سوال یہ ہے کہ قدرت جس بھی آفت کی نمائش کرنا چاہتی ہے اس کے لیے پاکستان جیسے اسلامی ملک کا انتخاب ہی کیوں کرتی ہے؟؟؟ چاہے زلزلوں کے نقصانات ہوں یا سیلاب کی تباہ کاریاں یا کچھ اور... پاکستان ہی کیوں ...؟ ؟ ؟ آپ اخبار یا ٹی وی پر تقریباً ہر روز کسی ایسے بچے کی تصویر دیکھتے ہوں گے جس کے دو دھڑ ہیں، چار بازو ہیں، دو سَر ہیں یا جڑواں بچوں کے وجود آپس میں جُڑے ہوئے ہیں... ایک ایسا ملک‘ جہاں صبح سے شام تک اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے‘ موبائل ایس ایم ایس پر درود پاک کی chain چلائی جاتی ہے اور کروڑوں اربوں کی تعداد میں سترہ کروڑ سے زائد مسلمان پانچ وقت باری تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں‘ ایک محلے میں کئی کئی مسجدیں ہیں اور الحمدللہ سب کی سب شاد آباد... جن سے دن رات میں کسی بھی وقت والیم فل کر کے خلق خدا کو باری تعالیٰ کی یاد دلائی جاتی رہتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ ایک مسلمان ملک میں کس کی جرأت ہے کہ جب جی چاہے لائوڈ سپیکر کے ذریعے ہونے والے اس عمل کو روک سکے۔ اگر آزاد اور مسلمان مملکت کا اتنا فائدہ بھی مسلمانوں کو حاصل نہ ہو تو خاک ڈالنی چاہیے ایسی آزادی پر...
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی۔ سوال یہ اٹھایا تھا کہ دہشت گردی سے لوڈ شیڈنگ تک اور زلزلوں سے لے کر سیلاب تک‘ قدرت ہر قسم کی انسانی و قدرتی آفات کی ڈیمانسٹریشن کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا انتخاب ہی کثرت سے کیوں کرتی ہے؟ اور کیا یہ بے جا اور انتہائی سرعت سے بڑھتی ہوئی بیماریاں اور عجیب الخلقت بچوں کی پیدائش صرف قدرت کی ہم سے ناراضگی کا نتیجہ ہے یا اس کی وجہ کچھ اور بھی ہے...؟ انتہائی محنت سے تیار کی گئی رپورٹس اور ریسرچز تو کچھ اور ہی کہانیاں سناتی ہیں۔ ایک رپورٹ میں جعلی خوراک خصوصاً غلاظت اور گندگی سے تیارکردہ جعلی اور انتہائی غیرمعیاری گھی کے پاکستانی معاشرے کی صحت پر پڑنے والے خوفناک اور بھیانک اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ملاوٹ شدہ اور غیر معیاری خوراک، جس میں گھی، مصالحہ جات سے لے کر چائے کی پتی ،آٹا، دودھ، مرچیں اور دالیں وغیرہ سبھی کچھ شامل ہیں کی وجہ سے پاکستان میں اضافی بازوئوں، ٹانگوں، چہروں اور دھڑوں والے بچوں کی پیدائش کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پیدائشی طور پر معذور اور کٹے ہونٹ‘ کٹے تالو والے بچوں کی پیدائش میں اضافے کی بنیادی وجہ بھی خوراک میں ملاوٹ اور ناقص خوراک ہی بتائی جاتی ہے۔ ان نقائص سے بھرپور نسل کی پیدائش کی ایک اور وجہ ماحولیاتی آلودگی خصوصاً رکشوں سے نکلنے والا دھواں بھی ہے۔
دودھ گاڑھا کرنے کے لیے دودھ میں بال صفا پائوڈر کی ملاوٹ، مرچوں میں لال اینٹوں کے بُرادے کی آمیزش، چائے کی پتی میں کالے چنے کے چھلکے اور پلاسٹک یا ریگزین کے ٹکڑوں کو پیس کر ملانا، بکرے یا گائے کے گوشت کے وزن میں مخصوص ٹیکوں کے ذریعے اضافہ کرنا، مختلف جوسز میں کینسر پیدا کرنے والی سکرین یا کیمیکل کی آمیزش، جبکہ دعویٰ خالص پھلوں کے جوس بیچنے کا، یہ ساری پریکٹس پاکستان کے چاروں صوبوں میں عام ہے۔ اور تو اور بچیوں کے وقت سے پہلے بالغ ہونے کی بھی ایک وجہ غیرمعیاری اور گھٹیا خوراک ہوا کرتی ہے۔
اس چشم کُشا رپورٹ میں بازار میں دستیاب مختلف اشیا میں سے صرف ایک شے یعنی غیر معیاری اور کھلے گھی کے بارے میں جو تفصیل درج ہے اگر انسان صرف اسی کو پڑھ لے تو کئی دن تک نہ کچھ کھانے کو رغبت ہوتی ہے نہ حوصلہ پڑتا ہے کیونکہ جو گھی چاروں صوبوں میں فروخت ہو رہا ہے خصوصاً کھلا گھی اور اس میں جس کثرت سے بیکٹیریا اور آلائشیں پائی جاتی ہیں وہ کثرت سے فری فیٹی ایسڈز، کینسر، پیپاٹائٹس، السر اور دل کے امراض کا باعث بنتی ہیں۔
مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ اشرافیہ تو زیادہ تر imported olive oil استعمال کرنے پر لگ گئی ہے یا پاکستان میں جگہ جگہ imported خوراک کی دکانوں سے درآمد شدہ خوراک خریدکر دہشت زدہ پاکستان کی مختلف پاکٹس میں رہتے ہوئے بھی یورپ یا امریکہ یا برطانیہ میں رہنے کا لطف اٹھاتی ہے مگر تقریباً 80 فیصد سے زیادہ غرباء یعنی تقریباً پندرہ سولہ کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی یہی گھٹیا، دو نمبر، غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ خوراک کھا کر بیمار ہونے اور قطرہ قطرہ گُھٹ گُھٹ کر اذیت کے ساتھ مرنے پر مجبور ہیں۔ پتہ نہیں یہ سب دہشت گردی کہلاتا ہے کہ نہیں۔ پتہ نہیں اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہونا یا اس کی روک تھام نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ پتہ نہیں اس پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے یا نہیں؟ کسی کو خبر ہو تو مجھے ضرورمطلع کرے۔
سات ارب سے زیادہ کی اس دنیا میں بیس کروڑ نفوس پر مبنی قوم کے 80 فیصد لوگوں کی صحت کا جب یہ عالم ہو گا تو وہ اقوام عالم میں کیسے سروائیو کرے گی‘ اس کا اندازہ خود ہی لگا لیجئے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ دنیا میں اوسط عمر اسی سال سے بڑھ چکی ہے اور ہمارے ہاں صرف 65 سال کے لگ بھگ ہے۔ 65 سال کی عمر کا تجربے سے بھرپور انسان اگر معاشرے کو 15 سال اور دستیاب ہو تو معاشرے کی ترقی میں کتنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے یہ سمجھنے کے لیے بھی بقراط ہونے کی ضرورت نہیں۔ میرے آقاؐ سرکار دو عالم کی حدیث کا مفہوم یاد آتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ''ایک توانا مومن ایک کمزور مومن سے بہتر ہے‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے آقاؐ کی ہر حدیث کی طرح اس حدیث مبارکہ میں بھی بے پناہ گہرائی ہے اور کمزور اور توانا کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر ایک اینگل صحت کا بھی ہے اور جو یقینا انتہائی اہم ہے...
بقول شاعرِ بے بدل ...
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تن درستی ہزار نعمت ہے