تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     03-02-2014

کچھ ریلوے کے بارے میں

خواجہ سعد رفیق ریلوے کے وزیر بنے توایک دن ان کی اہلیہ جو خود بھی ایک سیاسی کارکن ہیں،کسی کام سے ان کے دفتر آئیں اور اپنے شوہر سے ایک چائے کے کپ کی فرمائش کی۔ کچھ دیر بعد چائے آئی تو جیسا کہ خواتین کا معمول ہوتا ہے انہوں نے ان برتنوں کا جائزہ لینا شروع کردیا جو ان کے سامنے رکھے ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ ان کی قیمت کیاہے؟خواجہ صاحب نے انکار میں سرہلایا اور یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ قیمتی لگتے ہیں ۔ اس پر ان کی بیگم نے بتایا کہ جن برتنوں میں اس وقت وہ چائے پی رہے ہیں اور جن چمچوں سے اس میں چینی ہلا رہے ہیں ان پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔ ایک فرمانبردار شوہر کی طرح انہوں نے بیوی کے کہے پر من وعن یقین کیا اور اپنے دفترکو ان برتنوں کی خریدار ی کی تفصیلات پیش کرنے کے لیے کہا۔ وفاقی وزیر ریلوے کو اپنے سوال کے جواب میں جومعلوم ہوا وہ یہ تھا کہ سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور کے لیے ہزاروں روپے سے خریدے گئے اس ٹی سیٹ میں سے چھ پلیٹیں اور چار کپ بچے ہیں جن میں سے دو اس وقت موجودہ وفاقی وزیر کی میزپر پڑے ہیں۔ انہیں اپنے پیش رو کے حوصلے کی داد دینا پڑی کہ ایک ایسے وقت میں جب ہر روز ریلوے کے انجن مرمت نہ ہونے کے باعث رکتے جا رہے تھے، وہ اس طرح کے اللے تللے فرما رہے تھے۔ جب خواجہ سعد رفیق نے یہ واقعہ صحافیوں کی ایک مجلس میں سنایا تو خیال گزرا کہ اب وزیر ِموجود، وزیر ِمفقود کی بدعنوانیوں پر روشنی ڈالیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، جو انہوں نے کہا وہ یہ تھا کہ پاکستان ریلوے میں بھی بدعنوانی کا وہی عالم رہا ہے جس کا شکار پورا ملک ہے اور اس میں حکومت بدلنے سے اتنا ہی فرق پڑا ہے جتنا پورے ملک میں نظر آتا ہے، لیکن اس محکمے کا خاص مسئلہ عدم توجہی ہے جسے وہ حل کرچکے ہیں۔اپنی اسی کامیابی کو بتانے کے لیے وہ صحافیوں کے میزبان بنے تھے۔
خواجہ سعد رفیق کی کامیابی یہ ہے کہ جون سے دسمبر 2013ء کے عرصے میں ریلوے کوتین ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل ہوئی ہے ۔ گویا ایک سال کے عرصے میں مجموعی طور پر پاکستان ریلوے کی آمدنی میں چھ یا سات ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء کی صلاحیتوں کے اعتراف کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ آمدنی میں چھ سات ارب روپے بڑھ جانے سے محکمہ ریلوے مشکلات سے نکل سکے گا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بظاہر بڑی رقم نظر آنے کے باوجود یہ اضافہ ریلوے کے برے ترین حالات میں حاصل شدہ آمدنی کا صرف بیس فیصد ہے۔ برے ترین حالات وہ تھے جب پاکستان ریلوے کے دوسو پینسٹھ انجنوں میں سے صرف ایک سوتیس حرکت کررہے تھے اور اس وقت ایک سو پچاس کے قریب حرکت میں ہیں جبکہ 2007ء تک ڈھائی سو انجن ٹرینیں کھینچ رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان ریلوے خود کو 2007ء کی پوزیشن پر بھی واپس لے جائے تو دراصل ترقی نہیں ہو گی بلکہ بحالی 
ہوگی، ترقی کا سوال تو بحالی کے بعد اٹھے گا۔ یہ بحالی کتنے عرصے میں ہوگی ، اس کے بارے میں وزیر بھی خاموش ہیں اور ان کے رفقاء بھی۔ شاید ان کی توجہ ابھی تک خسارے میںکمی یا اس کے خاتمے سے آگے جا نہیں سکی۔
پاکستان ریلوے کی مالی مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ حکومت کی توجہ ملک میں ریل کے نظام کوبہتر بنانے کے بجائے صرف اس ادارے کے مالی مصائب کم کرنے پر مرکوز ہوچکی ہے۔ بے شک مالیاتی نظم و ضبط کسی بھی حکمت عملی کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریلوے کی حیثیت محض ایک ایسے کاروباری ادارے کی نہیں جس کا مقصد نفع کمانا ہے۔ پاکستانی تناظر میں اس کی معاشی، دفاعی اور سماجی اہمیت بھی ہے، اس کی ترقی سے کئی ایسے شعبوں کو تقویت ملتی ہے جو ملکی معیشت کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوتے 
ہیں۔ اس ادارے کی اسی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں ریلوے انجن بنانے کا کارخانہ لگایا گیا، ٹرین کے ڈبوں کی مینو فیکچرنگ شروع کی گئی ، یوں ملک کے اندر جدید انجینئرنگ کو فروغ ملا۔ بنانے والے تو یہ ادارے بنا گئے اور اس طرح چلا بھی گئے کہ رسالپور سے کام سیکھ کر ایران ریلوے انجن بنانے کی راہ پر لگ گیا اور ہم اس وقت اپنے انجنوں کی مرمت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ رسالپور میں واقع اس ادارے نے 1993ء سے 2001ء تک ستانوے ریلوے انجن بنائے،2001ء ایک سے2003 ء تک چھبیس پرانے انجن بحال کیے اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب اس ادارے کے لیے کوئی ایسی پارٹی ڈھونڈی جارہی ہے جو ایک ارب روپیہ دے کر اس میں حصہ دار بن کر اسے چلائے۔ حیرت ہے کہ جس ادارے کے بنائے ہوئے انجن اب تک متحرک ہیں اس کی بحالی کی سنجیدہ کوشش کے بجائے اس سے جان چھڑانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ کاروباری خیالات کو ایک طرف رکھ کر اگر معاشی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو پھر یہ سمجھنا ممکن ہے کہ اگر ایک انجن باہر سے درآمد کرنے پر ہمیں تیس کروڑ روپے (زرمبادلہ کی صورت میں) خرچ کرنے پڑتے ہیں اور مقامی طور پر تیار کردہ انجن چالیس کروڑ میں پڑتا ہے تومقامی طور پر تیار کرنا ملکی مفاد میں ہے۔ مقامی تیاری کی صورت میں ایک ایسی صنعت کو زندگی مل جائے گی جو ریلوے انجن کے ساتھ ساتھ ملک میں انجینئرنگ کی دیگر ضروریات کو بھی پورا کرے گی۔ رسالپور فیکٹری اور اس طرح کے دیگر ملحق اداروں کو نظر انداز کرنا فوری طور پر شایدخسارے میں کسی کمی کا باعث ہو لیکن آخرکار بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔ 
ریلوے کے حالات میں بہتری کے لیے اشد ضروری ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی ریلوے کو محض نقصان میں جاتے ہوئے کاروباری ادارے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اس کی معاشی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پر سرمایہ کاری کرے۔ حالت یہ ہے کہ ملک میں نقل و حمل کے لیے 1955ء سے 1960ء کے پانچ سالوں میں جو مجموعی رقم خرچ ہوئی اس کا بتیس فیصد سڑکوں اور اڑسٹھ فیصد ریلوے کو ترقی دینے پر صرف ہوا۔ اس کے برعکس اس وقت نقل وحمل کو ترقی دینے کے لیے حکومت جو کچھ خرچ کررہی ہے اس کا بیاسی فیصد سڑکوں اور صرف اٹھارہ فیصد ریلوے پر خرچ ہوتا ہے۔ سڑکوں اور ریلوے پر سرمایہ کاری کا یہ فرق ہی واضح کردیتا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے پالیسی سازوں کے نزدیک ریلوے کوئی اثاثہ نہیں محض ایک سفید ہاتھی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پالیسی ساز جہازوں میں سفر کرتے ہیں یا سڑکوں پر قیمتی گاڑیاں دوڑاتے ہیں، ٹرین میں سفر نہیں کرتے۔ خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں پاکستان ریلوے کے ہیڈکوارٹر میں بدانتظامی ، بدعنوانی اور نااہلی کے خلاف لڑائی جیت لی ہے، اب انہیں بڑی کامیابی کے لیے اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے میدان میں اپنی مہارت دکھانی ہے اور حکومت کو قائل کرنا ہے کہ سڑکوں کے ساتھ ساتھ ریلوے کو بھی ترقی دی جائے ورنہ پانچ سات ارب کم کیا اور زیادہ کیا، ریلوے پٹڑی پر نہیں چڑ ھ سکے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved