تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-02-2014

کیا تجویز ہے؟

جب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات چلی ہے ‘ بڑے بڑے رازافشا ہو رہے ہیں۔ وہ معززین‘ جو طالبان کی دہشت گردی اور بے گناہوں کا خون بہانے کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے آرہے تھے ‘اب پتہ چلا ہے کہ نہ صرف‘ وہ طالبان کے ساتھ رابطے رکھتے تھے ‘ ہمدردوں بلکہ سرپرستوں میں شامل تھے۔وہ طالبان کے حصول مقصد کی ‘جدو جہد میں ان کی رہنمائی کرتے تھے مثلاً لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز نے کھل کر کبھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی تھی‘ وہ امن پسند اورعالم دین کی حیثیت سے مشہورہیں۔ جب طالبان نے‘ انہیں اپنی مذاکراتی کمیٹی کے انتہائی اہم رکن کی حیثیت سے منتخب کیا تو مولانا نے شروع میں تاثر دیا کہ ان کا نام رضا مندی حاصل کئے بغیر لیا گیا ہے مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد‘ دوسرا بیان آگیا کہ مجھے تو کسی نے اطلاع ہی نہیں دی اور نہ حکومت نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور آج وہ مجوزہ وفد کی پہلی میٹنگ میں باقاعدہ شریک نظر آئے۔ رستم شاہ مہمند‘ پاکستانی میڈیا پر بظاہر غیر جانبدار مبصر بن کر عوام کے سامنے آتے رہے لیکن جب طالبان کی طرف سے کمیٹی کے اراکین کے نام سامنے آئے تو یہ حضرت بھی اس میں شامل تھے‘وہ بڑھ چڑھ کردلائل دیا کرتے تھے کہ حکومت کو قبائلی علاقوں سے فوج کو واپس بلا لینا چاہئے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ طالبان کے ساتھ تصادم شروع ہونے سے پہلے ان علاقوں میں پاک فوج کبھی نہیں گئی تھی لہٰذا اگر طالبان کو خون ریزی سے روکنا ہے تو قبائلی علاقوں سے فوج کونکال لیا جائے۔
یہ ایک نہایت خطرناک دلیل ہے‘ درست ہے کہ تقسیم ہند کے وقت قبائلی علاقوں کی وہی حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا تھا جو آزادی سے پہلے تھی۔ اس وقت یہ علاقہ برطانوی ہند کے کنٹرول میںہوا کرتا تھا اوراس کے دفاع کی ذمہ داری ہندوستانی فوج کے سپرد تھی۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے اسی انتظامی صورت حال کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔مقامی طور پر قبائل اپنی اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے‘ وہاں پاکستانی قوانین کا نفاذنہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت علاقے کے عوام مطمئن اور بیشتر معاملات میں پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کی نسبت زیادہ پر امن تھے۔وہاں کے باشندوں نے چھوٹے چھوٹے واقعات کے سوا اپنے ملک کے خلاف کبھی بغاوت نہیں کی تھی‘ نہ ہی قبائلی علاقوں میں غیر ملکی اور مقامی دہشت گردوں کے اڈے تھے‘ جہاں سے وہ پاکستان کے شہروں میں دہشت گردی کی وارداتیں کر کے‘ ہزاروں بے گناہوں کا خون بہاتے رہے ہوں۔طالبان اور ان کے حواریوں نے سارا انتظامی ڈھانچہ توڑ پھوڑ دیا۔باجوڑ‘وزیرستان‘ سوات‘ پاکستان کے زیر انتظام خیبر اور بعض دوسری ایجنسیوں میںعملی طور پر حکومت بنا لی۔ جو سردار یا خان قبائلی نظام کو چلایا کرتے تھے‘ ان کی اکثریت کو قتل کر دیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ نہ تو حکومت پاکستان کی نمائند گی کرنے والی بیوروکریسی وہاں موثر رہ گئی ہے اور نہ ہی قبائلی سردار باقی رہ گئے ہیں جو معاشرے میں نظم و نسق برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں نبھایا کرتے تھے ۔ آج وہاں پر حکومتی کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے پاک فوج ذمہ دار ہے۔ طالبان نے اپنی مسلح طاقت سے جن علاقوں پر زبردستی قبضے کر رکھے ہیں وہاں عوام کی ایک بڑی اکثریت اپنا گھر بار چھوڑ کے دوسرے مقامات پر جا چکی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد بے گناہ عوام کو گھروں سے باہر‘ خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں اب بھی جا رہے ہیں۔آج اگر حکومت پاکستان کی بنائی ہوئی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن کی تجویز مان لی جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ پاکستان‘ مقابلہ کئے بغیر ہی سر زمین وطن کے ایک بڑے حصے سے اپنی فوجیں واپس بلا کے‘ یہ علاقے ایسے لوگوں کی تحویل میں دے دے جو نہ تو پاکستان کی وفاداری پر یقین رکھتے ہیں‘نہ آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی عدلیہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ قبائلی علاقوں میں قدم جما کر پورے ملک پر حکومت قائم کرنے کے منصوبے رکھتے ہیں‘ یہی تجویز طالبان سے ہمدردی رکھنے والے‘ ایک صحافی نے وزیراعظم کے سامنے بھی رکھ دی اور کہا کہ قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلا کر طالبان کا بنیادی مطالبہ مان لیا جائے‘ جس پر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کہا کہ'' اگر یہ تجویز مان لی گئی تو پھر ہمیں اپنے ملک کا تھوڑا 
تھوڑا علاقہ باغیوں کے سپرد کرتے ہوئے پسپا ہوتے رہنا چاہئے۔دنیا میں کون سا ملک ایسا کر سکتا ہے؟‘‘مگر پاکستانی حکومت کے نامزد مذاکراتی وفد میں‘ ایسے لوگ بھی شامل ہیں تو سوال پیدا ہو گا کہ کیا حکومت پاکستان کو قبائلی علاقوں کا کنٹرول باغیوں کے سپرد کر کے‘ ان علاقوں سے دستبرداری اختیار کر لینا چاہئے؟کمیٹی کے باقی اراکین میں میجر(ر)عامر کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی آزادی اور سا لمیت پر یقین رکھتے ہیں اور ملک و قوم کے ساتھ وفاداری کا یقین کئے بغیرکسی طرح کا سمجھوتہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔رحیم اللہ یوسف زئی اور عرفان صدیقی کی حب الوطنی شک و شبے سے بالاتر ہے لیکن آج کے حالات میں دہشت گردباغیوں کو پاکستانی سمجھ کر ان کے ساتھ نرمی کرنے کے معاملے میں اچھے خاصے سمجھ دار لوگ بھی تذبذب میں پڑ چکے ہیں۔ایسے ماحول میں حکومت کی نامزد کمیٹی کے اراکین کے تازہ نظریات پھر جاننے کی ضرورت ہے ۔ یہ پاکستان کی سا لمیت اور بقا کی جنگ ہے ‘ اس میں پاکستان کا کیس لڑنے کی ذمہ داری صرف ان لوگوں کے سپرد کی جا سکتی ہے جو ملک کی آزادی اور سا لمیت کے سلسلے میں کسی طرح کی رعایت دینے کے حق میں نہ ہوں۔
طالبان نے اپنی نمائندگی کے لئے جو دو کمیٹیاں قائم کی ہیں اور انہیں کیا اختیارات دئیے گئے ہیں؟ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضرور ہونا چاہئے۔بنیادی طور پر یہ علاقائی معاملہ ہے‘ ماضی میں جب بھی کسی قبائلی ایجنسی کے ساتھ وفاقی حکومت کا اختلاف ہوا ‘ معاملات کو طے کرنے کے لئے مقامی انتظامیہ کے نمائندے ‘قبائلی نظام کے تحت نظم و نسق چلانے والے افسروں کے ساتھ مذاکرات کیا کرتے تھے اور اسی سطح پر معاملات طے کر لئے جاتے ۔آج وہ صورت حال نہیں‘ قبائلی علاقوں کے معاملات کی نگرانی رکھنے کے ذمہ دار جو قبائلی سردار ہوا کرتے تھے‘ انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے اختیارات تفویض کئے گئے تھے۔ طالبان ریاست اور آئین کے کھلے باغی ہیں۔ حکومت پاکستان کی رضا مندی سے انہیں علاقائی امور کی نگرانی کے لئے کسی طرح کا اختیار نہیں دیا گیا۔انہوں نے بندوق کے زور پر کچھ قبائلی علاقوں میں عوام کو دہشت زدہ کر کے ہمارے علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے‘ ان ناجائز قابضین کے ساتھ حکومت پاکستان کن امور پر مذاکرات کرے گی اور وطن عزیز کی سر زمین کا کون سا حصہ کس بنیاد پر باغیوںکے سپرد کر ے گی؟اگر سیز فائر یا جنگ بندی کا معاہدہ ہواتو طالبان کس حیثیت میں اس معاہدے میں فریق بنیں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان ‘ایک چھوٹے سے علاقے پر قابض باغیوں کے ساتھ کس بنیا دپر مذاکرات کرے گی؟حکومت پاکستان اپنی سر زمین پر ہر طرح کا اختیار رکھتی ہے‘ وہ سر زمین وطن کے کسی بھی حصے سے پسپائی اختیار کر کے‘ اسے طالبان کے کنٹرول میں کیسے دے سکتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات واضح ہیں لیکن جس طریقے سے طالبان کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کی تیاریاں ہو رہی ہیں ‘وہ ایک جائز حکومت اور باغیوں کے مابین مذاکرات کے لئے نہیں ہوا کرتیں۔ ایسے معاملے میں پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ باغی ہتھیار پھینک کر ملک کی جائز حکومت اور اس کے اختیارات کو تسلیم کریں‘ آئین سے وفاداری کا عہد کریں اور پر امن شہریوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی پابندی قبول کریں‘ ورنہ عالمی قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کو آزادی دے کر ان کا وجود تسلیم کر لیا جائے‘ جیسے دو تین عشروں کے دوران کئی علاقوں میں ہو چکا ہے۔خدا نہ کرے پاکستان پر ایسا وقت آئے‘پاکستان کے عوام اورمسلح افواج میں اتنی طاقت بھی ہے اور پختہ عزم و ارادہ بھی کہ باغیوں کو کھلی جنگ میں شکست دے کر انہیں وطن عزیز کی وفاداری کے اعلان پر رضا مند کیا جائے یا انہیں پاکستان چھوڑ کر اپنی مرضی کی سرزمین پر آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ جس طرح موجودہ حالات میں مذاکرات کی گاڑی چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اس کا کامیاب ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔طالبان نے ملک کے خلاف کھلی بغاوت کرتے ہوئے جس طرح پاکستانی شہریوں اور مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں کا خون بہایا اور چند محدود علاقوں پر کنٹرول قائم کر کے‘ اپنے اڈے بنائے ‘انہیں دنیا کی کوئی بھی حکومت غیر مشروط پر تسلیم نہیں کر سکتی۔ راستہ صرف ایک ہے‘ پاکستان کی ایک ایک انچ سر زمین پر حکومت کا کنٹرول قائم کرنا‘ باقی ساری باتیں لا حاصل ہیں۔طالبان نے پاکستانی عوام اور حکومت کے لئے پر امن اور با وقار راستہ باقی نہیں چھوڑا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved