آنے والے پانچ چھ ہفتوں کے دوران‘ مذاکرات کی خبریں نمایاںرہیں گی۔اس دوران طالبان ‘ حکومتی حوصلوں اور ارادوں کو کافی حد تک جانچ چکے ہوں گے۔ جو مذاکراتی ٹیمیں بنائی گئی ہیں‘ ان کی ساخت قابل غور ہے۔ طالبان کا اصل مسئلہ نفاذ شریعت ہے‘ جس کے ذریعے وہ ریاست پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کا منتر آئین ہے۔ اس طرح وہ اقتدار پر اپنا قبضہ مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاریخ میں جب بھی ایسے مواقع آئے‘ مذاکرات کی میز‘ فریقین کے لئے ایک دوسرے کی نبض دیکھنے کا موقع تو ضرور فراہم کرتی رہی لیکن حتمی فیصلہ وہیں ہوا‘ جہاں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ میدان جنگ۔ باہمی رابطے‘ مذاکرات‘ تبادلہ شرائط ‘ سیاسی تکلفات‘ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہوتے ہیں۔ اگر مقابلے سے قبل زیادہ وقت لینا دونوں فریقوں کے مفاد میں ہو‘ تواس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جب ایک فریق اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ اسے مزید وقت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہی‘ تومذاکرات کا شوکیس بند کر دیا جاتا ہے۔ جیسے قطر میں ہوا۔ شوکیس تیار کر لیا گیا لیکن فریقین میں کسی کو بھی مہلت حاصل کرنے کی ضرورت نہ رہی‘ تو دونوں کی رضامندی سے شوکیس بند کر دیا گیا۔ امریکہ فوجیں نکالنے کا شیڈول دے چکا ہے۔ طالبان بیرونی افواج کی واپسی کے بعد کی صورتحال میں برتری حاصل کرنے کی تیاریاں کر چکے ہیں۔ دونوں ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مذاکرات کر نے سے لین دین میں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ بیکار وقت ضائع کرنے کا فائدہ؟
اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کو دونوں فریق‘ اپنے اپنے حق میں استعمال کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے‘ جب دونوں فریق یہ سمجھتے ہوں کہ مذاکرات شروع کر کے‘ ان کے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ پہلا رائونڈ وفود کی تشکیل اور بات چیت کے پہلے دور کی صورت میں ہو چکا ہے اور اس کا لیکھا جوکھا‘ کچھ اس طرح کا بنتا ہے۔ طالبان نے اپنی خواہش کے عین مطابق حکومتی ارادے اور حوصلے جانچنے کے لئے اپنے ہمدردوں اور حامیوں کی خدمات استعمال کیں۔ ان کی لیڈر شپ یا لیڈرشپ کانامزد کیا ہواکوئی نمائندہ ‘ طالبان کے وفد میں شامل نہیں۔یعنی طالبان کا وفد‘ طالبان کے بغیر۔ یہ وفد اپنی رپورٹنگ کس کو پیش کر کے‘ ہدایات حاصل کیا کرے گا؟اس کے لئے کوئی لیڈر نامزد نہیںکیا گیا۔ نہ ہی یہ بتایا گیا کہ کمیٹی اپنی کارروائی کی رپورٹیں کس کو پیش کر کے‘ ہدایات لیا کرے گی؟یہ ذمہ داری طالبان نے‘ اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ چاہیں گے‘ تو نو دس افراد پر مشتمل بنائی گئی سپر کمیٹی میں سے کوئی ایک رکن یا دو تین ممبروں کی سب کمیٹی مذاکرات کی نگرانی کرے گی۔ ہو سکتا ہے‘ اس کمیٹی میں بھی طالبان کی تنظیم کا کوئی اعلیٰ عہدیدار شامل نہ کیا جائے۔ پاکستانی وفد باقاعدہ حکومت کا نامزد کردہ ہے۔ چاروں اراکین کا انتخاب ملک کے چیف ایگزیکٹو نے خود کیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ مذاکرات کے معاملات کی نگرانی وہ خود کریں گے اور کمیٹی کے سربراہ کو یہ سہولت حاصل ہو گی کہ وہ جب چاہے‘ رپورٹ پیش کر کے ہدایات لے سکتا ہے۔ صورتحال کافی دلچسپ ہے۔ جس فریق کے پاس ریاست کی جائز اور آئینی حکومت ہے۔ ریاستی امور چلانے کے لئے پوری مشینری موجود ہے اور نظم و نسق برقرار رکھنے کی مسلح طاقت بھی دستیاب ہے‘ اس نے مذاکرات کی پوری ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اپنے وفد کو سرکاری حیثیت دی ہے۔ جبکہ دوسرے فریق نے ہر سطح اور مرحلے پر اپنا دامن بچا کر رکھا ہے۔میڈیا کی زبان میںایک وفد کی باتیں آف دی ریکارڈ ہوں گی اور دوسرے کی آن دی ریکارڈ۔
