جنوری کی آخری تاریخوں میں ایک طرف اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں قاضی حسین احمد کی یاد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس جاری تھی،تو دوسری طرف وزیراعظم ہائوس میںمیاں محمد نواز شریف اپنے رفقا سے صلاح مشوروں میں مصروف تھے۔ کئی ماہ بعد انہوں نے قومی اسمبلی کی عمارت میں قدم رنجہ فرمایا۔ ایک روز پاکستانی طالبان سے نبٹنے کے لئے اپنی پارلیمانی پارٹی سے مشورہ کیا، تو دوسرے دن باقاعدہ خطاب کے لئے ایوان میں پہنچ گئے۔ قاضی کانفرنس کا اہتمام مرحوم رہنما کی قائم کردہ ''مجلس فکرو عمل‘‘ نے کیا تھا، جس کے روح و رواں ان کے بیٹے آصف لقمان قاضی اور بیٹی سمیعہ راحیل قاضی ہیں۔ اس کا موضوع ''افغانستان میں مصالحت اور مفاہمت کا عمل‘‘ تھا۔ بتایا گیا تھا کہ اس میں کئی اسلامی ممالک کے وفود شامل ہوں گے، لیکن پاکستان اور افغانستان کی بعض سرکردہ شخصیات ہی نے ماحول کوگرمائے رکھا۔ امریکہ اور چین سمیت کئی ممالک کے سفارت کار موجود تھے، مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں، دانشوروں اور مبصروں کی بڑی تعداد بھی حاضرین میں شامل تھی۔ سید منور حسن کے لئے تو گھر کا معاملہ تھا، وہ دن بھر سٹیج پر بیٹھے رہے۔ مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ افغانستان سے گلبدین حکمت یار اور حکومت کے نمائندے موجود تھے، لیکن طالبان کا کوئی رہنما نہیں آ پایا تھا۔ افغانستان میں مفاہمتی عمل کے بارے میں کوئی گفتگو طالبان کے بغیر مکمل تو کیا (ڈھنگ سے) شروع بھی نہیں ہو سکتی۔ ان کی غیر موجودگی میں معاملہ ایک ہاتھ سے تالی بجانے کے مترادف تھا۔ آصف لقمان صاحب کا کہنا تھا کہ بعض قانونی دشواریوں کی وجہ سے طالبان کا کوئی نمائندہ شرکت کے لئے نہیں آ سکا، لیکن اس کا یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا تھا کہ طالبان اس طرح کی مجالس یا گفتگوئوں سے (فی الحال) کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ افغان مصالحتی کونسل اور گلبدین حکمت یار کے نمائندوں نے اپنا اپنا موقف بیان کر دیا۔ ایک طرف اسلامی بھائی چارے پر زور دیا جا رہا تھا اور کابل حکومت اور اس کے مخالفین کو قرآنی آیات پڑھ کر سنائی جا رہی تھیں، تو دوسری طرف عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ آئندہ چند ہفتوں میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب کو مسئلے کا حل نہیں، بلکہ اس کے راستے میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے دلائل پیش ہو رہے تھے۔
طالبان کی عدم موجودگی میں افغانستان میں مصالحت و مفاہمت کے حوالے سے تو کوئی نتیجہ خیز گفتگو نہیں کی جا سکتی تھی، اس لئے زیادہ تر مقررین کا رُخ اسلام آباد کی طرف رہا۔ مولانا سمیع الحق اور سید منور حسن میاں نواز شریف پر برس رہے تھے کہ ان کے خیال میں مذاکرات کا راستہ ترک کرتے ہوئے آپریشن کی تیاری کی جا رہی تھی، لیکن میاں صاحب نے قومی اسمبلی سے خطاب کر کے معاملات کو یکسر نیا رُخ دے دیا۔ نہ صرف مذاکرات کے دروازے چوپٹ کھل گئے تھے، بلکہ اس مقصد کے لئے چار رکنی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی تھی۔ وہ تمام حضرات جو مذاکرات کے خاتمے کے حوالے سے وزیراعظم پر برسنے اور گرجنے کے منصوبے بنا رہے تھے، ہاتھ ملتے رہ گئے۔
اس کمیٹی میں بزرگوارم عرفان صدیقی، برادرم میجر عامر، رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب کو ایک دن پہلے وزیراعظم نے اپنا معاونِ خصوصی مقرر کر کے وزیر کا درجہ دیا تھا۔ وہ قلم کے محاذ پر تو سینہ سپر تھے ہی، اب سیاست کی دنیا میں بھی کھل کر کھیل سکیں گے۔ ان کی معاملہ فہمی اور مذہبی حلقوں میں پذیرائی سے ایک زمانہ واقف ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کا قلم ان کو کچوکے لگاتا رہا۔ میجر عامر کی قوت عمل بھی اپنے آپ کو منوا چکی ہے۔ ان کے والد مولانا محمد طاہر ایک ممتاز عالم دین تھے، مولانا عبداللہ سندھی کے حلقہ بگوش اور مفتی محمد شفیع مرحوم کے ہم سبق۔ان کے شاگرد سینکڑوں کیا، ہزاروں میں ہوں گے۔رحیم اللہ یوسف زئی صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اخبار نویس ہیں۔بین الاقوامی شہرت کے مالک۔ ان کی سنجیدگی اور پیشہ ورانہ وقار کی ایک اپنی شان ہے۔ رستم شاہ مہمند صوبہ سرحد کے چیف سیکرٹری رہے، وفاقی سیکرٹری داخلہ رہے، افغانستان میں پاکستان کے سفیر کے طور پر کام کیا۔ اب تحریک انصاف میں شامل ہیں، لیکن طالبان کے معاملات پر گہری نظر رکھتے اور سب حلقوں میں احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کی نگاہِ انتخاب تو برادرم سلیم صافی پر بھی ٹھہری ہوئی تھی، لیکن وہ دامن بچا گئے۔
اس کمیٹی کا قیام ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ اس میں تحریک انصاف کی مشاورت، بلکہ نمائندگی بھی موجود ہے۔ اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ طالبان نے بھی مذاکرات کی اس پیشکش کو قبول کر لیا ہے، لیکن ابھی تک ان کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ایک خبر یہ ہے کہ وہ اپنے تین ایسے رہنمائوں کے نام دے رہے ہیں،جو اس وقت سنگین الزامات کے تحت جیل میں ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ وہ ان کی رہائی کا مطالبہ کریں گے، تاکہ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جا سکے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک مشکل صورتِ حال پیدا ہو جائے گی۔ عرفان صدیقی نے جو کہ کمیٹی کے کوارڈی نیٹر نامزد کئے گئے ہیں، ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں، مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے وہ اقدامات کے مجاز ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ رکاوٹوں کو عبور کر سکیں گے۔
جو جو حضرات مذاکرات پر شدت سے زور دے رہے تھے، اب ان سب کا امتحان بھی شروع ہو چکا ہے۔ انہیں اپنا اثرو رسوخ سنبھال کر نہیں رکھنا چاہیے اور اس بیل کو منڈھے چڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر گزرنی چاہیے۔ بہت سے دوست بہت سے نکتے اٹھا رہے ہیں، مطالبات کے بارے میں اندازے لگا رہے ہیں، قیدی کیسے رہا ہوں گے، معاوضہ کس طرح ادا ہو گا، سنگین جرائم کی معافی کیسے ملے گی؟ نفاذِ شریعت کا مطالبہ کیسے مانا جائے گا؟ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ امن اہل ِ پاکستان کی ضرورت ہے اور طالبان کی بھی۔ دونوں کو اس کے لئے کچھ نہ کچھ ایڈجسٹمنٹ تو کرنا ہی پڑے گی۔ جہاں تک نفاذِ شریعت کا تعلق ہے اس میں مقصد پر نہیں ذریعے پر اختلاف ہے۔ پاکستانی آئین میں قوتِ نافذہ کے تقرر اور تبدیلی کا ایک واضح طریقہ موجود ہے۔ عوام کے ووٹ ہی کے ذریعے کوئی شخص یہ حق حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اپنی تعبیر کے مطابق مسائل حل کرنے کی کوشش کرے۔ طالبان کا تصور شریعت جو بھی ہو، اس سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ دستوری ذرائع سے اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو اُن کو اِس کا حق حاصل ہے۔ اس ایک نکتے کا ادراک ہی کئی نکتوں سے نجات دِلا سکتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)۔