مذکرات ہوں یا آپریشن بات چل ہی نکلی ہے توکیا ہمارے دانشور، سیاستدان اور میڈیا ان عوامل پر بھی بحث کرنا پسند کریں گے جنہوں نے ان حالات کو جنم دیا جن سے پاکستان گزر رہا ہے اور جس کے باعث ہزاروں پاکستانی اپنی جان سے جاچکے ہیں ۔ ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقتی طور پر مذاکرات یا آپریشن سے اگر کچھ عرصے کے لیے اس گمبھیر مسئلے پر قابو پا بھی لیا گیا تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ چند مہینوں یا سالوں بعد یا دہائی بعد یا دہائیوں بعد یہی مسائل زیادہ خوفناک اور خونخوار شکل میں اگلی نسلیں نہیں جھیل رہی ہوں گی؟اورکیا وہ اپنے ان بزرگوں کو ''دعائیں ‘‘ نہیں دے رہی ہوں گی جو مال پانی اکٹھا کرنے میں مصروف رہے اور مسئلے کی جڑ تک نہ پہنچے اور اسے سلجھانے کے بجائے اگلی نسلوں کے کاندھوں پر ڈال گئے؟ جب کبھی دوبارہ یہ مسئلہ سر اٹھائے گا اس سے کہیں زیادہ خون بہے گا جتنا پچھلے چند برسوں میں پاکستانیوں کا بہا۔ یوں تو وزیرستان سے جنم لینے والی تحریک اور پھر پورے ملک میں اس کے پھیل جانے اور پورے ملک سے اس کو سپورٹ ملنے کے اور بھی کئی عوامل ہیں جن پر یقیناً اس مختصر سے کالم میں بات نہیں ہو سکتی مگر کم ازکم دو بنیادی عوامل ایسے ہیں جنہوں نے اس سارے معاملے کو مہمیز دی ۔
1۔پورے پاکستان میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نہ ہونا۔
2۔پاکستان میں بیک وقت کم ازکم تین چار قسم کے نصاب کا پڑھایا جانا۔
یہ دو بنیادی عناصر وہ ہیں جن کے حوالے سے غلط پالیسیوں کے نفاذ یا عدم پالیسی کے نتائج اس وقت پوری قوم بھگت رہی ہے ۔ معاشرے میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور مختلف الانواع نصاب کے زیرِ اثر پروان چڑھنے والی یہ دو انتہائیں ہیں جو اس وقت ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک دوسرے کو ختم کر دینا چاہتی ہیں۔
ملک میں یہ تقسیم اس قدر گہری ہے کہ جیسے دو الگ الگ دنیائوں کے لوگ اس مملکت پاکستان میں اکٹھے رہنے اور سانس لینے پر مجبور تو کر دیے گئے ہیں مگر دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں ، دونوں کی زبان اور سوچ کا انداز ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہے ، دونوں ایک دوسرے کو نہ صرف سخت ناپسندکرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو برداشت تک کرنا دونوں کے لیے مشکل ہو رہاہے۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں کے لیے ایک دوسرے کی بات سمجھنا اور ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانا ناممکن نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کا ناممکن ٹاسک ہی دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف تشدد اور جنگ پر مجبور کرتا ہے ۔
دونوں کی ٹرمینالوجیز، ہیروز اور ولن جو دونوں کو بچپن سے ان کے نصابوں میں پڑھائے گئے ، وہ تک مختلف ہیں۔ سچ پوچھیں تو قبلے تک مختلف ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک کا ہیرو محمد بن قاسم ہے تو دوسرے کا چرچل اور شاید دونوں ہی ایک دوسرے کے ہیروز سے نا آشنا ہیں۔ ایک وہ نسل اور طبقہ ہے جو lion king دیکھتا اور لیڈی گاگا کے گانے گنگناتا ہے تو دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں جو ان ناموں سے بے خبر ہیں اور جن کے آئیڈیل عرب کے ریگستانوں سے جنم لیتے ہیں۔ ایک طبقہ ان اداروں میں پڑھتا ہے جہاں کا نصاب بتاتا ہے کہ عورت بغیر محرم گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکتی تو دوسری طرف وہ ادارے ہیں جہاں ہر ویک اینڈ پر مخلوط پارٹیز ہوتی ہیں اور فیشن شوز منعقد کیے جاتے ہیں۔
ایک طبقہ وہ ہے جس کے پیروں میں ڈھنگ کی چپل تک نہیں اور دوسرا طبقہ اپنے وقت کا بڑا حصہ لوئی وٹان ، ورساچی، باڈی شاپ اور باس جیسے برانڈز کی نئی کولیکشن کو ڈسکس کرنے میں صرف کرتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مختلف معاشروں میں بسنے والے مختلف طبقوں کے درمیان مکمل ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہو یا اختلاف نہ پایا جاتا ہو یا کسی بھی معاشرے میں سارے ہی غریب یا سارے امیر ہی بستے ہوں ، یقیناً ایسا ممکن ہی نہیں۔ یہ مختلف الخیالی ہی یقیناً دنیا کا حُسن بھی ہے مگر مالی وسائل کی تقسیم ہو یا نصاب کے ذریعے ذہنی تربیت کا اہتمام ، عقلمند معاشرے اپنے ملک کے کونے کونے اور ہر فرد تک کم ازکم سطح کی تعلیم اور خاص سطح تک وسائل پہنچانے کا اہتمام وانتظام ضرور کرتے ہیںاورپھر اسے یقینی بناتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ خاص سطح کا بھوکا پیٹ اور خاص سطح کا خالی ذہن انتہائی خونخوار ہو جایا کرتے ہیں۔ وقت پر اگر بھوک مٹانے کا اور ذہن کو کم ازکم حد تک سیراب کرنے کا اہتمام نہ کیا جائے تو پھر انہیں نہ کوئی سمجھا سکتا ہے نہ قائل کر سکتا ہے۔ خیال رہے کہ نفرتوں بھرے لٹریچر کی معصوم ذہنوں تک رسائی کی روک تھام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوا کرتی ہے۔
افسوس ، ہمارے ہاں لوٹ ماراور مال بنانے میں مصروف اشرافیہ وسیاسیہ کے روپ میں گُھس بیٹھیے تجاّر نے کبھی نہ اس پر کوئی توجہ دی نہ اس کا اہتمام کیا کہ ملک کے طول وعرض میں انتہا درجے کی بڑھی ہوئی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ،ذہنی تفریق اورفاصلوں کو کم کرنے کا بھی کوئی اہتمام کیا جائے۔ یہ فاصلے جتنا کم ہوں گے ، ان دو طبقوں کی اجنبیت اور ناآشنائی ایک دوسرے سے جتنی کم ہوگی اتنا ہی معاشرے میں ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے خیالات وافکارونظریات کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہو گا ۔ سو ہر قسم کے تعلیمی ادارے میں مشترکہ نصاب کے نفاذ ، خیبر سے گوادراور جنوبی پنجاب سے لیاری تک منصفانہ وسائل کی تقسیم یقینی بنانے تک یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا ۔اگر وقتی طور پر آگ ، مذاکرات یا آپریشن سے بجھا بھی دی گئی تو آنے والے وقت میں اس سے زیادہ بھڑکے گی ، جلائے گی اور قوم اسی طرح بحث وتکرار میں الجھی نظر آئے گی کہ مذاکرات ہوں یا آپریشن؟ آنے والے کل میں اس بحث اور نقصان سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ ان عوامل پر بھی غور کیا جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے جن چنگاریوں نے پاکستان میں آج یہ بھانبھڑ مچایا ہوا ہے۔
بات چل ہی نکلی ہے تو اس پر بھی بات کریں۔۔۔!