تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-02-2014

وقت اور تجربے سے کچھ نہ سیکھا

میاں نوازشریف ایک مستقل مزاج نابغہ ہیں۔ ان کے ایک ممدوح کا کہنا ہے کہ وہ ارادے کے پکے اور وعدے کے پورے ہیں۔ جو ارادہ کریں اس پر عمل کرتے ہیں۔ جو وعدہ کریں پورا کرتے ہیں۔ کوئی ڈر یا خوف انہیں اپنے ارادے سے نہیں ہٹا سکتا۔ مستقل مزاجی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو انہیں حالیہ سیاست میں دوسرے سیاستدانوں اور اپنے حریفوں پر برتری دلواتی ہے۔ کل وہی ممدوح ملا تو عمران خان پر تبرا کرنے لگ گیا۔ کہنے لگا کہ بہادر اور نڈر خان روز طالبان سے مذاکرات کی بات کرتا تھا۔ ڈرون حملے بند کرنے کے نعرے لگاتا تھا۔ طالبان کی محبت میں اڑھائی مہینے سے دھرنا دیے بیٹھا۔ ہمہ وقت آپریشن کی مخالفت کی باتیں کرتا تھا ‘اب مذاکرات کا وقت آیا ہے تو انکاری ہو گیا ہے۔ خود ضامن یا مذاکرات کار بننے کی باری آئی ہے تو خان نے صاف انکار کردیا ہے۔ کپتان کا سٹینڈ کہاں گیا؟ کپتان اپنے موقف سے کیوں پیچھے ہٹ گیا؟ دوسری طرف میاں نوازشریف ہیں کہ مذاکرات کی بات کرتے تھے۔ تمام تر مشکلات اور سازشوں کے باوجود بالآخر وہ طالبان کو مذاکرات پر لے ہی آئے ہیں۔ امریکی مخالفت اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے سیلاب میں انہوں نے اپنا راستہ بنایا اور اپنے پختہ ارادے کے زور پر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آنے میں کامیاب ہو گئے۔ میاں نوازشریف ایک مستقل مزاج شخص ہیں۔ 
میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ عمران خان کا ایک حامی جوابی کارروائی پر آ گیا۔ میں رضاکارانہ طور پر درمیان سے ہٹ گیا۔ میاں نوازشریف کی مدح سرائی کے بعد جوابی کارروائی کے لیے تحریک انصاف کے کارکن اور عمران خان کے دیوانے کا حق فائق تھا۔ میرٹ پر بھی یہی بنتا تھا کہ پہلا حقِ جوابدہی تحریک انصاف کے دیوانے کو دیا جائے۔ وہ چھوٹتے ہی کہنے لگا۔ عجب مستقل مزاج ہیں کہ تین دن پہلے میر علی پر جے ایف تھنڈر سے بمباری کروا رہے ہیں اور تین دن بعد مذاکرات کی پیشکش پر کمیٹی بنا دیتے ہیں۔ اس سے پہلے مذاکرات کا ڈھول پیٹتے رہ گئے مگر عملی طور پر رتی برابر کچھ نہ کیا۔ مذاکرات کا شور مچاتے رہے مگر مذاکرات کے لیے نہ تو کوئی رابطہ کار مقرر کیا اور نہ ہی کسی کو باقاعدہ پیغام بھجوایا۔ چودھری نثار علی سے کئی لوگوں نے سوال کیا کہ وہ بتائیں کہ کون پیغام لے کر گیا تھا اور کس کو پیغام دیا گیا تھا۔ کون لوگ تھے جو ان مذاکرات کے لیے نامزد کیے گئے اور کن کے ذریعے بات آگے بڑھائی گئی؟ چودھری صاحب ایک بھی نام نہیں بتا سکے۔ کوئی ہوتا تو بتاتے۔ پچھلے آٹھ مہینے سے گومگو کا عالم ہے۔ اے پی سی بلوائی۔ فیصلے کیے اور ڈیپ فریزر میں رکھ دیے۔ کئی بار کابینہ وغیرہ میں معاملہ رکھا اور نہ فیصلہ کیا اور نہ کوئی عملی قدم اٹھایا۔ نہ آپریشن کیا نہ مذاکرات کیے۔ خودکش حملے بڑھ گئے تو زبانی دعوے کردیے اور کچھ نہ بن پایا تو مذاکرات کا نعرہ مار دیا۔ عملی طور پر صفر جمع صفر والا معاملہ رہا۔ رہ گئے عمران خان‘ تو وہ مذاکرات کے حامی ہیں۔ آج سے نہیں شروع سے۔ الیکشن سے کہیں پہلے کے۔ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ رستم شاہ مہمند جو حکومتی ٹیم کا رکن ہے تحریکِ انصاف کا آدمی ہے۔ ہم حکومتی مذاکراتی ٹیم میں شامل ہیں۔ ہمیں مذاکرات سے علیحدہ رہنے کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا۔ ہم اس حکومتی کاوش میں پوری طرح ان کے معاون و مددگار ہیں۔ دعا گو بھی ہیں اور عملی طور پر شریکِ کار بھی۔ لیکن عمران خان کا موقف اصولی ہے۔ وہ اپنے موقف کا دعویدار ہے نہ کہ طالبان کا نمائندہ۔ بھلا وہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا رکن کیسے بن سکتا ہے؟ وہ طالبان کی نمائندگی نہیں کرتا۔ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک روڈ میپ دیتا ہے اور وہ مذاکرات ہیں۔ وہ مذاکرت کا حامی ہے لیکن یہ کہنا کہ وہ طالبان کی طرف سے نمائندگی کرے ایک احمقانہ مطالبہ ہے۔ طالبان کو اپنی نمائندگی کے لیے اپنے آدمی دینے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ کمیٹی در کمیٹی معاملہ چلایا جائے۔ حکومتی کمیٹی جو عرفان صدیقی‘ میجر عامر‘ رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند پر مشتمل ہے ایک طالبان کمیٹی سے مذاکرات کر لے جو پھر طالبان کے علاوہ لوگ ہیں۔ عمران خان‘ مولانا سمیع الحق‘ پروفیسر ابراہیم‘ کفایت اللہ اور مولانا عبدالعزیز یہ کل پانچ لوگوں کی کمیٹی تھی۔ عمران خان کے انکار کے بعد اب چار لوگ بچ گئے ہیں۔ ان چاروں میں سے ایک مفتی کفایت اللہ کو مولانا فضل الرحمن نے جماعتی ڈسپلن کے نام پر روک دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو جرگہ بلا کر بزعم خود اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے تگڑے فریق بنے پھرتے تھے طالبان کی طرف سے مکمل نظرانداز کردیے جانے پر شدید غم و غصے کا شکار ہیں۔ اس حد تک مشتعل ہیں کہ انہوں نے اس مذاکراتی ٹیم میں اپنا نمائندہ بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔ وہ اس معاملے میں خود دولہا بننے کی امید لگائے بیٹھے تھے اور اس آس کے ٹوٹنے پر شدید ناراض ہیں۔ 
باقی رہ گئے تین لوگ۔ پروفیسر ابراہیم جماعت اسلامی‘ مولانا سمیع الحق اپنی جمعیت علمائے اسلام اور مولانا عبدالعزیز لال مسجد سے متعلق ہیں۔ اب یہ تین افراد حکومتی ٹیم سے بات 
کریں گے اور پھر طالبان سے بات کریں گے۔ یعنی یہ ٹیم طالبان کی مذاکراتی ٹیم نہیں بلکہ پیغام رساں ٹیم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ ڈاکخانے کے فرائض سرانجام دیں گے۔ طالبان نے سیاسی طور پر بڑی سمجھداری والی چال چلی ہے مگر ابھی تک براہ راست رابطے کا راستہ نہیں نکالا۔ اچانک ہی وہ کہنے لگا کہ میں کس بحث میں پڑ گیا ہوں۔ بات کوئی اور تھی اور میں کہیں اور چلا گیا ہوں۔ بات میاں صاحب کی مستقل مزاجی کی ہو رہی تھی اور میں طالبان مذاکرات ایشو میں پھنس گیا ہوں۔ پھر میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ آپ کچھ کہنے لگے تھے۔ میں نے کہا میں میاں نوازشریف صاحب کے ممدوح کی بات سے متفق ہوں۔ میاں صاحب ایک مستقل مزاج شخص ہیں۔ کوئی ڈر‘ خوف بھی انہیں اپنے ارادے اور عادات سے نہیں ہٹا سکتا۔ ڈر‘ خوف تو چھوٹی چیز ہیں انہیں وقت اور تجربہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ ان کی مستقل مزاجی پر عش عش کرنے کو دل کرتا ہے۔ دوبار حکومت گئی۔ ایک بار جلا وطن ہوئے۔ دیارِ غیر میں ملیں لگانے اور جائیدادیں بنانے میں ''دھکے‘‘ کھائے۔ لیکن مجال ہے جو طبیعت میں لچک پیدا ہوئی ہو۔ مجال ہے جو انہوں نے تجربات سے کچھ سیکھا ہو۔ مجال ہے جو انہوں نے ماضی کی غلطیاں دہرانے میں کوئی تامل کیا ہو اور مجال ہے کہ انہوں نے اپنی عادات رتی برابر تبدیل کی ہوں۔ 
وہی چار چھ لوگوں کی کچن کیبنٹ۔ وہی طبیعت کی بادشاہی۔ وہی مغلیہ شہنشاہوں جیسی عادات۔ وہی گردن کا سریا اور وہی تکبر۔ نتیجتاً وہی آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی سیاسی تنہائی۔ صرف اور صرف پنجاب بلکہ اپر پنجاب کے لوگوں کی بالادستی۔ پاکستان کی نمائندگی کے بجائے پنجاب کے مورچے میں مورچہ زنی۔ دوستوں اور مخلصوں سے وہی پرانا رویہ۔ اسی رویے پر میں نے تہمینہ دولتانہ سے دس روپے کی شرط لگائی تھی اور وہ خود مانی تھیں کہ وہ یہ شرط ہار گئی ہیں۔ تب میاں نوازشریف جدے میں تھے تب تہمینہ دولتانہ نے مجھ سے کہا کہ میاں صاحب بڑے بدل گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو بالکل ویسے ہی ہوں گے جیسے یہاں سے جاتے وقت تھے۔ عقل کل‘ جمہوریت کے نام لیوا لیکن جمہوریت سے کوسوں دور اور خاندانی حکومت کے داعی‘ خود وزیراعظم ہیں۔ بھائی بظاہر وزیراعلیٰ ہیں لیکن حقیقتاً وزیر خارجہ بھی ہیں اور وزیر منصوبہ بندی بھی۔ پنجاب میں عملاً حمزہ شہباز ہیں اور پاکستان بھر کے نوجوانوں کی قرضہ سکیم کی مالک و مختار مریم نوازشریف ہیں۔ رہی سہی کسر سمدھی صاحب نے نکال دی ہے اور بچا کھچا مال کشمیریوں کے حوالے ہے۔ تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ عمومی طور پر اور دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ خاص طور پر تقریباً اچھوتوں جیسے سلوک کا شکار ہیں۔ انہیں سوائے پنجاب کے کچھ نظر نہیں آ رہا اور سوائے چین اور ترکی کے اور کوئی ملک دکھائی نہیں دے رہا۔ چین‘ ترکی‘ پنجاب اور میاں شہبازشریف۔ پاکستان کی ترقی کا سارا راز انہی چار الفاظ میں چھپا ہوا ہے۔ غوث علی شاہ‘ ممتاز بھٹو اور اب لیاقت جتوئی۔ سندھ سے ان کے سارے ساتھی یا انہیں چھوڑ چکے ہیں یا دور جا چکے ہیں۔ ممتاز بھٹو کا بیٹا امیر بخش بھٹو مشیر کے عہدے سے مستعفی ہو چکا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا۔ وقت اور تجربے سے انہوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میاں نواز شریف نے وقت اور تجربے سے کچھ نہ سیکھ کر ایک مثال قائم کی ہے۔ممکن ہے کسی کے پاس اس سے بہتر مثال موجود ہو مگر اس عاجز کا بہرحال یہی خیال ہے۔ واللہ اعلم بالصواب! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved