حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بس ہونے ہی والے ہیں۔ ریاست کے تمام دھڑے مذاکرات پر متفق ہوکر'' قومی یکجہتی‘‘کا تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ دہشت گردی کی تباہ کاریوں اور مسلسل خوف و ہراس سے اکتائے ہوئے عوام بھی کسی حد تک ان مذاکرات سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔طالبان کے رد عمل سے فی الحال تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ مذاکرات سے قبل درپردہ مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ درپردہ مذاکرات کروانے والے کون تھے؟ طالبان کے کون سے گروہ راضی ہوئے ہیںاور کون سے نہیں؟ان پس پردہ قوتوں کی باہمی لڑائی کیا تھی اور صلح کن شرائط پر ہوئی ہے؟
وزیر داخلہ نے چند ہفتے قبل یہ بیان دیا تھا کہ طالبان کے تقریباً 45مختلف گروہ موجود ہیں جو امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے سے لڑ مر رہے ہیں۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سارے طالبان اپنی مشترکہ اور متفقہ مذاکراتی ٹیم کے ذریعے حکومت سے بات چیت کریں گے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر بات کرنے سے سب اجتناب برت رہے ہیں۔معاملات صرف نفاذ شریعت، جیلوں میں قید دہشت گردوں کی رہائی یا آئین کو ماننے نہ ماننے تک محدود نہیں ہیں۔ یہ تو محض سامنے کا کھیل ہے۔ طالبان کی اہم ترین شرائط اور مطالبات مالیاتی نوعیت کے ہوں گے۔ وہ یقیناً منشیات کی سمگلنگ اور کالے دھن سے وابستہ اپنے معاشی مفادات کا تحفظ ، بلیک منی کو وائٹ کرنے میں حکومتی معاونت اور جرائم پر مبنی اپنی مالیاتی کارروائیوں کا تسلسل چاہیں گے۔
سابقہ مجاہدین اور حالیہ طالبان کو امریکی سامراج نے پاکستانی ریاست کی مدد سے 1978ء کے افغان ثور انقلاب کے بعد خود پیدا کیا تھا اور ان کے ذریعے افغانستان میں قائم بائیں بازو کی حکومت کے خلاف رد انقلابی جنگ (جسے امریکی حکمران مقدس جنگ یا ''جہاد‘‘ قرار دیتے تھے) کا آغاز کیا گیا تھا۔ثور انقلاب نے افغانستان میں سرمایہ داری اور جاگیرداری پرکاری ضرب لگاکر پورے خطے میں سامراجی مفادات کو شدید دھچکا پہنچایا تھا۔ایران، پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک میں اس انقلاب کے سرایت کرجانے کا خوف مقامی حکمرانوں اور سامراجی آقائوں کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار بن گیا تھا۔ افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ افغان عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سب سے زیادہ ٹھوس اقدامات PDPAکے دور حکومت میں کیے گئے تھے۔
سامراجی میڈیا اور حکمران طبقے کے دانشوروں نے 27اپریل 1978ء سے 29دسمبر 1979ء کے درمیانے عرصے کو تاریخ میں سے حذف کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہ حضرات بددیانتی اور غلط بیانی کا سہارا لیتے ہوئے ثور انقلاب کو سوویت فوجوں کی آمد کے ساتھ دانستہ طور پرگڈ مڈ کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں تو کوئی انقلاب آیا ہی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کی عسکری قوت کے زور پر ایک ''کمیونسٹ آمریت‘‘ مسلط کی گئی تھی۔ تاریخی حقائق بالکل برعکس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے کا آپریشن سائیکلون سوویت فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل شروع ہوا تھا اور سوویت فوجیں ثور انقلاب کے ڈیڑھ سال بعد افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ انقلاب کے بعد کے 18ماہ کے دوران مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں اور خواتین کی آزادی اور آسودگی کے لیے بڑے پیمانے کی اصلاحات نافذ کی گئی تھیں۔ پسماندگی اور جہالت کی صدیوں پرانی زنجیروںکو توڑنے کا عمل شروع ہوا تھا۔ سوویت یونین کے آخری سربراہ میخائیل گورباچوف کے سیاسی مشیر نے 1988ء کے جنیوا مذاکرات میں اعتراف کیا تھا کہ ''افغان سوشلسٹ اپریل 1978ء میں جو انقلاب لائے تھے اس کے بارے میں سوویت
یونین کو کوئی خبر تھی نہ ہی اس معاملے میں ہماری کوئی مرضی شامل تھی‘‘۔
انقلاب برپا کرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA)کے قائد نور محمد ترکئی (جن کا تعلق پارٹی کے ''خلق‘‘ فیکشن سے تھا) نے افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کی مخالفت کی تھی۔ان کے بعد پارٹی کے سربراہ بننے والے حفیظ اللہ امین کا بھی یہی موقف تھا۔انقلاب کے ان دونوں قائدین کے قتل کے بعد ہی سوویت فوجیں 29دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔یہ دعویٰ بھی انتہائی بھونڈا اور بے بنیاد ہے کہ ''مجاہدین‘‘ نے سوویت یونین کو شکست دے کر اس کے حصے بخرے کر دیے۔ سوویت یونین کا انہدام خالصتاً داخلی معاشی بحران اور ''ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کے سٹالنسٹ نظریے کا نتیجہ تھا جس کی مشروط پیش گوئی 1921ء میں بالشویک انقلاب کے قائد ولادیمیر لینن نے خود کی تھی ، لیکن جہاں انسانوں کو انصاف نہ مل پائے وہاں تاریخ سے انصاف کون کرے گا؟
1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس خطے میں امریکی سامراج کی دلچسپی خاصی کم ہوگئی۔امریکہ کے جانے کے بعد اس کا بنایا ہوا جہادی نیٹ ورک نہ صرف قائم رہا بلکہ پھلتا پھولتا رہا۔ سی آئی اے کا ایجاد کردہ منشیات کا منافع بخش دھندہ پھیلتا گیا اور کالے دھن کی معیشت افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستانی سماج کی رگوں میں سرایت کر گئی۔ آج پاکستان کی سرکاری معیشت سے دوگنا حجم رکھنے والی جرائم کی اس معیشت کو ''غیر سرکاری معیشت‘‘ قرار دے کر اس کے ماخذ اور سیاسی و سماجی کردار کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مالیاتی سرمایہ ناگزیر طور پر سیاست اور ریاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔کالی معیشت میں اگر صرف منشیات کے دھندے کی ہی بات کی جائے تو یہ لاکھوں یا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ یہ اتنا پیسہ ہے کہ اس کے لیے مرا بھی جاسکتا ہے اور مارا بھی جاسکتا ہے۔کالی معیشت کے مختلف دھندوں سے وابستہ ان گنت گروہ اور حصہ دار اسی ہوس میں باہمی خونریزی کو شدید تر کرتے چلے جارہے ہیں۔اس خونریز کھیل میں ریاست اور سیاست کے کئی حصے ملوث ہیں۔''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی کی بنیادیں آخری تجزیے میں خالصتاً معاشی ہیں۔
اتنے بڑے پیمانے کی دہشت گردی اور خانہ جنگی کے لیے سرمایہ کہاں سے آتا ہے؟ اس سوال کو نظر انداز کرکے نہ تو کوئی سنجیدہ مذاکرات ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کبھی امن قائم ہوسکتا ہے۔ہر ذی شعور انسان امن چاہتا ہے جس کا نسخہ آج کل مذاکرات کو قرار دیا جارہا ہے۔اگر مذاکرات ناکام ہوگئے تو پھر کیا ملٹری آپریشن ہوگا؟ اور اگر ملٹری آپریشن سے بھی دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو پھر کیا ہوگا؟ حکمرانوں کے پاس ان سوالات کے جواب ہیں نہ ہی وہ اس بارے میں سوچنا چاہتے ہیں۔ ویسے ملا فضل اللہ بھی ایک ''کامیاب‘‘ ملٹری آپریشن کی ہی پیداوار ہے جو سوات سے بھاگنے کے بعد پورے طالبان کا کمانڈر بنا بیٹھا ہے اور اب اسی کے ساتھ مذاکرات کیے جارہے ہیں۔
دہشت گردی کا حل اتنا سطحی اور آسان نہیں ہے۔ ضیا الحق کی اسلامائزیشن اور سامراجی مداخلت کے ذریعے اس پورے خطے کو محض سماجی طور پر ہی برباد نہیں کیا گیا بلکہ ثقافتی معیاروں کو بھی رجعت کی اندھیروں میں ڈبونے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہی رجعت اب بربریت بنتی چلی جارہی ہے۔ مسئلے کی شدت اور نوعیت کے مطابق اس کا حل بھی انقلابی آپریشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جنگیں اور لڑائیاں سرمائے کے بل بوتے پر سرمائے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ جب تک مذہبی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی معاشی بنیادیں ختم نہیں کی جائیں گی، یہ عفریت بڑھتی چلی جائے گی۔ایک گروہ معاہدہ کرے گا تو دوسرا توڑ دے گا۔ مختلف داخلی فریقوں کے علاوہ خطے کے کئی ریاستوں اور ''برادر اسلامی ممالک‘‘ کے طالبان اور دوسرے مذہبی انتہا پسندوں گروہوں کے ساتھ گہرے مراسم قائم ہیں۔ مذہبی جنونیوں کے مختلف گروہ، مختلف سامراجی آقائوں کی پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی کہ طالبان کو سیاسی اور تنظیمی اکائی نہیں ہیں، انہیں عوام کے سامنے ایک منظم قوت کے طور پر پیش کیا جارہاہے اور حالیہ مذاکرات اسی مصنوعی مفروضے کی بنیاد پر کیے جارہے ہیں۔
بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا یہ ناسور مذاکرات سے ختم نہیں ہوگا۔ ماضی کی ان تاریک قوتوں سے بھلا کیسے کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے؟ بات چیت کے لیے ان کی شرائط سے ہی تعفن اٹھ رہا ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے استحصال زدہ عوام کو یکجا ہوکر اس عفریت سے لڑنا ہوگا۔اس آگ میں جلنے والوں کی اکثریت غریبوں اور محنت کشوں پر مشتمل ہے۔آج محنت کشوں کی تحریک جمود کا شکار ہے لیکن عوام ہمیشہ خاموش اور پسپا نہیں رہیں گے۔ پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے اگر 1968-69ء کی انقلابی تحریک برپا کی تھی تو 1978ء کے ثور انقلاب کی عظیم روایات افغان عوام کے شعور پر بھی نقش ہیں۔آج کے ظلم و بربریت کا خاتمہ کرنے کے لیے انہی انقلابی روایات کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا!