موئن جو دڑو (مرجانے والوں کا ٹبہ) میں ہونے والے سندھ فیسٹیول کا کم از کم ایک فائدہ تو ہوگا کہ اس کے ذریعے بہت سے لوگ پانچ ہزار سال پرانی اس ثقافت اور تہذیب کے بارے میں جانکاری حاصل کر سکیں گے۔ تہذیب اور ثقافت صرف موسیقی، فنون لطیفہ اور شاعری تک محدود نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کے باسیوں کی عادات و اطوار، احساس، رویوں، باہمی رشتوں اور روز مرہ زندگی کے دوسرے بے شمار معاملات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔لیکن سب سے بڑھ کرکسی تہذیب کا ٹھوس اظہار فنِ تعمیر کے ذریعے ہوتا ہے۔فن تعمیر محض تعمیراتی ہنر کی ہی نہیں بلکہ معاشرے کی سماجی اقدار، پیداواری رشتوں اور معاشی نظام کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
اس قدیم شہر کی دریافت 1922ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ایک افسر رکھال داس بندیوپادے نے کی تھی۔ موئن جودڑو، ہڑپہ اور وادی سندھ کی تہذیب کے دوسرے آثارکی کھدائی اور تحقیق کے کام کا آغاز اسی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل سرجان ہربرٹ مارشل کی زیر نگرانی شروع ہوا تھا۔ وادی سندھ کی تہذیب اپنے عہد کے لحاظ سے انتہائی جدید تھی۔ موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ معاشی مساوات اور سماجی برابری پر مبنی معاشرے کی غمازی کرتے ہیں۔اشتراکیت پر مبنی ایسے قدیم معاشروں کو مارکسی سائنس اور تاریخی مادیت کی اصطلاح میں ''قدیم کمیونسٹ سماج‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی پر مبنی پکی اینٹوں سے تعمیرکیا گیا شہر تھا جس کے باسی اشتراکی طرز کی زندگی بسر کرتے تھے۔ شہر میں مرکزی بازار موجود تھا۔ اجناس کو ذخیرہ کرنے اور گرم پانی سے غسل کی مشترکہ سہولیات موجود تھیں۔پانی گرم کرنے کی زیر زمین بھٹی موجود تھی جبکہ پانی کے نکاس کا بھی باقاعدہ نظام موجود تھا۔کھنڈرات میں ایک اجتماعی درس گاہ کی باقیات بھی ملتی ہیں۔
مصر، یونان، روم اور چین وغیرہ کی قدیم تہذیبوں میں ملنے والے شاہی محلات، بادشاہوں کے مقابر اور بڑی بڑی ریاستی عمارات کے برعکس موئن جو دڑواور ہڑپہ کے آثار قدیمہ ایک غیر طبقاتی سماج کی عکاسی کرتے ہیں۔ سرجان مارشل اپنی کتاب ''موئن جو دڑو اور تہذیب ہند‘‘ (1931)میں لکھتے ہیں کہ ''اس کی (موئن جو دڑو)کی کچھ منفرد خصوصیات یہ ہیں کہ کپڑا بنانے کے لیے کپاس کا ستعمال اس عہد میں صرف ہندوستان کی اسی تہذیب تک محدود تھا۔ مغربی دنیا میں یہ عمل دو تین ہزار سال بعد شروع ہوا۔ اسی طرح ماضی بعید کے مصر، میسوپوٹینا یا مغربی ایشیا کی کسی تہذیب میں موئن جو دڑو کی طرح مشترکہ غسل خانے اور کشادہ و آرام دہ گھر نہیں ملتے۔ ان تہذیبوں میں دولت اور ہنر کو دیوتائوں کی عبادت گاہوں اور شہنشاہوں کے محلات اور مقبروں پر بے دریغ خرچ کیا جاتا تھا جبکہ عام لوگ مٹی کے گھٹیا گھروندوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ وادی سندھ میں کیفیت اس کے برعکس تھی۔وادی سندھ کے باسیوں کو زندگی کو سہل بنانے والے شاندار مکانات میسر تھے۔یہ تہذیب اچانک نمودار نہیں ہوئی تھی بلکہ انسان کی نسل در نسل محنت، ذہانت اور تاریخی ارتقا کا نتیجہ تھی‘‘۔گورڈن چلڈے 1943ء میں تحریر کی گئی اپنی کتاب What Happened in History(تاریخ میں کیا کیا ہوا؟)میں لکھتے ہیں کہ ''موئن جو دڑو اور ہڑپہ پر اب تک کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ان دونوں تہذیبوں کا کوئی ٹھوس ابتدائی مرحلہ نہیں ہے۔ ان دونوں خطوں کی تہذیب اپنے سے کہیں زیادہ پرانے ورثے کی غمازی کرتی ہے۔ ان کے پیچھے ہزاروں سال کی
انسانی محنت اور جدوجہد پوشیدہ ہے‘‘۔
آج اس تاریخی ورثے اور انسانی اشراکیت کی یادگار کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ تاریخی نوادرات اور آثار قدیمہ پر تحقیق کرنے والے ملکی و بین الاقوامی ماہرین اور دانشور موئن جودڑو کی باقیات کو نقصان پہنچنے اور آخرکار ختم ہوجانے کے امکانات پرشدید تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ برطانوی راج کے دور سے ہی قدیم تاریخ سے لگائو رکھنے والے حضرات موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ پر توجہ دینے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ جواہر لعل نہرو1944ء میں احمد نگر قلعے میں قید کے دوران تحریر کی گئی اپنی شہرہ آفاق کتاب Discovery of India(ہندوستان کی دریافت) میں لکھتے ہیں:''میں 1931ء اور 1936ء میں دو مرتبہ موئن جودڑو گیا۔ دوسری مرتبہ میں نے محسوس کیا کہ بارش اور ریتلی ہوا پہلے سے کھودی گئی عمارات کو مجروح اور خراب کرتی چلی جارہی ہے۔ پانچ ہزار سال سے مٹی کی چادر میں دب کر محفوظ رہنے والے یہ آثار اب مٹ رہے ہیں۔ تاریخ کی ان یادگاروں کو محفوظ کرنے کے لیے بہت ہی ناکافی کاوش کی جارہی ہے‘‘۔ پاکستان بننے کے بعد کے 67سال میں اس تاریخی ورثے کی حالت بہت نازک ہوچکی ہے ، حکمرانوں کو اپنی لوٹ مار سے فرصت نہیں ہے۔ سندھ کے باسیوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھنے والے حکمرانوں کو بھلا ان کے ورثے کی کیا قدر ہوگی؟
حکومت سندھ اپنے ثقافتی میلے کا پنڈال اگر ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور سجا لیتی توکوئی ہرج نہ تھا۔ اس سے کم ازکم موئن جودڑوکے آثار قدیمہ کی مزید بربادی کا امکان نہ رہتا۔''سندھ کی ثقافت‘‘ کے نام پر سجائے گئے اس میلے میں کیا یہ باورکروایا گیا ہے کہ موئن جو دڑوکے قدیم باسی بھوک سے نہیں مرتے تھے؟ کیا اس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ پانچ ہزار سال پہلے موئن جو دڑو میں نکاسی آب کا نظام آج کے سندھ کے اکثریتی شہروں سے بہتر تھا؟ کیا سندھ کے حکمرانوں نے دنیا کو یہ بتایا ہے کہ موئن جو دڑوکے باسی کسی دیوہیکل اوراستحصالی ریاست کے بغیر سماج کا نظام اشتراکی طور پر چلاتے تھے؟
جہاں بچے بھوک اورعلاج نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہوں، عوام محرومی اور غربت کا شکار ہوں، معاشرہ استحصال اور جبر کی چکی میں پس رہا ہو اور سماج پر بربریت کے سائے منڈلا رہے ہوں، وہاں ثقافت کے میلوں پرکروڑوں روپے خرچ کرنا انسانیت کی توہین کے مترادف ہے۔ بلاول بھٹو نے موئن جو دڑو سے اگرکوئی سبق سیکھنا ہے تو وہ یہ ہے کہ اگر انسان آج سے پانچ ہزار سال پہلے ایک غیر طبقاتی معاشرے میں اشتراکی زندگی گزار سکتا ہے تو آج اس سے کئی گنا خوشحال اورانسانی معاشرہ تعمیر ہوسکتا ہے۔ اگر موئن جو دڑو کا معاشرہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، فوجی اشرافیہ اور سویلین افسر شاہی کے بغیر چل سکتا ہے تو آج انہی بنیادوں پر ہزاروں گنا زیادہ ترقی یافتہ معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ آج ٹیکنالوجی اور پیداواری قوتیں اس مقام پر پہنچ چکی ہیں کہ چند برسوں میں معاشرے میں سے غربت اور قلت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ نجی ملکیت اور منافع کی رکاوٹوںکو راستے میں سے ہٹا دیا جائے۔
جس پیپلز پارٹی کی وجہ سے بلاول شہرت کے اس مقام پرکھڑے ہیں اس کی تاسیسی دستاویزات اور بنیادی پروگرام میں بھی ایسے ہی اشتراکی معاشرے کو نصب العین بنایا گیا ہے۔ پارٹی کی تاسیسی دستاویز میں واضح طور پر درج ہے کہ ''پارٹی کے قیام کا حتمی مقصد ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ہے جو صرف اور صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ غربت اور محرومی سے پاک ایسے ہی معاشرے کی جستجو میں پاکستان کے محنت کش عوام نے پیپلزپارٹی کو راتوں رات ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بنا دیا تھا۔ آج اس ملک کے عوام موئن جودڑو کے آثار قدیمہ سے بھی زیادہ بدحال اور لاوارث ہوچکے ہیں۔ سرمایہ داری نے ان کی زندگیوں کو عذاب مسلسل بنا دیا ہے ، غریب سسک رہے ہیں ، کروڑوں لوگ خوشحالی کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے 1968-69ء میں بڑے پیمانے پر سیاسی میدان میں داخل ہوکر پیپلز پارٹی کو جنم دیا تھا ، عوام اپنی اس سیاسی روایت سے ہمیشہ وفادار رہے ہیںلیکن قیادت کے انحراف اور موقع پرستیوں نے پیپلز پارٹی کے کردار اور شناخت کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔
کیا بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو بطور عوامی روایت دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے نانا کی طرح انقلابی سوشلزم کے پروگرام پرکھڑا ہونے کی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہیں؟نہ صرف پیپلز پارٹی کی بقا اسی میں ہے بلکہ عوام کی نجات کا راستہ بھی یہی ہے۔فیصلہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو کرنا ہے کہ کیا وہ انقلاب کے راستے پر عوام رہنمائی کر سکتی ہے؟ بصورت دیگر پاکستان کے محنت کش اور نوجوان مستقبل قریب کے انقلابی طوفانوں میں اپنی نئی قیادت اور سیاسی روایت خود تراش لیں گے!