تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     03-02-2014

امریکہ میں مسلمانوں کے احوال (آخری قسط)

امریکہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اپنی پہلی تنظیم مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن 1963ء میں قائم کی اور اس کی پہلی کانفرنس یونیورسٹی آف اِلونائے میں منعقد ہوئی۔ 1982ء میں اس تنظیم نے''اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ‘‘(ISNA)کے نام سے اپنی تشکیل نوکی اور ''اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘‘اور''ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائینٹسٹس اینڈ انجینئرز‘‘بھی اس میں ضم ہوگئیں۔2001ء تک ڈاکٹر مزمل صدیقی اس کے صدرتھے۔ غالباًاب وہ اس کی ''فتویٰ کونسل آف نارتھ امریکہ‘‘کے سربراہ ہیں جبکہ محمدماجداس کے صدر ہیں،جن کی دوسری مدتِ صدارت 2014ء میں مکمل ہوگی ، صفازرزور اس کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔سعودی عرب میں جب سے دولت کی فراوانی ہوئی ہے، وہ ایسی تنظیموں کودل کھول کر مالی وسائل فراہم کرتاہے تاکہ اُس کے مذہبی نظریات ان تنظیموں پر غالب رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم اپنی وحدت قائم نہ رکھ سکی اوراس کے بطن سے''اسلامک کونسل آف نارتھ امریکہ(ICNA)‘‘وجود میں آئی،ا گرچہ ان دونوں گروپوں میں کوئی بڑا نظریاتی فرق نہیں ہے۔ 
امریکہ میں مسلمانوں کی ایک مُعتَدبہ تعداد ہے، مگریہاں کی سول سوسائٹی میںان کاوزن اور سیاسی وسماجی اثرورسوخ ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق نہیں ہے اوراُس کاسبب وہی تقسیم درتقسیم کا عمل ہے۔ چنانچہ ہوتایہی ہے کہ ایسی تنظیموں میں قیادت کے منصب پرفائزلوگ اپنی حیثیت کوامریکی اسٹیبلشمنٹ میں اپناذاتی اثرورسوخ بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور مسلمانوں کا اجتماعی مفاد پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ اس کے لیے یہ ضروری ہوتاہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادل لبرل، روشن خیال اور نظریاتی اعتبار سے ہر طرح کے ماحول میں ڈھل جانے والا (Adjustable)ثابت کریں اور ISNAکے ساتھ بھی یہی ہوا۔
امریکہ میں ہم جنس پرستی کا ایک گروپ LGBTقائم ہے۔ قومِ لوط نے اس عمل پر شرمسار ہونے کے بجائے اسے افتخاربنادیا اور اس جرم کی پاداش میں ان پر اللہ کا عذاب آیا،آسمان سے اُن پر سنگ باری ہوئی اور ان کانام ونشان صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔یہ گروپ کافی عرصے سے ایک مہم چلارہا تھااور ان کی اس مہم کے نتیجے میں آخر کار ENDAیعنی اِس طبقے کے لیے ملازمتوں میں عدمِ امتیاز کا قانون 2013ء میں امریکی سینٹ سے پاس ہوگیا۔ اس قانون پر امریکی سینٹ کی کمیٹی برائے صحت، تعلیم، لیبر اور ثقافت میںکئی عشروں سے کام ہورہا تھا اورحقوقِ انسانی کی مہم کے نام سے ایک NGOاس پرکام کررہی تھی۔ 1995ء سے کانگریس اس قانون کی مزاحمت کرتی چلی آرہی تھی، مگر بالآخر یہ قانون سینٹ سے پاس ہوگیا۔ 
اس پس منظر کو بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ ساٹھ دوسرے مذہبی گروپوں کے ساتھ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ نے بھی اس کی حمایت کی۔ HRCکی ڈائریکٹر شرون گرو نے لکھا:''LGBTکے نظریات کے حامل مسلمانوں کو ISNAجیسی تنظیموں کی آواز کو سننا چاہئے تاکہ انہیں پتا چلے کہ بحیثیت مسلمان اُن کے ہم جنس پرستی کے نظریات کو تسلیم کیا جاچکا ہے‘‘۔ اور HRCکے منیجر مائیکل تومایان نے لکھا:''آج مسلمان LGBTکمیونٹی کا اہم جُزیعنی Cornerstone ہیں‘‘۔یہ کارنامہISNAنے خاموشی سے انجام دیا تھا، مگر HRC نے اپنی ویب سائٹ پر ڈال کر یہ راز طشت ازبام کردیااور اس نے باشعوراوراعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ اسی طرح ISNAرویتِ ہلال کے مسئلے پر بھی امریکی مسلمانوں کی تقسیم درتقسیم کا باعث بنی ۔
ڈاکٹر خالد اعوان نے اس پر انگریزی میں ایک انتہائی مفصل اور مدلّل مقالہ لکھا جو ایک وقیع علمی دستاویز ہے۔ اِس مقالے میں اُنہوں نے قرآن ، حدیث اورفقہ سے مُفصّل دلائل دیے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے بائبل یعنی عہدنامۂ قدیم اور عہد نامۂ جدید سے بھی حوالے دیے ہیں کہ زِنا ،عملِ قومِ لوط اور اِس طرح کے اَخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والے سزائے موت کے حقدار ہیں ۔ڈاکٹر خالد اعوان نے بہت محنت کی ہے اور امریکہ میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی یہ ایک گرانقدر علمی کاوش ہے ، مگر مجھے حیرت ہوئی کہ نیویارک وغیرہ میں ہمارے عام علماء اس سے بے خبر تھے ؛ حالانکہ انہیں علمی میدان میں مسلمانوں کی مثبت انداز سے رہنمائی کرنی چاہیے۔ڈاکٹر خالداعوان نے ISNAکو ''ابلیسی سوسائٹی آف نارتھ امریکہ‘‘ قرار دیا اور ان کے اس اقدام کو دینِ اسلام سے انحراف اور بغاوت قراردیا۔ ENDAایکٹ کی منظوری نہ تو مسلمانوں کی حمایت پر موقوف تھی اور نہ ہی مسلمانوں کو اس پر رائے دینا ضروری تھا ؛ چنانچہ ''عذر گناہ بدترازگناہ‘‘ کے مصداقISNAکے صدر نے اپنا موقف تارِ عنکبوت کی طرح انتہائی بودے انداز میں بیان کیا:
اسنا نے ENDAکی حمایت میں خط کیوں لکھا؟ ISNAنے خود(یعنی کسی کے پوچھے بغیر) ایک سوال اٹھایاکہ:''آیا ایک مستاجر (Employer)کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک اجیر(Employee)کو کارکردگی کے علاوہ کسی اور وجہ سے ملازمت سے برطرف کرسکے؟ یعنی کیا ایک ملازم کو اس کے مذہبی یا ثقافتی معمولات کی بنا پر ملازمت سے نکالاجاسکتاہے، جیسے حجاب کا استعمال یا جنسی بے راہ روی‘‘۔ حجاب کی بنا پر تو فرانس، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ میں امتیازی قوانین بن چکے ہیں۔ ISNAکے صدر نے ہم جنس پرستی کو مذہبی تعلیمات اور اقدار کے برابر درجہ دیا اور اسے ثقافتی عمل کا نام دیا ۔ ISNAکے صدر ماجد نے لکھا:''ہم نے خود سے سوال کیاکہ کیا ہم مذہبی واخلاقی اقدار اور حقوق انسانی کے درمیان کوئی خطِ امتیاز کھینچ سکتے ہیں؟‘‘۔ وہ ہم جنس پرستی کو کبھی Cultural Practice(ثقافتی عمل) اور کبھی Lifestyle(شِعارِ زندگی) سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ لفظوں کے ہیرپھیر سے کام لے کر قراردیتے ہیں کہ ہم کسی کے طرزِزندگی یعنی Life Style سے اختلاف کا حق تو رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے اپنامن پسندطرزِزندگی یعنی ہم جنس پرستی کواختیار کرنے کے حق کی حمایت کریں گے۔ یہی وہ طرزاستدلال ہے جس کے تحت امریکہ اور اہلِ مغرب ''اظہارِ رائے کی آزادی‘‘ کے عنوان کے تحت اہانتِ رسول اور اہانتِ مذہب کاشِعار اختیارکرنے والوں کوتحفظ دیتے ہیں اوراسے ان کابنیادی حق قراردیتے ہیں۔ الغرض ان امور میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کا اصولی موقف اہلِ مغرب اور امریکہ کے ساتھ ہے۔ یہ''ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ یا ''آبیل مجھے مار‘‘ والی بات ہے،کیونکہ اپنے دستور اور منشور کے اعتبار سے ISNAپر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور اسلام کے قطعی احکام سے متصادم کسی بات کے حق میںیا خلاف رائے دیں،یعنی اگر ان میں اظہارِ حق کی جرأت نہیں ہے تو باطل کی حمایت کی مذموم جسارت تو نہیں کرنی چاہیے، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ISNAکے صدر نے امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اپنی ذاتی پذیرائی اور مقبولیت کا دائرہ بڑھانے کے لیے انتہائی عیاری کے ساتھ ISNAکے پلیٹ فارم کو استعمال کیا اور اس طرح حقوقِ انسانی کی مہم چلانے والوںنے ہم جنس پرستی کو اسلام میں قابلِ قبول قرار دیا۔
ہر سال ISNAکی بہت بڑی کانفرنس ہوتی ہے، سفید فام نومسلم حمزہ یوسف مسلم نوجوانوں میں انتہائی مقبول مقرر ہیں اور انہوں نے کیلی فورنیا اسٹیٹ میں ''زیتونا‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کررکھا ہے۔ ISNA کی گزشتہ سالانہ کانفرنس میں وہ اہم مقرر کے طور پر مدعو تھے اور ہر سال انہیں بلایا جاتاہے، ISNAکی انہی پالیسیوں کی وجہ سے وہ اسٹیج پرآئے، اپنا موقف بیان کیا، کلمۂ شہادت پڑھا اور احتجاجاً کانفرنس سے چلے گئے اور کہا کہ آئندہ میں ISNAکی کانفرنس میں نہیں آؤں گا۔ ISNAوالوں نے ان کا موقف اور تقریر اپنی ویب سائٹ پر بھی نہیں ڈالی۔علمائیِ اہلسنت میں سے ٹیمز ریور اسلامک سنٹر نیوجرسی کے خطیب علامہ مقصود احمد قادری نسبتاً بہتر انداز میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ اردو کے علاوہ انگریزی اور عربی میں بھی اظہارِخیال پر قدرت رکھتے ہیںاور آج کل نئی نسل کے لیے ایسے علماء کی شدید ضرورت ہے اور جہاں اس طرح کے علماء موجود ہوں،وہ مساجد اور اسلامی مراکز عرب وعجم کے مسلمانوں کے لیے ایک مخلوط اسلامی سوسائٹی تشکیل دینے میں مُمِد ومعاون ثابت ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اسلامک سنٹر آف گریٹر ہیوسٹن کے تحت بہت خوبصورت جامع مسجد النور قائم ہے، جسے ہمارے کراچی کے تعلیم یافتہ لوگ چلارہے ہیں اوروہاں ایک اسلامی مدرسہ بھی قائم کرلیا ہے۔ اختر عبداللہ صاحب ، ڈاکٹر سلیم گوپلانی صاحب ، ظفر ہاشمی صاحب اور ان کے ساتھ ایک اچھی ٹیم اس مرکزمیں کام کررہی ہے، جہاں امریکہ میں پلے بڑھے طلبہ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved