کالم تو پاکستان کے دو میچور سیاستدانوںکے تھرکول منصوبے کی مشترکہ تقریب افتتاح میں حصہ لینے پر لکھنا ہے۔ پہلے ذرا مشرق و مغرب کے بادشاہ‘ چوہدری نثار علی خان کے شاہانہ انداز پر بات ہو جائے۔ گزشتہ روز وہ پارلیمنٹ ہائوس کی طرف جا رہے تھے۔ اتفاق سے ان کے آگے کوریا کا ایک وفد سڑک پر آ گیا۔ سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کی وجہ سے سڑک کچھ دیر کے لئے بند تھی۔ مشرق و مغرب کے بادشاہ کو انتظار میں رکنا پڑا‘ جو 5منٹ سے زیادہ نہیں تھا۔ کاروں کی قطار میں‘ ان کے پیچھے متعدد ایم این اے اور وزیر بھی تھے۔ وہ سب انتظار میں کھڑے ہو گئے ۔ لیکن مشرق و مغرب کے بادشاہ کی نظر میں امریکہ کی کوئی حیثیت نہیں‘ کوریا کو وہ کیا سمجھتے ہیں؟ موصوف طیش میں آ گئے۔ مشرق و مغرب کی بادشاہی کو ادنیٰ پولیس افسروں نے جو چیلنج کر دیا‘ وہ مزاج شاہی کے لئے ناقابل برداشت تھا۔افسروں کو حکم دیا گیا کہ وہ فوری طور پر شاہی دفتر میں حاضری دیں۔ خوفزدہ پولیس والوں نے فوری طور پر راستہ بنایا اور جیسے ہی شاہی سواری اپنے دفتر میں پہنچی‘ پولیس افسران حاضر ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے لئے عتاب شاہی کا نظارہ کیا اور اپنی قسمت پر ''رشک‘‘ کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی پولیس‘ مشرق و مغرب کے بادشاہ کے ماتحت ہے اور شہر کے تمام اہم انتظامات ان کے نوٹس میں ہوتے ہیں۔ وہ اگر چاہتے‘ تو شاہی سواری کے لئے خصوصی انتظامات کا حکم دے سکتے تھے۔ مثلاً کہا جا سکتا تھا کہ کوریا کے وفد کو شاہی سواری کی آمد سے پہلے یا بعد میں راستہ دے دیا جائے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ شاہی سواری بلا روک ٹوک‘ ایک لمحہ رکے بغیر‘ پارلیمنٹ ہائوس پہنچ سکے۔
اصولی طور پر آج کا اہم ترین موضوع‘ تھرکول بجلی منصوبے کا افتتاح ہے‘ جہاں سابق صدر جناب آصف علی زرداری اور مضبوط ترین وزیر اعظم جناب نوازشریف نے مشترکہ طور پر منصوبے کا آغازکیا۔ ہم پاکستانیوں کے لئے یہ ایک انوکھا اور خوشگوار تجربہ تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو جیل میں ڈالنے کی تاک میں رہتے تھے۔ وقت نے دونوں کو جو کچھ سکھایا‘ اس کی پہلی مثال مذکورہ تقریب تھی۔ دونوں رہنمائوں نے مل کر تھرکول منصوبے کا افتتاح کیا۔ مکمل ہونے پر ملک کو 660 میگاواٹ بجلی مزید دستیاب ہو جائے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تھر میں کوئلے کے اتنے بھاری ذخیرے موجود ہیں کہ پاکستان صدیوں تک ان سے حاصل ہونے والی توانائی سے اپنی تمام ضرورتیں پوری کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کی بیورو کریسی نے ایسے ایسے کرتب دکھائے کہ ہم اپنی خودمختاری کو دائو پر لگا کر‘ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش میں رہے‘ جو کبھی پوری نہیں ہوئیں۔ آج بھی ہم اپنے اوقات کار کا آدھا وقت تاریکی میں گزارتے ہیں۔ اس دوران نہ فیکٹریاں چلتی ہیں۔ نہ دفاتر میں کام ہوتا ہے۔ نہ مارکیٹوں میں پورا کاروبار ہو سکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ٹریفک سگنلز تک بند ہو جاتے ہیں اور یہ ساری تاریکیاں ہم اپنا پیٹ کاٹ کر حاصل کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ پاکستان کو تیل فراہم کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہمارے پالیسی سازوں پر
''جادو‘‘ کر رکھا ہے۔ ہمارے بااختیار بیوروکریٹس اور نام نہاد ماہرین کا واحد کام یہ ہے کہ توانائی پیدا کرنے کے پاکستانی وسائل اور ذرائع کو بروئے عمل آنے سے روکا جائے۔ صرف شمالی علاقہ جات میں 20سے 25ہزارمیگاواٹ بجلی‘ ہم بڑی سرمایہ کاری کے بغیر پیدا کر سکتے ہیں۔ صرف جھرنوں اور آبشاروں کے نیچے چھوٹے بڑے ٹربائن نصب کر کے‘ وہاں دو یا تین گارڈز رکھے جا سکتے ہیں۔ نہ بڑی تعمیرات کی ضرورت ہے۔ نہ ڈیم بنانے کا مسئلہ ہے۔ سب کچھ قدرت نے ہمیں عطاکر رکھا ہے۔ متعدد بیرونی کمپنیاں پیش کشیں کر چکی ہیں کہ وہ بجلی پیدا کرنے کے تمام انتظامات خود کریں گی اور انہیں منافع کا کچھ حصہ دے دیا جائے۔ ایسی سکیمیں 1980ء سے سرکاری دفتروں میں پڑی ہیں۔ لیکن یہ مفت کی بجلی ہمارے بیوروکریٹس کو راس نہیں آتی۔ وجہ آپ سب جانتے ہیں۔
قومی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبے طویل المیعاد ہوتے ہیں اور ان کے مکمل ہونے میں 5سے 10 سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ کسی افسر کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ اتنی دیر تک اپنی پوسٹ پر موجود رہے گا۔ جو بھی افسر آتا ہے‘ وہ جلدی جلدی ایسے کاموں پر ہاتھ ڈالتا ہے‘ جو دوچار مہینوں کے اندر اندر ''پھل‘‘ دے دیں۔بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے اصل حکمران افسران اعلیٰ‘ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ فوجی آمر آئیں تو انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ اگلے دن وہ اقتدار میں ہوں گے؟ جلاوطن ہوں گے؟ یا قبر میں ہوں گے؟یہی حال سیاسی حکمرانوں کا ہے۔ انہیں بھی پتہ نہیں ہوتا کہ5سال کے لئے منتخب ہونے کے باوجود‘ ان کے اقتدار کا آخری دن کب آئے گا؟ آصف زرداری ہماری تاریخ کے پہلے صدر ہیں‘ جن کا دور اقتدار 5سال کو محیط رہا۔ یہ 5سال نوازشریف اور آصف زرداری کے تلخ تجربوں سے حاصل شدہ مشترکہ سبق کی وجہ سے پورے ہو پائے۔ تھرکول منصوبہ شروع کرنے کا حوصلہ بھی انہی دونوں میں اتفاق رائے کی وجہ سے کیا جا سکا۔ یہ4سال کا منصوبہ ہے۔ مگر ہمارے حقیقی حکمران یعنی بیوروکریٹس‘ بڑے بڑے کمالات دکھانے کے ماہر ہیں‘ یہ منصوبہ ان کے سامنے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ آج ہی کی خبر ہے کہ 3سال پہلے ابوظہبی نے پاکستان کو 320میگاواٹ کا پاور پلانٹ تحفے میں دیا تھا۔ پاکستان کو صرف یہ کرنا تھا کہ اس پاور پلانٹ کو انرجی فراہم کر کے بجلی حاصل کرنا شروع کر دے۔ اس پلانٹ کی ساری مشینری فیصل آباد پہنچا دی گئی۔ گزشتہ 3سال کا عرصہ بجلی کی بدترین قلت کا زمانہ رہا ہے۔ آج بھی صورتحال نہیں بدلی۔ لیکن بیوروکریسی کی طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا چاہیے کہ تحفے میں ملے ہوئے پاور پلانٹ کی بجلی بھی پاکستانیوں کو نہ مل
سکی۔ ان کی ''حب الوطنی‘‘ کا عالم یہ ہے کہ پاکستانی سرمایہ داروں کے لگائے ہوئے پاور پلانٹس جو سوئی گیس اور درآمدی فیول سے چلتے ہیں‘ کی بنی ہوئی بجلی بھاری منافع ادا کر کے خریدی جا رہی ہے۔ لیکن 320میگاواٹ بجلی اسی فیول سے تیار کر کے‘ بغیر کسی نفع کے‘ سروس چارج پورے کر کے دی جا سکتی ہے۔یہاں بھی وجہ آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی۔ نجی پاور پلانٹس‘ جو بجلی فروخت کرتے ہیں‘ اس میں وہ غیرمعمولی منافع کماتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں ہوتی۔ جو بجلی سرکاری محکمے خریدتے ہیں‘ اس کے بل حاصل شدہ بجلی سے کہیں زیادہ بنوا کر منظور کر دیئے جاتے ہیں۔ جو بجلی فراہم کئے بغیربھاری بل ادا کئے جاتے ہیں‘ وہ کہاں جاتی ہے؟ بندھاٹکا جواب ہے کہ ''چوری ہو جاتی ہے۔‘‘ آپ کو یاد ہو گا‘ موجودہ حکومت نے بڑے جوش و جذبے اور پختہ ارادے کے ساتھ بجلی چور پکڑنے کی مہم چلائی تھی۔ چند ایک پکڑے بھی گئے۔ خبریں بھی آئیں۔ پھر کیا ہوا؟ وہی ہوا‘ جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ بھاری منافع پر بجلی خریدی جا رہی ہے اور جتنی بجلی خریدی جاتی ہے‘ اس سے زیادہ کا بل بھی ادا ہو رہا ہے اور جتنی بجلی خریدے بغیر‘ اس کا بل دیا جاتا ہے‘ وہ چوری کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔ اب سمجھ گئے ہوں گے کہ گردشی قرضے کیوں بنتے ہیں؟ جتنی بجلی خریدکر فروخت کی جاتی ہے‘ اس سے کہیں کم قیمت وصول ہوتی ہے۔ نجی ادارے اصلی اور فرضی بجلی کا پورا بل وصول کرتے ہیں۔ کمی پوری کرنے کے لئے سرکاری خزانے پر ہاتھ مارا جاتا ہے۔ حکومت کے مالی حالات کی وجہ سے خسارے کی رقم پوری کرنے میں مشکل پڑتی ہے۔ یہ رقم جمع ہو کر گردشی قرضہ بنتی ہے اور پھر ہر تین چار مہینوں کے بعد‘ چار پانچ ارب روپیہ سرکاری خزانے سے نکال کر نجی کمپنیوں کے مالکان کو دے دیا جاتا ہے اور ''مال غنیمت‘‘ آپس میں بانٹ لیا جاتا ہے۔ 1964ء کے بعد پاکستان نے سرکاری شعبے میں بڑے منصوبے کیوں شروع نہیں کئے؟ کالاباغ ڈیم کیوں نہیں بن سکا؟ تھر کا کوئلہ ہم استعمال میں کیوں نہیں لا سکے؟ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں پن بجلی پیدا کرنے کے وسائل کیوں بروئے کار نہیں لائے جا سکے؟ پاکستان میں موجود بے پناہ شیل انرجی سے ہم فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکے؟ جواب صرف ایک ہے کہ ان سارے کاموں کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے والے کی پوسٹنگ ایک دو سال سے زیادہ نہیں رہتی۔ہمارے دونوں بڑے قومی لیڈروں نے‘ بڑی چاہتوں اور آرزوئوں کے ساتھ تھرکول بجلی منصوبہ شروع کیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ تحفے کا پاور پلانٹ ضائع کرنے والے‘ ہمیںتھرکول سے بجلی حاصل کرنے دیتے ہیںیا ہمیں آج کی طرح بجلی کی ڈبل قیمت ادا کر کے‘ لوڈشیڈنگ خریدنے پر مجبور رکھا جائے گا؟کیسا اتفاق ہے کہ آج ہی کے اخباروں میں تھرکول منصوبے کے افتتاح کی خبریں ہیں اور آج ہی امریکی سفیر کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ''کوئلے سے بجلی پیدا کرنا عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔‘‘ بھارت اپنی 60فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کرتا ہے۔اگر سرکاری مشینری نے فیصل آباد میں پڑے 320میگاواٹ کے پلانٹ کی خبر شہبازشریف تک پہنچنے دی‘ توممکن ہے سال رواں ختم ہونے سے پہلے پہلے یہی پلانٹ چالو ہو جائے۔