اچھے لیڈر بھی خوش بخت معاشروں کو نصیب ہوتے ہیں وگرنہ وہی نوازشریف‘ وہی آصف زرداری اور ہر روز وہی شعبدہ بازی ؎
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے
نہ فقط آپریشن‘ نہ محض مذاکرات۔ بدامنی تمام کرنے کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے‘ پورے ملک کو۔ قبائل میں اپنے بھی مسائل ہیں‘ خاص طور پر افغانستان سے اٹھنے والا طوفان جس کا آغاز 1974ء میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے سے ہوا۔ 27دسمبر 1979ء کو کابل میں روسی فوج اترنے کے بعد‘ اس آندھی کا آغاز ہوا۔ اڑھائی سو سال پہلے احمد شاہ ابدالی کے دور سے‘ ایک خاص ڈھب پہ چلے آتے سماج میں ایسی اتھل پتھل ہوئی۔ پنجابی محاورے کے مطابق نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی نیچے۔ کچھ طاقت کے استعمال اور کچھ مختلف لسانی اکائیوں سے معاہدوں کے نتیجے میں۔ جو عمرانی معاہدہ ابدالی نے کیا تھا‘ وہ بکھر کر بہہ گیا۔ ہر معاشرے کی ایک ساخت ہوتی ہے اور اس کا ادراک کیے بغیر‘ کیے جانے والے اقدامات سنوارنے کی بجائے‘ اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ ازمنہ وسطیٰ کی معاشرت تھی۔ اول روسیوں اور پھر امریکیوں نے اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کیا کہ ایک قبائلی معاشرہ‘ تاریخی عمل میں بتدریج‘ جدید سماج میں ڈھلتا ہے۔ وہاں‘ جہاں عہدِ قدیم کے رسوم و رواج کارفرما تھے‘ سوشلزم کیسے نافذ ہوتا؟ جہاں سوال ازبک‘ تاجک‘ ہزارہ اقلیتوں اور پشتون اکثریت میں پائدار پیمان کا تھا‘ جہاں ذاتی جائیداد ایک مقدس حق تھا اور اشتراکی نظام کے تصور ہی سے اکثریت نابلد‘ وہاں کمیونزم کا ڈھول پیٹنے کا جواز؟ امریکیوں نے انتخابات کا ڈول ڈالا‘ مگر ایک کہنہ سماج جدید اداروں کا بوجھ کیسے اٹھاتا؟ اس کے لیے ذہن سازی درکار
تھی اور یہ فطری بہائو میں ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر ملکی افواج کے بل پر ایسے معرکے سر نہیں ہوتے۔ وہ بھی‘ جہاں لوگ مزاجاً مذہبی‘ سخت گیر‘ سخت کوش اور انفرادیت پسند ہیں‘ غیر ملکیوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انتقام جن کی گھٹی میں پڑا ہے۔ شمال سے ہمیشہ جن پر حملے ہوتے رہے اور احساسِ عدمِ تحفظ گہرا ہے۔
حیرت ہے کہ 1980ء کے عشرے میں جو لوگ سوویت یونین کی حمایت کیا کرتے‘ وہی بعد میں امریکہ بہادر کے گن گانے لگے‘ کہ اس اثنا میں سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ ان کی جدت پسندی کو ایک نیا سہارا درکار تھا۔ دہشت گردی بجائے خود ایک بڑا مسئلہ ہے اور مستقل اس پہ بحث‘ مگر افغانستان پر امریکی قبضے کا جواز؟ خود امریکی بوریا بستر باندھ رہے ہیں۔ ایسے میں کچھ لوگ امریکہ کی حمایت میں تن کر کھڑے ہیں۔
یہ تو خیر افغانستان کا مسئلہ ہے۔ ہم مگر ایک بے پناہ مصیبت میں کیوں گرفتار ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ 1980ء سے شروع ہونے والی افغان جنگ میں پاکستانی شریک ہوئے اور اسلحے کے انبار‘ خود ہماری سرزمین پر جمع ہو گئے۔ اس سے بھی زیادہ یوں کہ افغان سرحد سے ملحق ہمارے اپنے قبائلی علاقے بھی‘ اسی قدیم نظام کی گرفت میں رہے۔ آخر کیوں؟ پشاور‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی ایسے جدید شہروں کی موجودگی میں ایسا کیوں ہوا؟ اس ملک میں جہاں سیاسی جماعتیں اور اخبارات بروئے کار تھے‘ وکلا‘ مزدوروں اور طالب علموں کی انجمنیں۔ صنعت کاری کا عمل جاری اور قبائلیوں سمیت ہزاروں طالب علم‘ ہر سال بیرونی یونیورسٹیوں میں حصولِ تعلیم کے لیے سمندر پار جاتے۔
1951ء آخری سال تھا‘ جب قبائلی علاقوں میں سے کچھ بندوبستی نظام کا حصہ بنے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ عمل روک دیا گیا اور قبائلی زندگی کو ایک رومانی حیات کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ مقدس روایات اور رواجوں کا ذکر‘ گویا قدیم ادوار میں زندہ رہنا فخر کی بات ہو۔ ہم نے انہیں ووٹ کا حق دیا نہ بلدیاتی نظام‘ عام آدمی کو صوبائی و قومی اسمبلی میں نمائندگی دی اور نہ دوسرے جدید ادارے ان کی سرزمین پر تعمیر کیے۔ خود ان کے اندر بھی‘ جدید سماج سے ہم آہنگ ہو جانے کی ہرگز کوئی خواہش نہ ابھری۔ اس لیے کہ غیر قبائلی خطّوں میں حصولِ انصاف کا کوئی قابلِ رشک نظام نہ تھا۔ جو تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ وہ سڑتا اور بگڑتا گیا۔ ایک جدید معاشرہ‘ جرم کا سدباب کرنے والی متحرک پولیس اور عدالتوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے‘ مہذب سیاسی جماعتوں اور سرکاری دفاتر کی نگرانی کا نظام۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں۔ ان میں سے ایسی کون سی چیز یہاں موجود تھی کہ قبائل اس کی تمنا پالتے۔ ریاست کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ عطا کرے۔ کیا وہ ایسا کرسکی یا وقت گزرنے کے ساتھ ناکام سے ناکام تر‘ پست سے پست تر؟
عدالت خان سے‘ جو تحریکِ انصاف کے ایک لیڈر ہیں اور نواحِ مینگورہ کے ایک تعلیم یافتہ زمیں دار‘ کچھ دیر پہلے طویل گفتگو ہوئی۔ کئی طرح کے کاروبار انہوں نے کیے ہیں اور دنیا دیکھی ہے۔ وہ راولپنڈی کے سب سے قدیم‘ کلاسیکل ہوٹل میں مقیم تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہوٹل کے لوگ گہرے انس اور اپنائیت کے ساتھ ان سے بات کرتے۔ انہوں نے بتایا: تب سے‘ ہم اس ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں‘ جب اس کا کرایہ 200 روپے روزانہ تھا‘ اب چھ ہزار ہے۔ عدالت خان نے کہا: جس سوات کے ہم رہنے والے ہیں‘ وہاں مقتول کی قبر پر پڑی مٹی ابھی خشک نہ ہوئی ہوتی کہ قاتل کا مرقد اس کے ساتھ بن جاتا۔ پھر بتایا کہ 1990ء میں زمین کے ایک ٹکڑے پر تنازعہ ہوا‘ جس میں وہ فریق ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر ہائیکورٹ تک ان کے حق میں فیصلہ کر چکے۔ برسوں سے معاملہ اب سپریم کورٹ میں پڑا ہے۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے درمیان انہوں نے انکشاف کیا کہ سوات کا شاہی خاندان‘ اب بھی محبوب ہے۔ کیوں نہ ہو۔ کیا یہ ممکن تھا کہ زرعی اراضی کا ایک تنازعہ ربع صدی تک معلق رہے؟ کس احمق نے کہا کہ لوگوں کو مٹی سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس دیار سے‘ جو انہیں تحفظ عطا کرتا اور عزتِ نفس کا ذمہ لیتا ہے۔
کچھ دیر ہم غیر دریافت شدہ وسائل کے بارے میں بات کرتے رہے۔ مثلاً شمال اور کشمیر کی سرزمینوں میں دفن کھربوں روپے کے ہزاروں ٹن قیمتی ہیرے۔ سوات میں سونے کی نودریافت شدہ کانیں۔ دریائے سوات‘ سال بھر جس میں پانی رواں رہتا ہے‘ کم از کم بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ پورے ملک کی صنعت جو رواں رکھے۔
وزیرستان کا مسئلہ افغانستان کی پیداوار ہے؟ ترقی پسند دانشور چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ اگر جنرل محمد ضیاء الحق نہ ہوتے تو فساد کبھی نہ ہوتا۔ اگر روسیوں کو افغانستان میں قتلِ عام کی اجازت دے دی جاتی تو ہم محفوظ رہتے۔ بجا ارشاد‘ مگر بلوچستان؟ علیحدگی کی تحریک وہاں کیوں اٹھی؟ وہاں بھارت نے کیونکر راستے بنا لیے؟ بلوچستان میں ایوب خان نے مہم جوئی کی یا ذوالفقار علی بھٹو نے‘ ضیاء الحق کے دور میں تو وہ پوری طرح پُرامن رہا... اور کراچی؟ تین عشروں سے ملک کا سب سے بڑا شہر کیوں خون آلود ہے؟ مہاجروں کی ایم کیو ایم واویلا کیوں کرتی ہے اور دوسرے‘ اس کے خلاف نالہ بہ لب کیوں ہیں؟ شرعی قوانین تو ہر مسلمان کی آرزو ہے مگر سوات کے لوگوں کا اصل مسئلہ کیا نظامِ انصاف نہیں؟ جو کبھی انہیں حاصل تھا۔
وزیرستان کا مسئلہ حل کر لیا جائے تو خرابی کہیں اور پھوٹ پڑے گی۔ جب پانی آلودہ اور غذا ناقص ہو۔ جب مریض بدپرہیزی پر تلا رہے تو بیماری کبھی ایک عضو سے پھوٹے گی‘ کبھی دوسرے سے۔
حیرت اور رنج کے ساتھ آدمی سوچتا ہے، یا رب یہ احساس کیوں عام نہیں کہ ملک کو ایک مربوط اور مؤثر نظام درکار ہے‘ سب دوسرے ملکوں کی طرح‘ جہاں امن اور ا ستحکام ہے... اور یہ کہ سرخرو وہی اقوام ہوتی ہیں‘ جہاں عام لوگ باشعور اور بیدار ہوں۔ اچھے لیڈر بھی خوش بخت معاشروں کو نصیب ہوتے ہیں‘ وگرنہ وہی نوازشریف‘ وہی آصف زرداری اور وہی شعبدہ بازی ؎
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے