاہے ؟ میں نے داد طلب نظروں سے اسے دیکھا۔ اس نے مجھے کہا کہ اپنی یہ تھیوری کسی پڑھے لکھے آدمی کو نہ بتانا ورنہ بڑی شرمندگی اٹھانا پڑے گی ۔ اس لیے کہ کارخانوں میں صرف مزدوروں کے لیے بنیادی ضرورت کی اشیا نہیں بنتیں ۔ کسان سے لے کر ڈاکٹر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ، طالب علم، انجینئر، صحافی ہر ایک کی ضروریات ذہن میں رکھ کرپیداوار اور کاروبار شروع کیا جاتاہے ۔ اس نے کہا کہ جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، بہتر ہوتا کہ تم اپنا انقلاب چند برسوں کے لیے ملتوی کر دیتے ۔ اس لیے کہ اس سارے ہنگامے کو دیکھ کر طالبان بھنگڑے ڈالتے پھر رہے ہیں ۔ ایک اور بات اس نے مجھے یہ بتائی کہ تمہارے جوانوں کو انقلاب کے جدّ امجد کا نام تک تو معلوم نہیں ۔ وہ ''کارل مارکس‘‘ کی بجائے ''کالا ماس‘‘ کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں ۔
اس کی اس گستاخی نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اسے ایک بورژوا دانشور اور رجعتی سوچ کا مالک قرار دے کر نظرانداز کر دوں ۔