جہادیوں یاطالبان کے ساتھ حالیہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے‘ پانچ سمجھوتے ہو چکے ہیں‘ جو سارے کے سارے ناکام رہے۔ اس مرتبہ مذاکرات کی نوعیت مختلف ہے۔ پرانے سمجھوتوں میں مقامی اتھارٹی‘ محدود علاقے کے اندر ‘ مقامی سطح کے انتظامی سمجھوتے کرتی رہی ہے۔ اس بار ایسی کوئی پابندی نہیں۔ دونوں ٹیمیں پورے ملک کے معاملات زیربحث لا سکتی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کی نمائندہ ٹیم کا اختیار محدود نہیں رکھا گیا۔ شورش زدہ علاقوں کی جو تخصیص مذاکراتی ٹیموں نے رکھی ہے‘ ان کی حدود نہیں بتائی گئیں اور حقیقت میں ایسا ہے بھی نہیں۔ دہشت گردی سے پاکستان کا کوئی حصہ محفوظ نہیں۔ گلگت سے کراچی اور کوئٹہ سے لاہور تک‘ پاکستان کا ہر شہر اور ہر علاقہ دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ہماری تمام ایجنسیوں اور فورسز کو پورے ملک میں مستعد رہنا پڑتا ہے۔ مذاکراتی وفود کسی بھی ایک علاقے کو شورش زدہ قرار دے کر‘ اس کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔ جس فائربندی کی باتیں ہو رہی ہیں‘ اس کا نفاذکہاں کیا جائے گا؟ یہاں تو کیا شہر؟ کیا دیہات؟ اور کیا چھوٹے چھوٹے گائوں؟ہر جگہ دہشت گردی ہو رہی ہے۔ مذاکرات کی بات چلتے ہی میں نے شروع میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ طالبان‘ دہشت گردی کو مکمل روکنے کی ذمہ داری نہیں لیں گے۔ وہ اپنے ساتھیوں میں سے دو چار گروپوں کو ذمہ داری اٹھانے کے لئے آزاد چھوڑ دیں گے۔ اس طرح وہ مذاکرات بھی جاری رکھیں گے۔ میدان جنگ میں حملے بھی کرتے رہیں گے۔ مجھے زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ادھر مذاکرات کا اعلان ہوا اور ادھر طالبان کی طرف سے دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور میرے اندازے کے عین مطابق طالبان کی قیادت نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اس موقف کو تسلیم کر لیا ہے۔ یعنی میں نے ٹاک ٹاک۔ فائٹ فائٹ کے جس طریقہ کار کی بات کی تھی‘ اسی پر عمل شروع ہو گیا۔ یہ امید رکھنا خام خیالی ہو گی کہ مذاکرات کے دوران عوام کو امن اور تحفظ حاصل رہے گا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے انتہائی اہم سوال اٹھایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ابتدا میں فاٹا کے کچھ علاقوں کو شورش زدہ قرار دے کر‘ محدود فائربندی کر دی گئی اور کراچی‘ کوئٹہ ‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ پشاور اور لاہور میں دہشت گردی ہوتی رہی‘ تواس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے گا؟ کل یہ علاقے بھی شورش زدہ قرار پائیں گے۔ کیا پورے پاکستان میں فائربندی ہو گی؟ اور دہشت گردوں کے ایسے گروہ‘ جن کی ذمہ داری طالبان اٹھانے سے انکار کریں گے اور وہ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں‘ توفائربندی کی صورتحال کیا رہے گی؟ طالبان کو سمجھوتے کے تحت تحفظ حاصل ہو گا اور وہ خود پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے والوں کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔ جوابی کارروائی کہاں کی جائے گی؟ اب آتے ہیں مہلت کی طرف کہ مذاکرات پر ‘ وقت صرف کر کے کون‘ کتنی مہلت حاصل کر رہا ہے اور کس مقصد سے؟ جہاں تک موسم کا معاملہ ہے‘ دونوں فریق ہی کسی نہ کسی حد تک مارچ کا مہینہ گزارنا چاہتے ہیں۔ موسم کی ناسازگاری دونوں کے لئے ہی مشکلات کا باعث ہے۔ یہ کہناغلط ہے کہ موسم سرما کے دوران پاک فوج کے لئے کارروائی مشکل اور طالبان کے لئے آسان ہے۔ دونوں ہی ہر طرح کے موسمی حالات میں اپنی اپنی طرز کی جنگ لڑنے کے اہل ہیں۔ مگر افغانستان کے حالات میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے‘ وہ طالبان کے حق میں جائے گی اور اس حوالے سے ‘ ان کے لئے بہتر موسم اور تبدیل شدہ صورتحال‘ پانچ چھ مہینے کے بعد زیادہ بہتر ہو جائے گی۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے آخری مراحل شروع ہو جائیں گے۔ افغانستان میں جو برائے نام نظم و نسق موجود ہے‘ اس کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جائے گی۔ پاکستان پر مزید افغان مہاجرین کی یلغاریں ہوں گی۔ افغان طالبان‘ اپنے ملک میں فاتحانہ کنٹرول قائم کرنے لگیں گے اور یہاں سے جو طالبان‘ غیر ملکی فوجوں پر حملے کرنے جاتے ہیں‘ انہیں اپنی سرگرمیوں کا رخ پاکستان کی طرف کرنے کے مواقع مل جائیں گے۔ دو ملکوں میں تقسیم‘ جنگجوئوں کو پاکستان میں یکجا ہو کر‘ یہاں مزید دبائو بڑھانے کی طاقت دستیاب ہو جائے گی۔ طالبان کی ہمدرد مذہبی تنظیمیں‘ پاکستانی قوم میں مختلف حوالوں سے تقسیم در تقسیم کا عمل تیز کرتے ہوئے‘ ہماری اجتماعی قوت مزاحمت کو مجروح کرتی رہیں گی۔ یہ ہے وہ نقشہ‘ جو مذاکراتی عمل کو طول دینے کی صورت میں ابھرے گا۔ فیصلہ آپ خود کر لیں کہ وقت سے فائدہ اٹھانا کس کے لئے آسان ہو گا؟ اور کس کے لئے مشکل؟