مارچ 2000ء میں جس دن امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کی سرزمین پر قدم رکھ رہے تھے، جنوبی کشمیرکے ایک دورافتادہ علاقے کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں رات کے وقت خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ تقریباً 34 سکھ مردوں کو نا معلوم بندوق برداروں نے ان کے گھروں سے نکال کر بیدردی سے ہلاک کردیا۔ دہلی کے حیدرآباد ہائوس کی پورچ میں جب وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اپنے وفد کے ہمراہ امریکی صدرکا انتظار کررہے تھے، وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی اور سکیورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا سرگوشیوں میں واجپائی کوکسی اہم معاملے پر بریف کر رہے تھے۔ ان کے چہروں کا اتارچڑھائو بتارہا تھا کہ معاملے کی نوعیت سنگین ہے۔ صدرکلنٹن کی آمد کے ساتھ ہی یہ رہنما کانفرنس ہال کے اندر چلے گئے اور ہم صحافی لوگ بھی حیدرآباد ہائوس کے وسیع و عریض لان میں میڈیا کے لیے لگائے گئے شامیانے میں جا بیٹھے جہاں بات چیت کے اختتام پر دونوں سربراہانِ مملکت پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے تھے۔
چند ساعتوں کے بعد ہی میڈیا میں سکھوں کی ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ ساتھ ہی ٹی وی صحافیوں کو اپنے دفتروں سے ہدایات آنا شروع ہوئیں کہ پریس کانفرنس میں کلنٹن سے ان ہلاکتوں پر استفسار کیا جائے۔ اس قتلِ عام کاکشمیر میں برسرِ پیکار عسکری تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے علاوہ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف بھی مورچہ بندی کر لی۔ اس خونِ ناحق کے پانچ دن بعد جب کلنٹن ابھی بھارت میں ہی تھے، نئی دہلی کے پریس انفارمیشن بیورو کے کانفرنس ہال میں ایڈوانی اور برجیش مشرا نے پریس کے روبرو دعویٰ کیا کہ سکھوں کے قاتلوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے اورایک دوردراز علاقہ پتھری بل میں فوج اور پولیس نے ایک مشترکہ آپریشن میں ان کو ماردیا ہے۔ مگر چند روز بعد ہی اس دعوے کی اس وقت قلعی کھل گئی جب مقامی آبادی نے دعویٰ کیا کہ مارے گئے افراد سویلین تھے اوران کو فوج نے حراست میں لیاہوا تھا۔ ہلاک شدہ افراد میں سے ایک ظہور احمد دلال اننت ناگ قصبہ میں اپنی دکان کا شٹر گرارہاتھا جب پولیس کے آپریشن گروپ کے اہلکاروں نے اسے دبوچا اور بعد میں غیر ملکی جنگجو قرار دے کر فوج کے حوالے کردیا۔ اس کیس کی خاص بات یہ تھی کی دیگر واقعات کے برعکس بھارت کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے فوجی افسران پرفرد جرم عائدکی۔
اس کہانی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک فوجی کورٹ نے اب چودہ برس بعد یہ کہتے ہوئے کیس کی فائل بند کردی کہ دستیاب شواہدکی بنیادپرفوجی افسران ملزم قرارنہیں پاتے ۔افسوس کہ سانحہ پتھری بل کے متاثرین کو ان برسوں کے دوران انصاف کی فراہمی کے لیے جس طرح دربدر گھمایاگیا اورانہیںسخت ذہنی ابتلا سے گزاراگیا وہ ناقابل بیان داستانِ الم ہے۔اس ستم ظریفی پرجتنا بھی افسوس کیاجائے کم ہے۔اس فوجی فیصلے کے ردعمل میںمتاثرین کایہ کہنا ہے کہ انہیں ایسے لگ رہاہے جیسے ان کے عزیزوں کو آج دوبارہ قتل کیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پتھری بل
سانحہ سے متعلق کئی اداروں نے تحقیقات کی جس کے دوران ہرادارے کو اس بات کے ٹھوس شواہدملے کہ متعلقہ فوجی دستے نے ان عام شہریوں کو فرضی جھڑپ میں موت کے گھاٹ اتارا۔ ہیومن رائٹس واچ نے2006ء میں جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں پتھری بل ہلاکتوں میں فوج کے ملوث ہونے کا دستاویزی ثبوت فراہم کیا جبکہ خودبھارت کے تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کی طرف سے عمل میں لائی گئی تحقیقات میںفوج کواس سانحے کاذمہ دارٹھہرایاگیا۔اس خونی واقعے کی تحقیقات کے لیے قبر کشائی کرکے لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوا کیونکہ فوج اس بات پر بضد تھی کہ یہ عام شہری نہیں بلکہ غیرمقامی جنگجو تھے۔ قبرکشائی کرکے جب ڈی این اے نمونے لیے گئے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کی مارے گئے غیر مقامی جنگجو نہیں بلکہ جنوبی کشمیرسے تعلق رکھنے والے وہ عام شہری تھے جن کو فوج باضابطہ طور پربندوق کی نوک پراغواکرکے مقتل کی جانب لے گئی تھی اورپھرفرضی جھڑپ میں انہیں گولیوں سے بھون ڈالاگیا تھا۔کئی رپورٹوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اس فرضی معرکے میںبھارتی فوج کی 7ـ راشٹریہ رائفل کے بریگیڈئیر اجے سکسینہ ، لیفٹیننٹ کرنل براہندرا پرتاپ سنگھ ، میجر سوربھ شرما ، میجر امیت سکسینہ اور صوبیدار ادریس خان بھی شامل تھے۔
پتھری بل فرضی جھڑپ معاملہ کی از سرنو تحقیقات کرنے کے مطالبے پرفوج نے واضح کیا کہ یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے اور فوج میں ایسی کوئی روایت نہیں کہ ایک مرتبہ تحقیقات کے بعد کسی کیس کی دوبارہ تحقیقات کی جائے۔ فوج نے اْن اخباری رپورٹوں سے بھی انکار کیاجن میں کہاگیا تھا کہ وزیردفاع اے کے انتھونی نیشنل سکیورٹی اجلاس میں اس مسئلے کو زیر بحث لائے تھے ۔دوسری جانب اس فرضی جھڑپ میں مارے گئے پانچ شہریوں کے لواحقین نے بھی ازسرنو تحقیقات میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ انصاف کی امید کھو بیٹھے ہیں اور جس انداز میں یہ کیس چلا ، ایسے میں یہ امید رکھنا حماقت ہوگی کہ دوبارہ تحقیقات کے نتیجے میں متاثرین کو انصاف ملے گا۔ جہاں تک فوج کے تازہ موقف کا تعلق ہے،نہ صرف مزاحمتی گروپ بلکہ خود ریاستی حکومت نے بھی فوج کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹھوس شواہد کی موجودگی میں ان ہلاکتوں میں ملوث فوجی اہلکاروں کو الزامات سے بری کرنا قطعی قرین انصاف نہیں ہے۔ ریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے محکمہ قانون کو فوجی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے کر اس کا توڑ کرنے کے لیے متبادل تلاش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ہوسکتا ہے فوج کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے،لیکن فوج نے اس اہم معاملے کے حوالے سے جو موقف اپنا رکھا ہے، اس کے ہوتے ہوئے اس بات کی بہت کم امید ہے کہ متاثرین کو انصاف مل سکے گا۔
اگر متعلقین اس فیصلے کو چیلنج کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو بات پھر ایک بار اس نکتے پر آکر رک جائے گی کہ کیا آر مڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے ہوتے ہوئے سول عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کا سہارا لے کر فوج کو یہ اختیاردے دیاہے کہ وہ کورٹ آف انکوائری کے ذریعے ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔فوج کا موقف بھی یہی تھا اور یوں طویل قانونی لڑائی کے بعد فوج کی جیت ہوگئی۔اول دن سے ہی یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا تھا کہ ملوث اہلکاروں کو باعزت بری کردیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔اب جبکہ فوج کیس کی نئے سرے سے تحقیقات کے خلاف ہے تو کس طرح یہ امیدکی جاسکتی ہے کہ عدلیہ میں متاثرین کو انصاف ملے گا۔
دراصل کشمیر میں ایک منصوبہ بند طریقے سے حقوق انسانی کی پامالیاں اورقتل و غارت گری کا سلسلہ جاری وساری رہا ہے اور ان ہولناک واقعات کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن ہمیشہ نہ صرف ڈھکوسلہ ثابت ہوتے رہے بلکہ یہ کمیشن اصل میں حقائق کو چھپانے یا مسخ کر نے کے لیے ہی قائم کیے جاتے رہے ہیں۔ زیر بحث فیصلہ اس بات کا بھی بین ثبوت ہے کہ آرمڈ فورسز ایکٹ کے زیر سایہ جموں کشمیر میں انسانی زندگیاں ہمیشہ خطرے میں گھری رہیںگی۔