تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-02-2014

فیصلے کا وقت آپہنچا

اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ امتحان میں ڈال کر کھوٹے اور کھرے کو الگ کر دیا جاتاہے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بحرانوں میں اقوام کی قسمت کے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ وہ وقت آپہنچا۔ 
کمال فطانت کا مظاہرہ طالبان نے کیا کہ اپنوں کی بجائے اپنے حامی یا نرم گوشہ رکھنے والے نامزد کر دئیے ۔ مثبت پہلو بھی ہے ۔ یہ سبھی لوگ آئین کی حدود میں سیاست کرتے ہیں ۔ سینیٹر ابراہیم کی جماعت تشدّد کی حامی ہے اور نہ تحریکِ انصاف۔ اگر یہ لوگ طالبان کو سمجھانے بجھانے میں ناکام رہے تو وہ خود ان کے خلاف گواہ بن سکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ طالبان تب مذاکرات ختم کر دیں ۔ایسی صورت میں مگر رائے عامہ ان کے خلاف اٹھے گی ۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذاکرات کاروں کومعاملے کی نوعیت اور طالبان کے عزائم کا ادراک کتنا ہے ۔ معلومات فراہم کرنے والے کتنی سلیقہ مندی اور استعداد کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
طالبان نے کچھ وقت حاصل کر لیا ہے مگر اتنا ہی وقت حکومت کو بھی مل چکا ۔ اب یہ اس پر ہے کہ وہ مہلت سے کتنا فائدہ اٹھا تی ہے۔ بات چیت ناکام رہی تو طالبان از سرِ نو صف بندی سے ایک خوں ریزمہم برپا کر سکتے ہیں ۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی بھرپور اور مخلصانہ کوشش ہونی چاہیے۔ اس دوران مگر پولیس اور انٹیلی جنس کی خامیاں دور کرنے کا سلسلہ پوری صلاحیت اور قوت سے جاری رہے ۔ مرکزی سطح پر وزیراعظم کو ایک ٹیم تشکیل دینی چاہیے، جو نگرانی کرتی رہے اور پیدا ہونے والے مسائل کا حل تجویز کرے۔ طالبان کی نیت کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔ دبائو کا وہ شکار ہیں اور انہیں بات سننا ہوگی ۔ حسنِ نیت کا تعین اس پر ہوگا کہ وہ دھماکوں کا سلسلہ بند کرتے ہیں یا نہیں ۔ 
تحریکِ انصاف نے سرکاری کمیٹی پر اعتماد کا اظہار کیا ۔ یہ ایک دانش مندانہ اندازِ فکر اور سیاسی بلوغت کا مظہر ہے ۔ کیا عمران خان ذاتی طور پر شامل ہوں گے ؟اس طرح کے لوگوں میں وہ خود کو آسودہ نہ پائیں گے ۔ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ بہت زیادہ فرصت کے حامل بھی نہیں ۔ بہرحال ان سے رکاوٹ ڈالنے کاکوئی اندیشہ نہیں ۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے سوا ، شاید وہ سب سے زیادہ اعتدال پسند ہیں ؛اگرچہ میجر عامر زیادہ موثر کردار اداکرسکتے ہیں ۔ طالبان لیڈروں کے وہ مزاج آشنا ہیں ۔ 
مولانا سمیع الحق ، مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبد العزیز ان لوگوں میں شامل ہیں ، جو ریاست کی تقدیس کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایک حد تک سینیٹر ابراہیم خان بھی ؛اگرچہ وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں اور جذباتی ہونے کے باوجود خلاف ورزی کا ان سے خطرہ نہیں۔ رستم شاہ مہمند سے معقولیت کی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی ، سوچے سمجھے بغیر بولتے ہیں اور مضمرات کی پروا نہیں کرتے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان کا نام کیوں تجویزکیا؟ 
وزیراعظم کی تقریر سے آشکار ہوا کہ طالبان کے عزائم کا اب وہ ادراک رکھتے ہیں لیکن درحقیقت یہ فوجی افسر ہیں ،جن کے پاس معلومات کا انبار ہے اور جو کمیٹی کے سامنے مکمل تصویر کشی کے اہل ہیں۔ کیا انہیں ایسا کرنے کا حکم دیاجائے گا؟ کمیٹی کے ایک رکن نے ابھی ابھی مجھ سے کہا کہ وہ اس پر وزیراعظم سے بات کریں گے ۔ افواج کی خوش دلانہ شرکت سے کامیابی کا امکان بڑھے گا۔ عسکری قیادت کو حیرت ہوئی کہ کمیٹی کی تشکیل پر اس سے مشورہ نہ ہوا؛تاہم وزیراعظم نے کسی اور سے بھی صلاح نہ کی... کاتا اور لے دوڑی۔ فوجی قیادت کا اندازِ فکر یہ ہے کہ سیاسی قیادت کو بنیادی طور پر خود ہی پالیسی تشکیل دینی چاہیے مگر مشاورت سبھی سے۔ مذاکرات خدانخواستہ ناکام رہے تو کارروائی کا عزم بھی انہی کو کرنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے میڈیا کا روّیہ مثبت ہے ۔ اگرچہ ایسے بزرجمہر بھی ہیں ، جو ارشاد فرماتے ہیں کہ قانون میں دہشت گردوں سے بات چیت کی گنجائش نہیں ۔ ڈاکو اگر کسی کو یرغمال بنا لیں تو کیا پولیس ان سے بات نہیں کرتی ؟ کیا طیارہ اغوا کرنے والوں سے رابطہ نہیں کیا جاتا؟کتابی دنیامیں رہنے والے، زندگی کے عملی تقاضوں سے بے بہرہ دانشور۔ 
اس بحران نے آشکار کیا کہ ریاستی ڈھانچہ بہت کمزور ہو چکا۔ ایک دن میں ہوا اور نہ کوئی ایک حکومت ذمہ دار ہے ۔ رفتہ رفتہ اور بتدریج پولیس تباہ کر دی گئی ۔ تھانہ کلچر بدلنے کے اعلان بہت ہوا کرتے ہیں مگر عملاً پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور قانون کے دائرے میں آزادیٔ عمل کا ارادہ کبھی نہ کیا گیا۔ متحرک ، آزاد اور شہریوں کو جواب دہ بنانے کے لیے 2002ء کے الیکشن سے قبل جب پولیس آرڈر پر بحث جاری تھی ، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے پرویز مشرف سے یہ کہا : حضور ، ہمیں الیکشن جیتنا ہے ، ہم اس عیاشی کے متحمل نہیں ۔ 
دہشت گردی بجائے خود سنگین مسئلہ ہے ۔نظریاتی وجوہ بھی کارفرما ہیں کہ خود پسند ملّا کو ریاست کی پروا نہیں۔ قوم کی سیاسی اور فکری تربیت نہ ہوئی ۔ اسے نعروں اور وعدوں پہ زندہ رکھا گیا اور انقلاب کے خواب میں ۔ سب سے زیادہ ذمہ دار حکمران طبقہ ہے ، جو اقتدار اور ریاستی اداروں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتارہا۔ دنیا کے کس ملک میں یہ تماشا ممکن ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر ملک کے سب سے بڑے تاجر بھی واقع ہوئے ہوں ۔ ان کی اولاد کے کاروباری حریفوںکو ریاستی طاقت سے تباہ کر دیا جائے ۔اپنی دولت وہ بیرونِ ملک رکھیں اور سیاسی وراثت اپنے بچّوں کو منتقل کرنے پر تلے رہتے ہوں ۔ مونس الٰہی ، بلاول بھٹو، حمزہ شہبازاور محترمہ مریم نواز۔ وہ بینکوں سے بڑے بڑے قرض اینٹھ لیں ۔ عدالتیں ان کے حق میں حکم ہائے امتناعی جاری کریں ۔ اپنی کاروباری ضرورتوں کے مطابق وہ سرکاری پالیسیاں تشکیل دیں ۔ جس شعبے میں سرمایہ کاری فرمائی ہو، اسے مراعات سے نوازا جائے۔ تھر کی افتتاحی تقریب میں آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی مشترکہ شمولیت کا خیر مقدم ہوا، دوسرا پہلو بھی ہے ۔ قومی وسائل سے ذاتی فوائد حاصل کرنے میں وہ ایک دوسرے کی مد دفرماتے رہیں گے ۔ کبھی ان کا احتساب نہ ہوگا۔ کیا یہ مسخرہ پن جاری رہے گا؟ 
ممتاز علما ء نے مذاکرات کا خیر مقدم کیا اور یہ خوش آئند ہے ۔ اسی پر مگر انہیں اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ بات چیت کا قریب سے مشاہدہ کرنا اور غلطی کرنے والے فریق کو ٹوکنا چاہیے۔ آئندہ چند ہفتے بے حد اہمیت کے حامل ہیں ، ملک کے مستقبل کا تعین کر دینے والے ۔ وزیراعظم سے جو لوگ چیمبرلین کی بجائے چرچل بننے کی درخواست کر رہے ہیں ، ان کی خوش فہمی کو کیا کہیے۔ بہرحال اب میاں صاحب کو فیصلہ کرنا ہی ہوگا۔ 
اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ امتحان میں ڈال کر کھوٹے اور کھرے کو الگ کر دیا جاتاہے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بحرانوں میں اقوام کی قسمت کے فیصلے صادر ہوتے ہیں ۔ وہ وقت آپہنچا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved