تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     05-02-2014

امن کے قیام کا راستہ

دوسری جنگ عظیم کے شعلے سرد ہو چکے تھے لیکن جن ملکوں کی سرزمین پر یہ آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا وہاں بربادی اور تباہی کے منظر دھوئیں کے بادلوں کی طرح چھائے ہوئے تھے۔ کروڑوں انسان ابدی نیند سلا دیئے گئے اورہزاروں بستیاں اور شہر کھنڈر بن گئے۔ نسل اور قوم کی برتری کے نعرے پر لڑی جانے والی یہ لڑائی جمہوری طور پر منتخب رہنمائوں نے خونخوار بھیڑیوں کا تاج سر پر سجا کر لڑی۔ نہ ہٹلر کوئی ڈکٹیٹر تھا اور نہ چرچل نے فوج کے ذریعے برطانیہ کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ دونوں اپنے اپنے ملکوں کے محبوب ترین جمہوری قائدین تھے۔ میدان جنگ سے کوسوں دورسمندر پار بسنے والا امریکہ بھی ایک لازوال جمہوریت کا علمبردار تھا۔ جنگ کے شعلے چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان سے لے کر ایشیاء‘ افریقہ اور یورپ کے ہر خطے کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کر چکے تھے۔ اس خونریز لڑائی کے بعد جس طاقت نے اپنے پنجے اس دنیا میں آکٹوپس کی طرح گاڑے وہ امریکہ تھی۔ جنگ میں اسلحہ کی فراہمی نے اسے مالا مال کردیاتھا اور دنیا پر ٹیکنالوجی کی برتری ثابت کرنے کے لیے اس نے ایٹم بم گرا کر ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ میدان جنگ سے کوسوں دور امریکہ کے شہر جنگ کی گرد سے بھی دور تھے۔ نہ اس کے شہروں پر بمبار طیاروں نے پروازیں کیں اور نہ ہی فضائی بمباری سے بچنے کے لیے شہریوں کو بلیک آئوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ عظیم کی قتل و غارت اور تباہی و بربادی سے دور امریکہ نے یہ جان لیا تھا کہ اب اس کی طاقت کا لوہا مانا جا چکا ہے۔ جہاں اس کی فوجی برتری قائم ہوئی‘ وہیں معاشی برتری کا سکہ بھی چلنے لگا۔ ہرتباہ شدہ ملک امریکی امداد کا محتاج تھا‘ لیکن امریکی ذہن کسی اور جنگ کے منصوبے سوچ رہا تھا۔ ایک ایسی جنگ جو دنیا کو خوف میں مبتلا رکھے‘ ملکوں میں خون بہتا رہے‘ بارود کی بو سے بستیاں آلودہ ہوتی رہیں‘ اسلحے کی منڈی سجی رہے اور اس کے نتیجے میں امریکی بالادستی کے ساتھ امریکی معیشت بھی ترقی کرتی رہے۔ اس جنگ کو امریکہ کے منصوبہ ساز ذہن نے سرد جنگ کا نام دیا۔ پوری دنیا کو اب دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم کردیا گیا۔ نسل ‘ رنگ اور زبان کی بنیاد پر بہت خون بہایا جا چکا تھا۔ اب اس نعرے میں کشش باقی نہ تھی۔ اسی لیے نظریات کی بنیاد پر ایک نئی جنگ کا آغاز کیا گیا۔ یہ جنگ کمیونسٹ شدت پسندوں کے خلاف تھی اور اس جنگ کا ایندھن سب سے پہلے امریکہ کے اپنے پڑوسی ممالک تھے جو براعظم جنوبی امریکہ میں واقع 
تھے۔ ان تمام ممالک میں مزدورں‘ کسانوں اور غریب عوام کے جذبات کی نمائندگی کرنے والی سب تنظیموں کو جمہوریت‘ امن‘ انسانیت اور ترقی کا دشمن قرار دے کر کمیونزم کے کھاتے میں ڈالا گیا۔ایسے افراد اگر حکومت حاصل کرلیتے یا حاصل کرنے کے قریب ہوتے تو فوج کے ذریعے ان کا تختہ الٹ کر انہیں جنگلوں‘ پہاڑوں اور پناہ گاہوں میں دھکیل دیا جاتا جہاں انہیں گوریلا جنگجو کے نام سے بدنام کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ آگ اور خون کی اس تاریخ کا آغاز جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1946ء میں امریکہ میں Army School of Americas کے قیام سے ہوا۔ اس سکول میں جنوبی امریکہ کے ممالک سے افواج کو کمیونسٹ گوریلوں سے لڑنے کی تربیت دی جاتی۔ انہیں وہ گر سکھائے جاتے کہ کیسے لوگوں کو غائب کرنا‘ کس طرح انہیں بد ترین تشدد سے ناکارہ بنانا اور کس طرح فوجی ایکشن کے ذریعے بستیوں کی بستیاں ویران کرنا ہیں۔ اس سکول کا نصاب اس قدر متشدد تھا کہ اس سے فارغ التحصیل لوگوں نے اپنے ملکوں میں یا تو قتل کیے یا پھر افراد کو سرے سے لاپتہ کردیا۔ اس سکول کے بارے میں مشہور کانگریس مین اسٹیبان ٹورس (Esteban Torres) نے کہا کہ یہاں صرف اور صرف تشدد‘ ترغیب ‘ بلیک میلنگ اور کرپشن کے طریقوں کی تعلیم ہوتی تھی۔ یہ سکول 50 سال تک کام کرتا رہا اور اس نے جنوبی امریکہ کے ممالک سے 60 ہزار فوجیوں کو تربیت دی۔ یہ سکول امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون تھا۔ وہ خارجہ پالیسی جو جنگ عظیم دوئم کے بعد جارج کینن (George Kennan) نے مرتب کی۔ اس نے کہا تھا ہم دنیا کی آبادی کا صرف 6.3 فیصد ہیں لیکن ہمارے پاس دنیا کی 50 فیصد سے زیادہ دولت آ چکی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس تضاد کو قائم رکھیں ‘ بے شک اس کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو ایک خوف میں مبتلا کردیںاور جنگ کے میدان وضع کرتے رہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمارے ملک کی سالمیت اور سکیورٹی نظر انداز نہیں ہونی چاہیے۔ اس خارجہ پالیسی سے امریکی افواج نے دنیا بھر میں ہر ترقی پذیر ملک کو جنگ اور ہر ترقی یافتہ ملک کو خوف کا شکار کردیا۔ اس سکول میں تربیت کے لیے تشدد کے ذریعے راز اگلوانے سے لے کر نفسیاتی طور پر ناکارہ کرنے کے کئی مینوئل پڑھائے جاتے تھے۔ سالٹر سٹیفنی (Salter Stephanie) نے 1999ء میں اپنی کتاب میں ان تمام مینوئلز کا ذکر کیا ہے جو آج بھی دنیا بھر کی بدنام زمانہ جیلوں میں استعمال ہوتے ہیں جن میں گوانتا ناموبے اور ابو غریب جیل شامل ہیں۔ اس سکول سے فارغ التحصیل ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنے ملکوں میں جا کر یا تو منتخب حکومتوں کے تختے الٹے یا پھر فوج میں رہتے ہوئے ہزاروں لوگوں کو لاپتہ کیا اور ہزاروں کو آپریشن کے نام پر قتل۔ ارجنٹائن کا ایملو میرا‘ بولیویا کا ہوگو سبنرز‘ چلی کا راڈل اتیروگا‘ یوسی ڈورکا گوہیرمو‘ السلواڈور کا رابرٹو اربسن‘ گیمبیا کا صدر یحییٰ جامہ‘ گوئٹہ مالا کا مارکو انسٹونیو‘ پانامہ کا نوری ایگا اور پیرو کا ولادی میر جونٹین اور ایسے کئی افراد شامل ہیں جنہیں ان کے ملکوں میں اقتدار پر امریکی فوج کی مدد سے قابض کروایا گیا اور پھر انہوں نے تیس سال ایک امریکی جنگ اپنی اقوام پر مسلط کی۔ لیکن روس کی کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد یہ نعرہ ان لوگوں سے چھن گیا۔ ادھر جنوبی امریکہ کے ممالک کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس امریکی جنگ نے ان کے شہر ویران‘ معیشت تباہ اور لاکھوں افراد قتل کروا دیئے ہیں۔ کسی قوم کے لیے یہ احساس کافی تھا۔ ہر ملک نے علیحدہ علیحدہ امریکہ کو خیرباد کہنا شروع کیا۔ اپنے ناراض لوگوں کو ساتھ ملایا‘ ان سے صلح کی اور آج وہ سب چین سے ہیں۔ آج جنوبی امریکہ کے ممالک ترقی کی شاہراہ پر ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے انہیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں‘ ایک یہ کہ انہوں نے یہ یقین پختہ کرلیا تھا کہ اب امریکہ کی جنگ ہم نے اپنے ملک میں نہیں لڑنی اور دوسری بات یہ کہ جتنا خون یہاں پر بہہ چکا ہے‘ جتنے قتل ہو چکے ہیں ‘ جتنے لاپتہ افراد ہیں ان کا الزام ایک دوسرے پر رکھ کر امن کا راستہ خراب نہیں کرنا۔ پوری قوم امن چاہتی تھی۔ ہر ملک اس اذیت سے نجات چاہتا تھا۔ وہاں کسی دانشور‘ ادیب‘ صحافی‘ سیاسی یا مذہبی رہنما نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ اتنے ہزار شہداء کے خون کا سودا مت کرو‘ اتنے لاپتہ افراد کے قاتل فوجیوں پر مقدمہ چلائو ‘ اتنے فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے قاتلوں سے بدلہ لو۔ بس ایک نکتے پر سب جمع ہو گئے تھے کہ ہمیں امن چاہیے اور ہم اس امن سے پرانے زخموں کو دھو لیں گے‘ پرانی رنجشوں کو بھول جائیں گے‘ امن کی اس خواہش اور سکون کی اس تلاش نے پورے جنوبی امریکہ کو امن‘ اطمینان اور خوشحالی واپس لوٹا دی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved