اردو ادب کے ایک خوبصورت افسانے کی کہانی ایک ایسے گائوں کے گرد گھومتی ہے جس کے باسی بارش کے پانی سے اپنی محدود زمینیں آباد کرتے ہیں۔ بارشیں رُک جائیں تو قحط سالی آ جاتی ہے ، جمع شدہ اناج سے گزر بسر کی جاتی ہے یا پھر کچھ عرصے کے لیے شہر کی جانب ہجرت کر کے محنت مزدوری سے پیٹ پالا جاتا ہے۔ بارانی علاقے کی اس زمین پر بہت سے مٹی کے بڑے بڑے ڈھیر ہیں جنہیں ٹبے کہا جاتا ہے۔ ان ٹبوں کے بارے میں لوگوں کا یہ گمان ہے کہ یہاں کبھی انسان رہا کرتے تھے ،شہر آباد تھے لیکن وقت نے انہیں کھنڈر کردیا ۔ قحط سالی کے زمانے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم یہاں کے ایک ٹبے کے گرد پڑائو ڈالتی ہے اور گائوں میں سے چند لوگوں کو کھدائی کے لیے مزدور رکھ لیتی ہے۔ ایک فاقہ زدہ غریب شخص بھی ان مزدوروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ دن بھر کھدائی کے بعد رات کو مزدوری لے کر گھر آتا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ اسے لگتا ہے کہ اب غربت کے دن رخصت ہو گئے۔ بیوی اکثر اس سے سوال کرتی ہے کہ تم وہاں کھدائی کرتے ہو، آخر وہ لوگ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ پہلے پہل تو اسے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑے‘ سکے یا کوئی اور استعمال کی چیز مل جائے تو فوراً اسے ماہرِ آثارِ قدیمہ کے سامنے لا کر پیش کردیا جاتا۔ وہ اسے صاف کرتا،''ڈسٹلڈ واٹر‘‘ سے دھوتا اور اپنے سامنے رکھی ہوئی چیزوں پر ترتیب سے رکھ دیتا۔ مزدور اپنی کھدائی میں مصروف رہتے جبکہ وہ بڑے بڑے محدب عدسوں کے ذریعے ان ٹھیکریوں کا بغور مطالعہ کرتا رہتا۔ کھدائی کا عرصہ طویل ہوتا گیا ، ان چند مزدوروں کے گھر میں خوشحالی آ گئی ، لیکن اس مزدور کی بیوی کے سوال ختم نہ ہوئے۔ وہ پوچھتی کیا یہ لوگ پاگل ہیں ، آخر کیا ڈھونڈ رہے ہیں ، ان ٹوٹے ہوئے برتنوں سے انہیںکیا ملے گا؟ خود اس کی سمجھ میں بھی کچھ نہ آتا۔
آخر اسے وہاں موجود ماہرین کی باتوں سے پتا چلنے لگا کہ یہ لوگ تین چار ہزار سال پرانے اس شہر میں بسنے والے لوگوں کے زیر استعمال اشیاء کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایک بہت بڑا مٹکا ہے جس کے گیارہ ٹکڑے دریافت ہو چکے ہیں اور بارہویں کی تلاش جاری ہے تاکہ مٹکا مکمل ہو جائے۔ تلاش طویل ہو جاتی ہے ، وہ ٹکڑا نہیں ملتا،مگر مزدوروں کا رزق چلتا رہتا ہے۔ اچانک شور اٹھتا ہے کہ وہ ٹکڑا مل گیا ۔ اسے لا کر اس بڑی سی میز پر رکھا جاتا ہے۔ ایک دم خوشی و مسرت میں ماہرین رقص کرنے لگتے ہیں۔ ان سب کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ اگلے دن صبح مزدور کام پر آتے ہیں تو ماہرین کا سامان باندھا جا رہا ہوتا ہے، گاڑیاں تیارکھڑی ہوتی ہیں ، وہ ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں اورکچی سڑک پردھول اڑاتے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ شخص مایوس گھر واپس لوٹتا ہے۔ قحط سالی اب بھی قائم ہے۔ چند دن بچی کھچی آمدن سے گھرکا گزارہ چلتا ہے ، پھر فاقے شروع ہو جاتے ہیں۔ پریشان حال وہ شخص گھر کے صحن میں بیٹھا سوچوں میں گم ہے‘ بیوی اسے مزدوری ڈھونڈنے کے لیے کہتی ہے۔ کتنے دن اس لڑائی‘ ناکامی اور نامرادی میں گزرتے ہیں۔ نہ بارش برستی ہے‘ نہ مزدوری ملتی ہے اور نہ فاقے ختم ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ سخت پیاس کے عالم میں گھڑونچی پر رکھے ہوئے گھڑے کے پاس پانی پینے کے لیے آتا ہے۔ پانی پی کر گھڑا اٹھاتا ہے اور اسے گھر کے باہر زور سے پٹخ دیتا ہے۔ بیوی غصے سے پاگل ہو جاتی ہے۔کہتی ہے ، ایک تو گھر میں پیسے نہیں ، اوپر سے تم نے پانی بھر کے لانے والا گھڑا بھی توڑ دیا۔ اس مزدور کا جواب ثقافت کے ٹھیکیداروں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے: آج سے تین ہزار سال بعد جب یہ گائوں ایک ٹبہ بن چکا ہوگا تو ایسے ہی ماہرین آثارِ قدیمہ آئیں گے اور مزدوروں کو اس گھڑے کے ٹکڑوں کی تلاش میں لگائیں گے۔ یوں کتنے لوگوں کو مزدوری مل جائے گی۔
ثقافت کے رنگا رنگ منظر کی یہ کہانی دنیا میں ہر اس حکمران نے دہرائی ہے جسے عوام کے دکھوں سے کوئی دلچسپی نہ ہو، لیکن وہ چند دن کے میلوں ٹھیلوں سے ان کو مصروف کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا ہو۔ میکائولی نے اپنی مشہور عالم کتاب ''پرنس‘‘ میں بادشاہوں کو جو مشورے دیے ‘ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ باربار میلوں ٹھیلوں اور رنگارنگ تقریبات کا انعقاد کیا جائے تاکہ اس عرصے میں لوگ اپنی غربت و افلاس کے دکھوں کو بھول جائیں۔ پورا روم جب اپنی ترقی کے عروج پر تھا تو عام آدمی کی زندگی انتہائی تلخ اور مشکل تھی‘ لیکن اشرافیہ کے گھر کے فواروں میں بھی خوشبودار پانی استعمال ہوتا تھا۔ ان کے ہاں تہذیب و ثقافت کے نام پر ہروقت بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام ہوتا رہتا تھا ، لیکن ان غریب عوام کو چند دن تقریبات کے کھلونے سے بہلانے کے لیے رومن کھیلیں منعقد کی جاتی تھیں جن میں بگھیوں کی ریس سب سے بڑا تماشا ہوتی تھی ۔ اس کے لیے نیل کے ساحلوں سے باریک ریت جہازوں میں منگوائی جاتی اور اس بڑے سٹیڈیم میں بچھائی جاتی۔ صرف یہی نہیں ، ہر سال تقریباً بارہ سو مجرموں کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈالا جاتا۔ ہاتھیوں‘ گینڈوں‘ بیلوں‘ چیتوں اور جنگلی سوروں کی لڑائیاں ہوتیں۔ دو سو خوبصورت دوشیزائوں کو پاگل نوجوانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا۔ قیدیوں کو خوراک کھلا کر پالا جاتا‘ ورزش کروائی جاتی جنہیں وہ گلیڈی ایٹر کہتے۔ پھر ان کو بھوکے شیروں سے لڑنے کو کہا جاتا۔ سٹیڈیم میں تین لاکھ پچاس ہزار افراد بیٹھے یہ تماشا دیکھتے۔ جب تک جشن چلتا لوگوں کو مفت کھانا ملتا۔ یہ چند دن ایسے گزرتے جیسے پورے روم میں کوئی دکھ نہیں‘ بھوک ہے نہ غربت‘ ننگ ہے نہ افلاس ۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اس زمانے کے دانش ور‘ قلم کار‘ شاعر اور ادیب ان کھیلوں کو روم کی ثقافت کا مظہر قرار دیتے ، اسے ترقی کی بنیاد اور مذہبی جکڑ بندیوں سے آزادی کا زینہ تصور کرتے۔
لیکن ان رنگا رنگ تقریبات کے مدح خوانوں کے درمیان ایک فلاسفر سینیکا (Seneca) بھی تھا۔ وہ ان ثقافتی تقریبات کا مخالف تھا۔ اسے اپنے ارد گرد بھوک، ننگ‘ افلاس اور غربت نظر آتی تو چیختا ۔ وہ سمجھتا کہ یہ سب اس بھوکی ننگی قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ وہ ان تقریبات میں شرکت نہ کرتا بلکہ اپنے گھر میں بیٹھا ان دنوں میں روتا رہتا۔ اس کے بہت سے مداح پیدا ہو گئے ، یہاں تک کہ روم کے وزیراعظم کے عہدے کا فرد جسے ٹرابیون کہتے تھے وہ بھی اس کے مداحوں میں شامل ہوگیا۔ بادشاہ کو اس کی مقبولیت کا علم ہوا تو اسے دربار میں طلب کیا گیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ تم ان ثقافتی تقریبات کو کیا سمجھتے ہو؟ اس نے کہا: یہ ایک مذاق ہے جو غربت میں پسی ہوئی قوم کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ تم بھرے دربار میں اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو قتل کرو۔ دربار کے سناٹے میں وزیراعظم نے اس کی سفارش کی لیکن ثقافت کے اس دشمن اور روم کی تہذیبی روایات کے مخالف کی جان کیسے بخشی جا سکتی تھی۔ سینیکا نے بھرے دربار میں خودکشی کر لی۔ لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ رنگا رنگ تقریبات روم کے بادشاہوں کو بدترین انجام سے نہ بچا سکیں۔ ان پر شمالی افریقہ کے تہذیب سے ناآشنا قبائل ایسے چڑھ دوڑے کہ بڑے بڑے ثقافتی مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور آج وہ عبرت کے نشان کے طور پر موجود ہیں۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا ۔کسی کو ''موئن جو دڑو‘‘(مرجانے والوں کا ٹبہ) میں میلے لگانے کا شوق ہے تو کوئی جشن بہاراں اور سپورٹس فیسٹیول مناتا ہے۔ انجام سے بے خبر لوگ کیا تہذیب سے ناآشنا قبائل کا انتظار کر رہے ہیں؟