گرمیوں کے روزوں کی آمد آمد تھی۔ مراثی بیچارہ بہت پریشان تھا کیونکہ گزشتہ برس کے روزوں نے اس کو نڈھال کر کے رکھ دیا تھا۔ آخر اس نے سوچا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے۔ مولوی صاحب سے بات کی جائے۔ ہو سکتا ہے کوئی راستہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ گرمیوں کے روزوں کے بجائے سردیوں میں روزے رکھنے کی اجازت مل سکتی ہو۔ مولوی صاحب نے جب مراثی کی گفتگو سنی تو بہت محظوظ ہوئے۔ بولے: دادا(عام طور پر مراثیوں کو ان کے ملنے جلنے والے دیگر افراد دادا کہہ کر ہی مخاطب کرتے ہیں) جب رمضان کا چاند دیکھ لیا تو پھر گنجائش صرف اس صورت میں ہی نکل سکتی ہے کہ کوئی اس قدر بیمار ہو کہ روزے رکھ ہی نہ سکتا ہو۔ وہ شخص بعد میں روزے پورے کر سکتا ہے مگر آپ تو ٹھیک ٹھاک ہیں۔
مراثی بیچارہ مایوس سوچ میں گم گھر واپس آگیا۔ گھنٹوں سوچنے کے بعد بیوی سے مخاطب ہو کر بولا'' لو بھئی میں نے حل نکال لیا ہے‘‘ بیوی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولا '' میں اس بار رمضان کا چاند ہی نہیں دیکھوں گا۔ نہ چاند دیکھوں گا اور نہ روزے رکھنے پڑیں گے۔
بعد میں اس مراثی پر کیا بیتی اس کا ذکر آگے چل کر ہوتا ہے ‘پہلے میں یہ بتا دوں کہ مجھے یہ لطیفہ یاد کیوں آیا۔ یہ لطیفہ یاد آنے کی وجہ ہمارے سابق صدر پرویز مشرف کا وہ طرزِ عمل ہے جو غالباً انہوں نے اپنے وکلاء کی فوج کے مشورے پر اختیار کیا ہوا ہے۔
میری اس بارے میں کوئی رائے ابھی قائم نہیں ہو سکی کہ مشرف پر مقدمہ قائم کیا جانا چاہیے تھا کہ نہیں، خاص طور پر جب کہ ہمارا ملک مسائل کا ایک گڑھ بنا ہوا ہے اور ابھی چند دن قبل واشنگٹن پوسٹ میں کسی سوشل سائنٹسٹ نے اپنے تجزیے میں اسی برس فوجی بغاوت کے خطرے سے دو چار جن چالیس ملکوں کی فہرست جاری کی ہے ،ان میں نمایاں مقام پاکستان کو حاصل ہے۔
بہرحال مقدمہ قائم ہو چکا ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کا حربہ ابتدائی طور پر وہی دکھائی دیتا ہے کہ روزوں سے بچنے کے لیے چاند ہی نہ دیکھو۔
مشرف صاحب ایسی حکمت عملی کے اسیر ہیں جو مجھے یقین ہے کہ ان کی ذاتی ہو ہی نہیں سکتی۔ ممکن ہے اس حکمت عملی پر خود مشرف کڑھتے بھی ہوں کیونکہ جس ہمت سے فیصلہ کر کے موصوف پاکستان واپس آئے وہ تو ابھی کل کی بات ہے مگر ماضی میں بھی تن تنہا بہت بڑے بڑے فیصلے کر کے ان کے خمیازے بھگت چکے ہیں۔ تین نومبر کا ایمرجنسی پلس والا فیصلہ بھی ایسا ہے کہ بھلے عدالت میں کچھ بھی ثابت نہ ہو سکے مگر پاکستانی جانتے ہیں کہ اندھیرے میں اتنی بڑی چھلانگ ہمارا کمانڈو ہی لگا سکتا تھا۔
اب آتے ہیں لطیفے کے بقیہ حصے کی طرف کہ آخر چاند نہ دیکھ کر روزوں سے جان چھڑانے والے مراثی پر کیا گزری۔ ہوا یہ کہ بارہ تیرہ روزے تو وہ پی گیا۔ چودھویں روزے رات کو سخت پیاس لگی۔ مٹکا باہر صحن میں تھا جہاں چودھویں کا چاند جگمگا رہا تھا۔ پیاس روکنے کی کوشش کی مگر پیاس کی شدت قابلِ برداشت نہ رہی۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ تو پھر روزوں والی بات ہو گئی۔ اگر پیاس ہی برداشت کرنی تھی تو روزے ہی رکھ لیتا۔ خیر اس نے ایک کمبل سر پر اس انداز سے اوڑھا کہ کسی طور پر بھی چاند پر نظر نہ پڑ سکے اور صحن میں جا کر جونہی اس نے کٹورے میں مٹکے سے پانی انڈیلا تو ایک چیخ ماری۔ اس کی بیوی بھاگی بھاگی آئی۔ بولی کیا ہوا؟ کٹورے کی طرف اشارہ کر کے بولا، اس میں چاند نظر آ گیا ہے۔ بیوی یہ سن کر ہنسنے لگی تو غصے سے بولا '' جا اب اپنی سحری کے ساتھ میری سحری پکانے کا بھی انتظام کر۔ اب روزے مجھ پر بھی فرض ہو چکے ہیں‘‘۔
مشرف کے وکلاء نے جو اُن کو فوجی ہسپتال میں ہی رہنے کا مشورہ دے رکھا ہے، اس کا انجام بھی غالباً ویسا ہی ہو گا کہ کٹورے میں چاند نظر آ جائے گا۔ کس دن ایسا ہو گا، اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں ہو سکتی لیکن مجھے لگتا ہے کہ مشرف ایک دن خود ہی اپنے وکلاء کی آراء کو مسترد کرتے ہوئے عدالت آ جائیں گے کیونکہ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ پرویز مشرف کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔
ان کے عدالت میں پیش ہو جانے کے بعد کیا ہو گا۔ ایک طویل مقدمہ شروع ہو جائے گا جو آخر کار مسلم لیگ ن کے لیے عذاب بن جائے گا۔
سابق صدر پرویز مشرف کا اصلی حساب کتاب تو حشر کے روز ہی ہو سکتا ہے۔ موصوف کے دور میں جو اندو ہناک واقعات ہوئے ان میں کس کی نیت کو کتنا دخل تھا، وہ سب رب کریم کے سامنے ہو گا اور فیصلہ ہو جائے گا۔ اس دنیا میں مشرف پر مقدمہ ایک شغل کے طور پر یا کسی انتقامی جذبے کے تحت یا پھر کسی ادارے کو کوئی پیغام دینے کے لیے اگر شروع کیا گیا ہے تو اس کا انجام دنیاوی اصولوں کے تحت ہی ہو گا، اور ہمارے ہاں جو دنیاوی اصول موجود ہیں اُن سے ہر پاکستانی واقف ہے۔ جس کا زور چل جائے جیت اسی کی ہوتی ہے۔ میمو گیٹ سکینڈل میں سویلین حکومت کا زور چل گیا تھا تو کیا عجب اس معاملے میں مشرف کی حامی طاقتوں کا زور چل جائے۔
جہاں تک عدل و انصاف کا تعلق ہے تو یہ باتیں بہت اچھی ہیں۔ ہمارے پاس آزاد عدلیہ ہے۔ حکومت سمیت سیاسی جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے قربانیاں دے کر آزاد عدلیہ بحال کروائی ہے ‘مگر انصاف ابھی تک عوام کو کیوں نہیں مل سکا۔ آج بھی سالہاسال سے مقدمات زیر التوا ہیں۔ کیا ایسا نظام نہیں بننا چاہیے جس کے تحت ہرشخص کو فوری انصاف کی سہولت حاصل ہو جائے۔