تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     02-02-2014

کِکر تے انگور چڑھایا…!

میاں محمد بخشؒ کہتے ہیں:
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کِکر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی طالبان سے امن مذاکرات کہ تازہ کوششیں کیکر پر انگور چڑھانے کے مترادف ہیں۔ انگور کا ہر خوشہ پہلے ہی زخمی اور خون آلودہ ہے ، ایسے میں کیکر کے کانٹے انہیں مزید زخمی کردیں گے۔ طالبان فیکٹر پاکستان کی ایک کھلی حقیقت ہے۔ طالبان نے پاکستان کے گلی کوچوں کو مقتل بنا دیا ہے۔ ان کی دہشت گردی اور بہیمانہ کارروائیوں سے ہزاروں پاکستانی لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ دہشت گردی گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ نواز حکومت کو پہلے دِن سے ہی اس کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ الیکشن مہم میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ وفاق میں ن لیگ ہی حکومت بنائے گی ، لہٰذا اس بنیادی مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیاری انہی دِنوں میں شروع ہو جانی چاہیے تھی۔مبینہ طور پر خزانہ اورداخلہ کے وفاقی وزراء کے نام اسی وقت آف دی ریکارڈ فائنل ہو چکے تھے۔ نواز شریف اور ن لیگ کی مرکزی قیادت کو اُس وقت اس ایشو پربھی پوری حکمت عملی تیار کرلینی چاہیے تھی ۔ اگر آپریشن سے پہلے مذاکرات ضروری تھے تو پھر اس کا آغاز آٹھ ماہ پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ نئی حکومت کے بنتے ہی مذاکراتی ٹیم کے چنائو کا مرحلہ بھی طے ہو جاتا تو بہتر تھا۔ اگرچہ مذاکرات سے اب بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ جن لوگوں نے بندوق اور بارود اپنے ہاتھوں میں تھام رکھے ہوں انہیں گلاب کے پھول پیش نہیں کیے جا سکتے۔
ستمبر 2013ء میں ہونے والی اے پی سی میں تمام جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا ‘ ابھی یہ کوشش عملی صورت میںڈھلی بھی نہیں تھی کہ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا اور اُس کے جواب میں طالبان نے معصوم اور نہتے پاکستانیوں کو پہلے سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ حکومت پاکستان نے اُس وقت ثالثی کے لیے جن گیارہ افراد کا نام فہرست میں شامل کیا تھا،ان میں سے دو ناموں پر طالبان کو اعتراض تھا۔ ابھی یہ مرحلہ اسی سطح پر تھا کہ حکیم اللہ کی موت نے اس سارے عمل کو سبوتاژکردیا۔ اس کے بعد حکومت نے مولانا سمیع الحق کو مذاکرات میں پُل کا کردار ادا کرنے کی دعوت دی جس کا مولانا صاحب نے مثبت جواب نہیں دیا۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہی نہیں تھی اس لیے انہوں نے اس عمل سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سوال یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق اور وہ تمام علمائے کرام جو طالبان سے رابطہ رکھتے ہیں، اگر خود کو اس دھرتی کا فرزند سمجھتے ہیں تو وہ اس دھرتی کا دُکھ بھی سمجھیں جو لہولہان ہے اور جس پر بسنے والے معصوم اور نہتے پاکستانی طالبان کی وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام علمائے کرام کوازخود اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اگر بالفرض حکومت سنجیدہ نہیں بھی تھی تو وہ حکومتی مشینری کو اس اہم ترین مسئلے کا احساس دلاتے ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امن و امان کے اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس پر سیاست کرنے کو ہی ترجیح دی گئی۔ شاید ان کے نزدیک سیاست ، کسی معصوم پاکستانی کی جان سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ یہاں ہر شخص اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی بساط پرموجود رہنا ضروری ہے ۔ جنوری کے وسط میں ‘ جب طالبان کے پے درپے حملوں نے پورے ملک کو وحشت اور دہشت کی فضا میں دھکیلا تو ان کے خلاف آپریشن کرنے کی فضا ہموار ہو رہی تھی اور کم و بیش ہرمکتبہ فکر کی جانب سے طالبان کے خلاف آپریشن کو تائید مِل رہی تھی۔لیکن پھر اچانک حکومت نے اپنا موقف تبدیل کیا اور مذاکرات کے لیے امن کمیٹی کا اعلان کر دیا‘ جس میں عرفان صدیقی‘رستم شاہ مہمند‘ میجر (ر) عامر‘ اور رحیم اللہ یوسف زئی شامل ہیں۔ حیرت ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی اس کمیٹی میں علمائے کرام کو شامل نہیںکیا گیا۔کم از کم ان علماء کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنا چاہیے تھا جو طالبان سے روابط رکھتے ہیںاورمذاکراتی ٹیم میں اس مکتبہ فکر کا بھی ایک نمائندہ شامل ہونا چاہیے تھا جو طالبان کی بہیمانہ کارروائیوں کی کھلی مذمت کرتے ہیں اور خودکش حملوں کو اسلام میں حرام قرار دینے کے موقف پر قائم ہیں۔ اس کے ساتھ مذکراتی کمیٹی میں فاٹا سے مقامی نمائندوں کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔
اگرچہ مذاکرات سے کچھ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا، پھر بھی ان کو بہتر انداز میں ہینڈل کرنا ضروری ہے۔ مذاکرات کے ثمر آور نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مذاکراتی کمیٹی کے دلائل‘تدبّر اور فہم کے سامنے بندوق اور بارود پر یقین رکھنے والے ہارڈ لائنر اور شدت پسند ہیں۔ان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا یہ بیان مایوس ہونے کے لیے کافی ہے جس میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جنگ ہو یا مذاکرات ہم شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔
طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے علمائے کرام جو اب دیں کہ یہ کون سی شریعت ہے جس میں بچوں‘عورتوں ‘نمازیوں‘ ہسپتالوں میں پڑے بیماروں اور بزرگوں کا قتل عام جائز ہے؟ اسلام میں تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ صرف سر پر پگڑی باندھنے اور داڑھی رکھنے سے کوئی اسلام کا علمبردار نہیں بن سکتا ۔ اصل اسلام رواداری‘نرمی اور سلامتی کا نام ہے۔ ابہام اور کنفیوژن کے اس نازک مرحلے پر علمائے کرام رہنمائی کریں، طالبان کی شکل میں بھٹکے ہوئے لوگوں کواسلام کا اصل اور سچا پیغام سمجھائیں۔جب تک شدت پسندی کی جگہ رواداری اور انسانیت نہیں لے گی‘ ہارڈ لائنرز سے مذاکرات کیکر پر انگور چڑھانے کے مترادف ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved