تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-02-2014

ایک اورہی قسم کے مشاعرے کا احوال

صبح ادبی کانفرنس تھی، شام کوکُل پاکستان مشاعرہ اوراگلے دن کُل بلوچستان مشاعرہ بیاد عطا شاد مرحوم تھا۔ میں صرف ایک دن کے لیے کوئٹہ گیا تھا،میری خواہش تھی کہ میں کُل بلوچستان مشاعرے کا سامع ہوتا مگرایک کام کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی لاہور روانہ ہو گیا ؛ تاہم ایک دن بھرپورانداز میںگزارا۔ نوید ہاشمی آرگنائزر سے زیادہ تھانیدار ہے‘ لیکن پنجاب پولیس کے تھانیدار سے بالکل مختلف‘ وقت کا پابند اور بے لچک‘ گاڑی وقت پر بھجوائے گا اور سواری سے بھی وقت کی پابندی کا متقاضی ہو گا، سٹیج پر بھی شعرا اور مقررین سے وقت کی پابندی کروائے گا۔ حتّی کہ شعراء کی ڈھٹائی کے باعث اگر طے شدہ وقت سے زیادہ ہو جائے تو خود شاعر ہونے کے باوجود شعر سنانے سے انکارکردے گا۔کسی شاعر کے لیے اس سے بڑی قربانی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
کانفرنس وقت مقررہ پر شروع ہوئی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بھی تقریباً وقت پرپہنچ گئے۔ ترقی پسند شاعرعلی سردار جعفری سے معنون یہ کانفرنس ، ترقی پسند تحریک اور سیکولرازم کے حوالے سے بات کرنے والے ادیبوں کے نظریاتی اختلافات سے بھرپور ہونے کے باوجود ، پاکستان بھر سے آنے والے مقررین اور ہمہ تن گوش سامعین کے طفیل بڑی کامیاب اور بھرپور تھی۔کانفرنس کی صدارت کراچی سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی صدر مسلم شمیم نے کی۔ مہمانان خصوصی ڈاکٹر عبدالمالک اورچیف سیکرٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد تھے۔ مہمان اعزازی عطاء الحق قاسمی‘ سلیم رازاور منیر احمد بادینی تھے۔ مقررین میں جعفراحمد (کراچی)، شہاب خٹک (پشاور) ،خالد فتح محمد (گوجرانوالہ)، ڈاکٹر سعادت سعید (لاہور)، رشید مصباح (لاہور)، ڈاکٹر جمال نقوی (لاہور) کے علاوہ صدر محفل اور مہمانان خصوصی و اعزازی شامل تھے۔ رنگوں کے اس گلدستے میں پاکستان بھرکی نمائندگی تھی۔
رات کا مشاعرہ بھرپور اور یادگار تھا، شعرا اور سامعین دونوں حوالوں سے، لیکن اس کی خاص بات یہ تھی کہ کم از کم اس عاجز نے پہلی بار بلوچستان میں سول اور ملٹری قیادت کو ایک چھت تلے‘ کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے دیکھا۔ میرگل خان نصیر کی یاد میں ہونے والے اس مشاعرے کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالمالک اورکمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ تھے۔ دیگر مہمانوں میں آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد‘ جنرل کمانڈنگ آفیسر 33 ڈویژن میجرجنرل سمریز سالک‘ چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد‘ ڈی جی نیب سید خالد اقبال‘ بیگم کورکمانڈراورکئی صوبائی وزراء‘ ایم این اے اور ایم پی اے شامل تھے۔ سامعین کی تعداد کتنی تھی؟ عام طورپراس سلسلے میں منتظمین کے دعوے سیاسی جلسوںکے لیڈروںکی طرح کے ہوتے ہیں۔۔۔ حقیقت سے کہیں بڑھ کر،لیکن یہاںگنتی بڑی آسان تھی‘ ہوٹل انتظامیہ سے پوچھا کہ ہال میں کتنی کرسیاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے تین سوافرادکے بیٹھنے کا انتظام ہے۔ تمام نشستیں پُر تھیں اور لوگ دروازے کے پاس آخری حصے میں کھڑے ہوئے تھے۔ میں تھوڑی دیر کے لیے سٹیج پرگیا کہ وہاں جانا لازمی تھا؛ تاہم فرشی نشست ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر نہ بیٹھ پایا۔ ایک زمانہ تھا ،صبح باورچی خانے میں رکھی لکڑی کی چوکیوں پر جسے پنجابی میں ''پیڑھی‘‘ کہا جاتا ہے، بیٹھ کر والدہ کے ہاتھوں سے پکائے گئے ، توے سے اترتے ہوئے گرما گرم پراٹھے کھایا کرتے تھے۔ سحری اور افطاری بڑے کمرے میں بچھی دری پر بیٹھ کر کیا کرتے تھے۔ زمین پر بیٹھنے کی عادت تھی اور گھٹنے بھی ساتھ دیتے تھے۔ اب نہ زمین پر بیٹھنے کی عادت رہی ہے اور نہ ہی گھٹنے ساتھ دیتے ہیں مگر مشاعرے کی روایتی نشست ایک مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ یہ روایتی اہتمام بھی صرف شعراء کے گھٹنوں کی آزمائش کے لیے باقی رہ گیا ہے وگرنہ سامعین تو روایتی مشاعروں میں بچھائی ہوئی چاندنی سے اٹھ کرکرسیوں پر جا بیٹھے مگر شعرا ابھی تک روایت کو بھگت رہے ہیں۔ میں تھوڑی دیر سٹیج پر بیٹھنے کے بعد آنکھ بچا کر واپس نیچے آ گیا۔ اب مشکل یہ تھی کہ بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی نہیں مل رہی تھی۔ تمام کرسیاں فل تھیں ، مجھے بے نشست دیکھ کر پہلی صف میں بیٹھے ہوئے ہمدم دیرینہ سیکرٹری ثقافت بلوچستان برادرم سرور جاوید نے اپنی نشست مجھے دے دی۔ سامعین صاحب ذوق بھی تھے اور پرجوش بھی۔ مشاعرے میں ہر اس شاعر کو داد مل رہی تھی جو داد کا اہل تھا اور اس طرح اکثر شعراء کو داد مل رہی تھی۔ سامعین کی شعر شناسی کا یہ عالم تھا کہ باریک سے باریک شعر بھی سمجھ رہے تھے اور اسی قدر داد دے رہے تھے جو شعرکا حق تھا۔ مشاعرہ بروقت شروع ہوا، شعراء کی تعداد تیس کے لگ بھگ تھی لیکن کسی مرحلے پر ایسے نہ لگا کہ مشاعرہ ٹھنڈا پڑ رہا ہے۔ مشاعرہ ان حالات میں ہو رہا تھا کہ محض دو دن پہلے مجلس وحدت المسلمین کا دھرنا ختم ہوا تھا۔کوئٹہ شہر چند دن پہلے ہونے والی خون ریزی پر اداس تھا اور خوف کی ایک فضا ہر طرف نمایاں تھی ؛ تاہم اہل کوئٹہ نے اس ادبی کانفرنس اور مشاعرے کے ذریعے حالات نارمل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس بارے میں شاعروں نے بھی قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اہل بلوچستان کی دعوت پر لبیک کہا اور اس مشاعرے کو اپنی شرکت سے مزید رنگین بنا دیا۔کراچی سے مسلم شمیم‘ جاوید منظر‘ جمال نقوی‘ سیما غزل اور عظیم حیدر سید ‘ لاہور سے عطاء الحق قاسمی ‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ سجاد شاہ‘ زاہد مسعود اور مقصود خالق آئے تھے۔ اسلام آباد سے حسن عباس رضا‘ شکیل اختر‘ اختر رضا سلیمی‘ عابدہ تقی اور راشدہ ماہین ملک تھیں۔ ملتان سے یہ عاجز اور قمر رضا شہزاد‘ گجرانوالہ سے جان کاشمیری‘ نارووال سے مضطر کاشمیری ‘ ایبٹ آباد سے احمد حسن مجاہد‘ میاں چنوں سے عابد حسین عابد اور ندا فاطمہ‘ پشاور سے حسام حر اور گلگت سے احسان شاہ تھے۔
اگلے روز کل بلوچستان مشاعرے میں بلوچستان کے شعراء کی بھرپور نمائندگی متوقع تھی مگر اس مشاعرے کو کل پاکستان بنانے کی غرض سے بلوچستان کے نمائندہ شعراء کو بھی شامل کیا گیا۔ ان شعراء میں عابد شاہ عابد‘ حاوی اعظم‘ آغا محمد ناصر‘ خورشید افروز‘ عرفان الحق صائم اور بریگیڈیئر سلیم محمود تھے۔ وقت کی کمی کے باعث ناظم مشاعرہ نوید ہاشمی نے شعر پڑھنے سے معذرت کی مگر شعراء نے یہ معذرت قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یہ مشاعرہ تقریباً پانچ گھنٹے جاری رہا مگر اس دوران سامعین اور مہمانوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی۔ اس کا اندازہ کھڑے ہوئے لوگوں کی تعداد میں اضافے سے لگایا۔
مشاعرے کے اختتام پر ڈاکٹر عبدالمالک کا خطاب تو خیر ادبی رنگ لیے ہوئے ہی تھا کہ وہ خود ماشاء اللہ بڑے اچھے ادیب اور ادب دوست ہیں‘ سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے اپنی خوبصورت گفتگو سے سامعین کو بڑا حیران کیا۔ بڑے عرصے کے بعد کسی ''اہل بندوق‘‘ سے اہل قلم والی گفتگو سنی ؛ تاہم ان کی یہ گفتگو اس روز اس لیے کم از کم میرے لیے حیران کن نہیں تھی کہ ایک روز قبل انہوں نے شاعروں کو ڈنر پر بلایا تھا اور بلوچستان کے حوالے سے ایک بڑی بھرپور بریفنگ دی تھی جس میں ان کی حس مزاح سے سب لطف اندوز ہوئے تھے۔ نوید ہاشمی نے کچھ ایسا اہتمام کیا تھا کہ یہ فرق کرنا محال تھا کہ میزبان فوج ہے یا سول انتظامیہ‘ وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں یا کمانڈر سدرن کمانڈ۔
اہل بلوچستان نے ادبی حوالے سے قومی یکجہتی کا ایک بھرپور مظاہرہ کیا اور جواباً پورے پاکستان کے شعراء نے ان کی اس کاوش کا پورا ساتھ دیا۔ یہ بظاہر ایک چھوٹی سے ابتداء ہے لیکن منزل کتنی ہی دور کیوں نہ ہو پہلا قدم سب سے اہم ہوتا ہے اور یہ قدم بلوچستان کے ادب دوست لوگوں نے اٹھایا ہے تاہم ابھی ایک لمبا سفر باقی ہے۔ اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں‘ کمزوریوں اور زیادتیوں کا جائزہ لینا ہوگا اورانہیں تسلیم کرتے ہوئے دوستی کی طرف قدم بڑھانا ہو گا۔ ناراض بھائیوں سے لے کر بہکائے گئے دوستوں تک کو محبت اورعملی اقدامات سے قریب لانا ہوگا ۔ وسیع القلبی اور خود احتسابی سے ٹوٹتے ہوئے رشتوں کو جوڑنا ہوگا۔ ابھی بہت کچھ باقی ہے اور سب کو اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ یہ بات درست کہ اس سارے قضیے میں بیرونی ہاتھوں کا بڑاکردار ہے مگر باہمی اتفاق اور محبت سے ان بیرونی ہاتھوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ پہلا قدم ہمیں ہی اٹھانا ہوگا اور اس کے لیے وقت بہت کم ہے ، لیکن ابھی گزرا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved