تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-02-2014

سرخیاں اُن کی ‘ متن ہمارے

قوم بامعنی مذاکرات کی طرف 
دیکھ رہی ہے...صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''قوم بامعنی مذاکرات کی طرف دیکھ رہی ہے‘‘لیکن وہ اسے کہیں نظر نہیں آ رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قوم کی بینائی کمزور ہو گئی ہے یا ان کم بختوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے‘ ورنہ اس سے زیادہ بامعنی مذاکرات اور کیا ہو سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کی ٹیم نے مولانا سمیع الحق اور دیگران کو ملنے سے معذرت کر دی تاکہ کوئی جھگڑا وغیرہ نہ ہو جائے اور اس کی بناء پر علیحدہ مذاکرات نہ کرنا پڑیں‘ اگرچہ کچھ بیرونی قوتیں ان مذاکرات کو سبوتاژ کرناچاہتی ہیں لیکن ہم انہیں خاطر میں نہیں لا رہے؛ البتہ ذرا تاخیر سے کام ضرور لیا جا رہا ہے کیونکہ حکومت ویسے بھی جلد بازی میں یقین نہیں رکھتی اور جو اس سے بھی ظاہر ہے کہ مذاکرات کا فیصلہ کرنے پر ہی چھ سات مہینے لگا دیئے گئے ہیں کہ سہج پکے سو میٹھا ہو؛ چنانچہ اُمید ہے کہ سبوتاژ کرنے والی محترم قوتوں کو اس پر کافی اطمینان ہو گا بلکہ اس کے علاوہ بھی ایسے کاموں میں اُڑچن پڑتی ہی رہتی ہے۔ آپ نے اگلے روز ان خیالات کا اظہار سرکاری مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر عرفان صدیقی سے ملاقات کے دوران کیا۔
ہم مُلک کو خون خرابے سے 
بچانا چاہتے ہیں...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم ملک کو خون 
خرابے سے بچانا چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ بالآخر حکومت کو احساس ہو گیا ہے کہ خون خرابہ اچھی چیز نہیں اور ملک کو اس سے بچانا چاہیے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زود یا بدیر حکومت کو ایسی باتوں کا پتہ بھی چل جاتا ہے اور اس کے بعد احساس بھی ہونے لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مذاکرا ت میں سب کی رضا مندی شامل ہے‘‘ماسوائے مولانا فضل الرحمن کے‘ کیونکہ انہیں مولانا سمیع الحق کا کمیٹی کا کھڑپینچ بننا کچھ زیاد ہ پسند نہیں آیا‘ حالانکہ غصہ انہیں ہماری بجائے طالبان پر جھاڑنا چاہیے جنہوں نے ان پر اعتبار نہ کرتے ہوئے دوسرے مولانا کو ترجیح دی‘اور‘اوپر سے عمران خان کو بھی شامل کر لیا جو انہیں ویسے ہی زہر لگتے ہیں ‘ چنانچہ ان کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے دراصل ہمیں ہر بات بہت جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''گیند طالبان کے کورٹ میں ہے‘‘تاہم‘ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ فٹ بال ہے یا ٹینس بال‘ یعنی اسے ریکٹ مارنا ہے یا کِک۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شفافیت حکومت پنجاب کا 
طُرۂ امتیاز ہے...شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''شفافیت حکومت پنجاب کاطُرّۂ امتیاز ہے‘‘اور ‘اس شفافیت کی بدولت سب کچھ صاف نظر آ رہا ہے کہ دوسری طرف یعنی پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی پروا نہیں کی کیونکہ یہ بھی ہمارا طُرّۂ امتیاز ہے‘ بیشک کچھ شرپسند صحافی اُلٹے سیدھے انکشافات اس حوالے سے کرتے رہتے ہیں لیکن افسوس کہ انہیں معطل نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ''ہم نے کرپشن فری کلچر کو فروغ دیا ہے‘‘جس کے ثبوت میں محکمہ مال اور پولیس ہی کافی ہیں‘اگرچہ باقی شعبے بھی ان کی برابری کی بہت کوشش کر رہے ہیں‘لیکن ابھی تک انہیں اس میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے‘اور اگر یہ اسی طرح محنت سے کام لیتے رہے تو یہ بھی اُن کی طرح کرپشن فری ہو جائیں گے اور کرپشن میں فری ہینڈ کی سہولت سے مستفید ہو جائیں گے کیونکہ اللہ میاں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے جبکہ ہماری بھی محنت اور اس کے نتائج کی روشن مثال سب کے سامنے ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
سمجھ نہیں آ رہا کہ نثار ہمارے 
وزیر داخلہ ہیں یا طالبان کے...بلاول
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سمجھ نہیں آ رہا کہ نثار ہمارے وزیر داخلہ ہیں یا طالبان کے‘‘کیونکہ ان سے تو وزیر داخلہ رحمن ملک ہی اچھے تھے جو کسی اور کے نہیں‘کم از کم اپنی ذات اور اہل و عیال کے ساتھ ساتھ اپنے ملنے والوں کے وزیر تو تھے جنہیں تھوک کے حساب سے انہوں نے نیلے اور سرکاری پاسپورٹ بنا کر دے دیے تھے جن سے کچھ ایرے غیرے نتھو خیرے بھی مُستفید ہوئے کیونکہ ہماری پارٹی عوامی سیاست میں یقین رکھتی ہے اور پانچ سال تک عوام کی طبیعت صاف ہوتی رہی اور جس کی رہی سہی کسر موجودہ حکومت نکال رہی ہے جبکہ عوام کی طبیعت بہت جلد میلی ہو جاتی ہے جسے حکومت کو صاف بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ صفائی ویسے بھی نصف ایمان ہے اور اس طرح وہ پُورے نہ سہی‘آدھے ایمان سے تو سرفراز ہوتے ہی رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ''وہ قومی مفادمیں موصوف کی خدمات موجودہ حکومت کو پیش کر سکتے ہیں‘‘جبکہ جنرل مشرف کی دیکھا دیکھی قومی مفاد کی ہمیں بھی عادت پڑی ہوئی ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔آپ اگلے روز ٹویٹر پر حسبِ معمول ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
99ء کے اقدام پر مشرف کے خلاف 
کیس اتنا متنازع نہ ہوتا...گیلانی
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''99ء کے اقدام پر مشرف کے خلاف کیس اتنا متنازع نہ ہوتا‘‘جیسا کہ میراا پنا کیس متنازع ہو گیا تھا اور نیب نے اس میں سے میرا نام نکال لیا تھا اور یہ بات اخبارات میں بھی آ گئی تھی لیکن آزادی اظہار کا انکار کرتے ہوئے پھر میرا نام اس میں ڈال کر یہ ریفرنس عدالت میں داخل کر دیا گیا ہے۔اور یہ محض انتقامی کارروائی ہے کیونکہ میں نے اس کے آگے پیش ہو کر بیان دینے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ یہ انکار ہی تھا جس کی وجہ سے سابق چیف جسٹس کو اتنی شہرت ملی اور پھر اس نے بحال ہو کر میرے ہی ٹھوٹھے پر ڈانگ مار دی۔انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف سے کہا تھا کہ علی بابا نیک آدمی ہے‘ اُسے بدنام کرنا چھوڑ دیں‘‘ اگرچہ وہ میرے اور اشرف پرویز جتنے نیک تو نہیں تھے لیکن اس کا الٹا ہی اثر ہُوا اور اب ان کے خلاف وہ مقدمات بھی پھر سے کھولے جا رہے ہیں جن میں وہ بری ہو چکے تھے‘ اور ‘ان کی نیکی بھی اُن کے کام نہ آئی بلکہ یہی کچھ میرے اور میرے کئی ساتھیوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ سچ کہتے ہیں کہ نیکی کا تو کوئی جہان ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
(گزشتہ روز کالم کے عنوان میں ماہنامہ ''بیاض‘‘ کی جگہ ''فیاض‘‘ اور مطلع میں لفظ ''سرگراں‘‘ کی بجائے ''سرگرداں‘‘ چھپ گیا۔ قارئین تصحیح فرمالیں! )
آج کا مقطع
ظفر‘ یہ دشتِ سُخن کی مسافری ہے عجب
میں کارواں میں ہوں اور کارواں کے ساتھ نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved