تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-02-2014

نفاذِ اسلام فقط آرزو کی بات نہیں

آخر کار اس نے یونیورسٹی کینٹین میں ہمیں ڈھونڈ ہی نکالا۔پھر کچھ دیر وہ بغور ہمیں دیکھتا رہا۔ جینز کی جگہ شلوار قمیض ، سر پہ ٹوپی اور چھوٹی چھوٹی داڑھیاں ۔ حذیفہ کی صرف ٹھوڑی پربال تھے اور اس نے انہی کو آخری حد تک بڑھا لیا تھا۔سر پہ سپائیکس (Spikes)کی بجائے ،ایک طرف سے نکلی ہوئی مانگ۔ آخر بڑی ہمدردی کے ساتھ اس نے یہ کہا ''اور سنائو، برقعے کب سلوا رہے ہو؟‘‘ اور پھر ہنس ہنس کر دہرا ہو گیا۔ 
ہم پانچ دوستوں میں سے وہ بالکل مختلف تھا۔2002ء کے الیکشن میں پہلی بار ہم نے حقِ رائے دہی استعمال کرنا تھا۔ ملک کی بڑی مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلسِ عمل تشکیل دی تو ہم سب جذبات کی رو میں بہہ گئے ۔ جہاں تک اس کا تعلق تھا، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر وہ کچھ گنتا رہا ۔ پھر یہ بتایا کہ ملّائوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اب بہت سی مرغیاں حرام ہوں گی ۔ وہی ہوا ۔ بدنامِ زمانہ سترھویں ترمیم میں جب مولانا حضرات مشرف کو لا محدود اختیارات سونپتے ہوئے پائے گئے تو یہ اس کا بڑا پن تھا کہ ڈینگیں مارنے کی اس نے کوئی کوشش نہ کی۔ 2008ء کا الیکشن آیا۔ صا ف ظاہر تھا کہ شریف برادران کو ملک واپسی کی اجازت نہ دے کر نون لیگ کے ساتھ زیادتی کی جارہی تھی۔ پرویز مشرف سے ہاتھ ملالینے کے باعث محترمہ بے نظیر بھٹو کے آخری جلسوں میں عوام کی تعداد کم رہ گئی تھی لیکن پھر وہ قتل کر دی گئیں ۔ ہمارے 
گروپ میں سے دو استعمار مخالفت کے باعث نون لیگ کے حمایتی ہو گئے اور مظلومیت کی موت کی وجہ سے دو نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے صرف یہ پوچھا کہ کیا آصف علی زرداری صاحب کے ماضی سے تم لوگ واقف ہواور کیا نون لیگ کے دو گزشتہ ادوار کا کچھ جائزہ لیا؟ ہم چپ رہے ۔
پھر وہ ہمیں تحریکِ انصاف کی طرف مائل کرنے لگا۔ عمران خان کی شخصیت کے ہم بھی گرویدہ تھے لیکن اعتراض صرف یہ تھا کہ وہ کبھی الیکشن جیت کر ملک گیرحکومت نہ بنا سکیں گے ۔پھر 30اکتوبر 2011ء کا جلسہ ہوا اور مخلوق خان صاحب کے گرد جمع ہو گئی ۔ حیرتوں کی حیرت، 11مئی کے الیکشن سے صرف دو ہفتے قبل اس نے کہا : عمران خان غلطیوں پر غلطیاں کر رہے ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ٹکٹ غلط تقسیم کیے گئے ہیں اور میں تو اب اس پارٹی سے لا تعلق ہوں ۔ تحریکِ انصاف الیکشن ہار گئی ۔ 
اب ہم کچھ کچھ اس کے قائل ہوتے جا رہے تھے ۔پھر ایک دن جب ہم مرکزی حکومت کی برائیاں بیان کرتے ہوئے پختون خوا کی صوبائی حکومت کی کامیابیاں گن رہے تھے ، بگڑ کر اس نے یہ کہا: نون لیگ کی مدح سرائی کون کرتاہے لیکن خان صاحب تحریکِ طالبان کی ویسی مذمّت کیوں نہیں کرتے ، جیسی انہوں نے لشکرِ جھنگوی کی فرمائی تھی ؟ کب وہ ہوش کے ناخن لیں گے ؟ اس روز ہم بھی غصے میں آگئے اور یہ کہا کہ عمران خان اگر مذاکرات چاہتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟جو جنگ ہم دس برس میں نہیں جیت سکے، اب اس میں کیونکر فتح حاصل ہوگی۔ اس نے کہا کہ صرف سوات اور وزیرستان دو ایسے علاقے ہیں ، جہاں دہشت گردوں نے اپنی حکومت قائم کرڈالی تھی ۔ جب فوجی جوان وہاں گئے تو انہوں نے دہشت گردوں سے کہا کہ یہ علاقہ مملکتِ خدادا د میں شامل ہے اور چند دن میں انہیں ہلاک کر ڈالا۔ اب قبائلی علاقوں میں بھی ملک کے دوسرے حصوں کی طرح وہ چھپ چھپا کے آتے اور حملہ کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ اب صرف شمالی وزیرستان ہی باقی ہے اور کوئی جنگ ہم نے دس برس نہیں لڑی۔ یہ سنی سنائی باتیں مجھے نہ بتایا کرو۔ 
جب طالبان نے عمران خان سمیت، پانچ افراد کو اپنی طرف سے مذاکرات کے لیے نامزد کیا تو ہم بہت خوش تھے ۔ اس لیے بھی کہ شاید موقعے سے فائدہ اٹھا کر ملک میں واقعی نفاذِ شریعت ہو سکے ، جو کہ تحریکِ طالبان کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ اس نے ہمیں یہ کہا : مولانا سمیع الحق کو جب امریکہ نے افغان طالبان سے مذاکرات میں مدد کا کہا تو تعاون کے لیے ان کی ابتدائی شرائط یہ تھیں : پہلے امریکہ فوری طور پر افغانستان سے نکل جائے، وہاں فوجی اڈے ختم کرے ، کرزئی حکومت کی حمایت ترک اور ڈرون حملے روک دے ۔ امریکہ اس پر کانوں کو ہاتھ لگا کے بھاگ گیا ۔ خود کو بڑے فخر سے وہ بابائے طالبان کہلواتے ہیں ؛حالانکہ اپنے شاگردوںکی حالتِ زار دیکھتے ہوئے یہ بات انہیں چھپانی چاہیے۔ جہاں تک جامعہ حفصہ والے مولانا عبد العزیز کا تعلق ہے، مشرف دور میں انہوں نے ڈنڈا ہاتھ میں اٹھایا اور جو کوئی ان کے خیال میں غلط تھا، اس پہ پل پڑے۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک عوامی لائبریری پر قبضہ کیا اور سینکڑوں طلبہ و طالبات کے ساتھ ، مسلّح افراد کے ساتھ اپنے مدرسے میں بند ہو کر بیٹھ گئے۔ اس پر فوجی آپریشن ہوا ، بہت سے معصوم کم عمر طلبہ جاں بحق ہو گئے۔ اس میں جتنا قصور پرویز مشرف کا تھا، اتنا ہی مولانا کااوروہ اپنے خیال میں اسلام نافذ فرما رہے تھے ۔ خود انہوں نے برقع اوڑھ کر جامعہ حفصہ سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پکڑے گئے۔ اگر عمران خان کا نام ایسے لوگوں کی کمیٹی میں شامل ہے تو یہ افسوس کا مقام ہے ۔ جہاں تک اسلامی نظام نافذ کرنے کی بات ہے تو تحریکِ طالبان ملّا عمر کو اپنا سپریم کمانڈر کہتی ہے ۔ ان کے دور میں افغانستان میں جس قسم کا اسلام نافذ ہوا تھا، وہ تم میں سے کوئی بھی نہیں سہہ سکتا۔وہاں داڑھی برقعے کی پابندی نہ کرنے والوں پر کوڑے برستے تھے ۔صرف شلوار قمیض اور پائنچے ٹخنوں سے اوپر۔ کمپیوٹر ایک طرف، ٹی وی بھی توڑ دئیے جائیں گے ۔ جہاں تک ملّا فضل اللہ کی شریعت ہے تو ان کے سوات میں لڑکیوں کے سکول اڑا دئیے گئے تھے اور سودختم کرنے کی بجائے، انہوں نے بینک ہی بند کر ڈالے تھے۔ کیا تم اپنی بہن ، بچیوں کو ان پڑھ دیکھ سکو گے ؟ کیا یہ سب گوارا کر سکو گے ؟ 
اس کی ساری باتیں ہم نے سنی ان سنی کر دیں ۔ پھر ہوا یہ کہ ایک رات یونیورسٹی کے طول و عرض میں دھمکی آمیز خطوط پھینک دئیے گئے ۔ یہ کہ غیر اسلامی حلیہ رکھنے والوں کو مزہ چکھا دیا جائے گا۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ ''غیر اسلامی حلیے‘‘ سے مراد کیا تھی لیکن کچھ دن بند رہنے کے بعد جامعہ کھلی تو ہم سب شلوار قمیض پہنے اور داڑھیاں رکھے ہوئے، اس سے منہ چھپائے پھر رہے تھے کہ کینٹین میں اس نے ہمیں ڈھونڈ نکالا۔ 
اب ہم شرمندہ بیٹھے ہیں اور وہ ہماری اس حالتِ زار پر قہقہہ زن ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved