تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-02-2014

سرخیاں‘ متن اور ماہنامہ ’’فیاض‘‘

نوازشریف اور عمران خان نے قوم 
کی توہین کی... بلاول بھٹو زرداری 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نوازشریف اور عمران خان نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر کے قوم کی توہین کی‘‘ جبکہ سندھ کلچرل فیسٹیول میں بختاور باجی نے انگریزی میں گانا گا کر ہماری ثقافت کی عزت افزائی کی تھی کیونکہ پانچ ہزار سال پہلے بھی ہماری دھرتی پر انگریزی میں ہی گانے گائے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے اپنی ماں کو کھو دیا‘‘ اگرچہ پاپا جان نے بھی اپنی بیگم کو کھو دیا تھا لیکن وہ صدارت کی ذمہ داریوں میں ہی اس قدر محو ہو گئے تھے کہ ان کے قاتلوں کی طرف توجہ ہی نہ دے سکے‘ نہ ہی مجھے انہیں اس کی طرف توجہ دلانے کا موقع ملا؛ ویسے بھی وہ خود بھی کہتے رہے کہ انہیں قاتلوں کے نام تک معلوم ہیں لیکن اپنی رحمدلی کی وجہ سے وہ نہ تو کچھ کر سکے اور نہ ہی ان کے نام بتائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دینے کے علاوہ ٹویٹر پر خطاب کر رہے تھے۔ 
پرویز مشرف اپنے لیے خود مسائل 
پیدا کر رہے ہیں... پرویز رشید 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''پرویز مشرف اپنے لیے خود مسائل پیدا کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ ہم نے ان کے لیے اتنی سہولتیں مہیا کیں اور مقدمہ دائر کر کے اس قدر مشہوری دلوائی لیکن انہوں نے اس کی کوئی قدر نہ کی۔ انہوں نے کہا کہ ''ان کے پاس عدالت میں پیش ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘ البتہ کسی اور نے آ کر انہیں کوئی راستہ مہیا کردیا تو اور بات ہے کیونکہ اس ملک میں راستوں کی ویسے بھی کوئی کمی نہیں ہے جیسا کہ شریف برادران کے لیے بھی سعودیہ کا راستہ نکل ہی آیا تھا اور اسی طرح ریمنڈ ڈیوس بھی کسی راستے ہی سے نکل کر امریکہ جا پہنچے تھے حالانکہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اُسے بھی جانے کے لیے کوئی راستہ مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مقدمہ کی کارروائی خالصتاً عدالتی عمل ہے‘‘ اور سابق چیف جسٹس صاحب نے بھی دیرینہ تعلق کی بنا پر انہیں راستہ ہی دیا تھا‘ جو اتفاق سے کسی اور طرف کو نکل گیا اور راستوں کو کہیں جانے سے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
طالبان سے مذاکرات کی کامیابی 
کے لیے دعا گو ہوں... گیلانی 
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں‘‘ کیونکہ درویش اور اللہ لوک آدمی ہوں اور کبھی لالچ‘ طمع اور حرص سے کام نہیں لیا‘ اس لیے میری دعا بہت جلد قبول ہو جاتی ہے جبکہ وزارت سے فارغ ہونے کے بعد سے میں دم جھاڑا بھی کر لیتا ہوں اور ڈیرے پر ہر وقت حاجتمندوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے اور ماشاء اللہ اتنی آمدن ہو جاتی ہے کہ زمانۂ وزارت کی مفلوک الحالی یاد کر کے کلیجہ منہ کو آتا ہے اور اب میں سوچتا ہوں کہ سیاست کے بے سود جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے اگر شروع سے ہی یہ دھندہ اختیار کر لیتا تو کس قدر اچھا ہوتا لیکن ع 
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت 
بلکہ احتیاطاً اپنی درگاہ بھی تعمیر کرانا شروع کردی ہے کیونکہ کچھ پتہ نہیں اللہ میاں کو میرے جیسے نیک بندے کی کس وقت ضرورت پڑ جائے۔ آپ اگلے روز رحیم یار خان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
مذاکرات کے لیے طالبان ذمہ دارانہ 
طرزِ عمل اختیار کریں... وٹو 
پیپلز پارٹی پنجاب میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ''مذاکرات کے لیے طالبان ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کریں‘‘ اور خاکسار کی مثال سامنے رکھیں کہ میں نے ہمیشہ کس قدر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کیے رکھا اور صرف اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی بیت المال سے اڑھائی کروڑ رکعت کا ثواب حاصل کر کے اپنی عاقبت سنوارنے کا جتن کیا۔ اللہ تعالیٰ منظور و مقبول فرمائے اور ہم جیسوں کی ان عاجزانہ عبادات کی جزا ارزانی فرمائے‘ آمین ثمہ آمین! انہوں نے کہا کہ ''طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کی بھرپور سپورٹ کی جائے گی‘‘ کیونکہ اب تو تھرکول منصوبے کے افتتاح کے موقع پر کھُل کھُلا کر بھی باہمی تعاون کی مثال قائم کردی گئی ہے اور وزیراعظم میاں نوازشریف ایک بار پھر زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی کے قائل ہو گئے ہیں اور اب ستّے خیراں ہیں۔ اُن کے موجودہ دور کے لیے اور ہمارے اگلے دور کے لیے۔ انہوں نے کہا کہ ''طالبان اپنی مذاکرات کمیٹی کا الگ سے اعلان کریں‘‘ جیسا کہ ہم نے گزشتہ پانچ برسوں میں اکٹھے ہوتے ہوئے بھی الگ الگ ثواب کمایا ہے۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
بیاض 
یہ ماہنامہ حسبِ معمول پہلی تاریخ کو ہی آ گیا تھا جس میں معمول کی تحریروں کے علاوہ علی تنہا کا محمد خالد اختر کے بارے میں اور جلیل عالی کا ''ہماری تہذیبی روایت اور پاکستانی غزل‘‘ کے عنوان سے مضمون بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اس پرچے میں شائع ہونے والی شگفتہ الطاف کی غزل کے چند شعر: 
بُجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا کیوں نہیں دیتے 
تم مجھ کو محبت کی دعا کیوں نہیں دیتے 
انجان ہیں‘ بے حس ہیں‘ وفادار نہیں ہیں 
ہم اتنے بُرے ہیں تو بھُلا کیوں نہیں دیتے 
آنگن میں اُتر آئے گی یہ دل سے نکل کر 
نفرت کی یہ دیوار گرا کیوں نہیں دیتے 
لوٹ آنے کو شاید کوئی تیار ہے‘ لیکن 
تم اتنے زمانوں سے صدا کیوں نہیں دیتے 
بانی مدیر خالد احمد کی یاد میں جاری اس رسالے کی قیمت 100 روپے رکھی گئی ہے۔ 
آج کا مطلع 
بجھی ہے آگ تو کیا ہے‘ دُھواں تو رہنے دو 
کچھ اور روز ہمیں سرگرداں تو رہنے دو 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved