آئین کی بالادستی ایک ایسا نعرہ ہے جسے جدید ریاست کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ پوری دنیا کے عوام کے دلوں میں یہ تصور مضبوط کر دیا گیا ہے کہ کوئی ریاست آئین کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو مقدس ترین ہے، اس سے انکار بغاوت ہے اور باغی کی سزا موت ہے۔ اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے سیاست کے طالب علموں کو اس وقت ایک عجیب و غریب دلیل دی جاتی ہے جب وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ دنیا کی قدیم ترین جمہوری ریاست برطانیہ کا تو سرے سے کوئی آئین ہی نہیں ہے۔ اس کے جواب کے لیے ان آئینی ماہرین نے ایک کمال کی اصطلاح ایجادکی ہے۔۔۔غیر تحریری آئین (Unwritten Constitution) اس اصطلاح کے فریب کی داد دینی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کی روایات ایک آئین کا درجہ رکھتی ہیں‘ اس لیے وہاں تحریری آئین کی کوئی ضرورت نہیں، ان کے عوام اپنی روایات کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ایک عالمی طاقت اور صرف سو سال پہلے تک ایک ایسی سلطنت‘ جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنے لیے پانچ چھ سو آرٹیکلز پر مبنی ایک آئین تحریر کیوں نہیں کرتی؟ اس کے جواب میں اس کی جمہوری تاریخ اور قانون کی حکمرانی کی تاریخ بیان کر دی جاتی ہے۔ وہی تاریخ جس میں جیمز اوّل بھی ہے جو نہ انسانی حقوق کو مانتا تھا اور نہ ہی اظہار رائے کی آزادی کو، چارلس اوّل بھی ہے جو 25 سال کی عمر میں بادشاہ بنا‘ جس کے ہاتھوں پارلیمنٹ ایک کھلونا بنی رہی اور بالآخر 30 جنوری 1649ء کو عوام کے ہجوم نے اسے ایک بڑے چُھرے‘ جسے گیلوٹین کہتے ہیں‘ کے نیچے رکھ کر ذبح کر دیا۔ انہی روایات میں صنعتی انقلاب کے دوران بدترین چائلڈ لیبر کی تاریخ ہے، لیکن کیا کریں آئین کی بالادستی اور آئین کو مقدس دستاویز کا درجہ دینے والوں کی منطق ہی نرالی ہے۔ جدید سیکولر ریاست کے لوازمات میں آئین اوّلین شرط اور اس کی روح ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اس عالمی معیار کے حوالے سے اسرائیلی ریاست نے ایک فقرہ تحریر کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اسرائیل کے آئین کی کتاب صرف ایک لائن پر مشتمل ہے: ''اسرائیل کا آئین تورات ہے‘‘۔ کاش پاکستان کا آئین تحریر کرتے ہوئے بھی اسی غیرتِ ایمانی کا اظہار کیا جاتا اور صرف ایک لائن تحریر کر دی جاتی کہ ''پاکستان کا آئین قرآن ہے اور سنت رسولؐ اس کی عملی تشریح ہے‘‘۔ اس کے باوجود پاکستان کا آئین جو حدودوقیود متعین کرتا ہے اور حکومت اور پارلیمینٹ کو جو ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے اس کے مطابق کوئی ایک قدم بھی قرآن و سنت کے خلاف نہیں اٹھایا جا سکتا۔
اب دنیا کا یہی دستور ہے کہ آئین کو ایک مقدس دستاویز مان لیا جائے اور اس تصور کو اقوام عالم میں راسخ کر دیا گیا ہے۔ یہاں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایک ایسی تحریر جو ان تمام خصوصیات کی حامل ہو جس میں انسانی حقوق، قانون کی بالادستی، عدل و انصاف، معاشی، معاشرتی اور سیاسی مساوات جیسے سب اصول درج ہوں اسے ایک خوبصورت انداز میں شائع کر دیا جائے؟ اور کیا اس کی جلدیں ملک کے ہر دفتر میں موجود ہوں اور اسے ہر موقع پر رہنما کے طور پر پیش کیا جائے، اس پر فخر کیا جائے کہ ہم نے ایک اسلامی، جمہوری اور ترقی یافتہ آئین مرتب کر لیا ہے؟ تو کیا یہ سب کسی بھی ملک کے رہنے والوں کے لیے کافی ہے؟ کیا صرف آئین میں تحریر کرنے سے لوگوں کی زندگیاں بدل جاتی ہیں، ان کی معاشی ناہمواری ختم ہو جاتی ہے، انہیں عزت نفس میسر آ جاتی ہے، انہیں ہر طاقتور کے مقابلے میں انصاف مل جاتا ہے، ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہو جاتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو آئین مرتب کر کے اسے برکت کے لیے ہر اونچے مقام پر خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا اور کہا جاتا کہ ہم نے آئین میں یہ طے کر دیا ہے کہ اس ملک میں امن، انصاف اور خوشحالی ہو گی، اس لیے اب ان سب چیزوں کا مطالبہ کرنا فضول ہے، خاموشی سے بیٹھے رہو۔
یہ ہے وہ المیہ جس سے میرا ملک اس دن سے دوچار ہے جس دن سے 1973ء کا آئین اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ جب کبھی کوئی شخص، تنظیم یا تحریک یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس ملک میں شرعی قوانین نافذ کرو یا عرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ شریعت نافذ کرو تو بڑے بڑے دانشور اور'' عقلمند‘‘ سیاست دان ایک دم پکار اٹھتے ہیں کہ شریعت تو نافذ ہے، آئین میں درج ہے۔ دوسرا ''شاندار‘‘ مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ اگر شریعت کے نفاذ کا اتنا ہی شوق ہے تو اس کے لیے ایک طریق کار ہے، جائو ا لیکشن لڑو، جیت کر اسمبلی میں آئو اور شریعت نافذ کروا لو۔ یہ کیسی ''جمہوری‘‘ دلیل ہے؟
حضور! پاکستان کے بیس کروڑ عوام نے جو اسمبلی منتخب کی ہوتی ہے وہ اسی لیے کی ہوتی ہے کہ آئین کو مکمل طور پر ملک میں نافذکرے۔ اس کے ممبران کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی ایک شق پر عمل کریں اور دوسری کو چھوڑ دیں۔ ان ممبران کو اس قوم نے آئین کی بالادستی اور اس کے نفاذ کے لیے ووٹ دیے ہوتے ہیں، جب وہ ایسا نہیں کر پاتے تو پھر لوگ سراپا احتجاج بنتے ہیں۔ آئین میں اعلیٰ عدالت کے ججوں کی تقرری کا ایک طریق کار درج ہے۔ اس کے مطابق پہلے مشرف اور پھر آصف علی زرداری کی حکومتوں نے چیف جسٹس اور دیگر جج مقرر کیے، لیکن عوام یہ سمجھتے تھے کہ یہ آئین کی روح کے ساتھ ایک مذاق ہے؛ چنانچہ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ پورے ملک میں صرف ایک لاکھ وکیل ہیں، کیا کسی نے ان سے کہا کہ آئین کی حکمرانی چاہتے ہو تو جائو الیکشن لڑو، اسمبلیوں میں آئو اور اپنی مرضی سے آئین کو نافذ کرو؟ کیا یہ ایک لاکھ وکیل پورے ملک کی نمائندگی کرتے تھے؟ ہاں کرتے تھے، اس لیے کہ اس ملک کے عوام کی رائے سے جو آئین بنا تھا، وہ اس کے نفاذ کی بات کرتے تھے۔ اس ملک میں یہ جنگ، یہ فساد، یہ خانہ جنگی اور بار بار لوگوں کا سڑکوں پر نکلنا صرف ایک ہی وجہ سے ہے کہ ہم نے لوگوں کے ہاتھوں میں ایک خوبصورت دستاویز آئین کے نام سے تھما دی ہے اور پھر اس کو اسمبلی کی الماریوں میں سجا کر بھول گئے ہیں کہ اسے نافذ بھی کرنا ہے۔ اسی لیے خواہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلے یا پھر کسی ایسے قانون کے خلاف جو شریعت سے متصادم ہو تو نعرہ ایک ہی بلند ہوتا ہے کہ شرعی قوانین نافذ کرو، شریعت نافذ کرو۔ کیا آئین میں یہ درج نہیں کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سود ختم کرے، لوگوں کو اسلامی طرز زندگی اپنانے کے لیے سہولیات فراہم کرے، قرآن کی تعلیم کے لیے عربی زبان سکھانے کا بندوبست کرے، فحاشی و عریانی اور فحش ادب کا خاتمہ کرے، تمام قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کرے؟ ہماری منافقت کا عالم یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل‘ جس میں تمام مسلکوں کے علماء شامل ہیں‘ نے اپنی تمام سفارشات مدتوں سے مکمل کر رکھی ہیں، لیکن آج تک یہ سفارشات اسمبلی میں پیش نہیں ہوئیں۔ حکومت جس نے سود کا خاتمہ کرنا ہے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سود کے حق میں نظرثانی کے لیے جاتی ہے۔ فحاشی و عریانی کو میڈیا کی آزادی کے نام پر قبول کیا جاتا ہے۔ یہ ہے ہماری منافقت اور یہی ہے اس ملک میں فساد کی اصل وجہ۔ آپ لوگوں کی امنگوں کے مطابق ایک دستاویز ترتیب دیتے ہیں، اِسے مقدس ترین کتاب کا درجہ بھی دیتے ہیں لیکن ہر دوسرے دن اپنے عمل سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
چمن میں اپنی تعیناتی کے دوران میرے سامنے ایک کیس پیش ہوا، ایک شخص کی زمین پر کسی طاقتور نے قبضہ کر لیا تھا، وہ روز تھانیدار کے پاس جاتا کہ اس طاقتور سے اس کی زمین کا قبضہ چھڑائے۔ تھانیدار کہتا، بابا یہ ایک دیوانی مقدمہ ہے، جائو کسی دیوانی عدالت میں دعویٰ دائر کرو۔ کئی مہینے معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔ ایک دن اس شخص نے اس طاقتور کو قتل کر دیا اور تھانیدارسے جا کر کہا اب مقدمہ فوجداری ہو گیا ہے، اب کارروائی کرو۔ ہم بھی حالات کے فوجداری ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو چیختے ہیں کہ طاقت سے اپنی بات منواتے ہو؟ یہ کوئی جمہوری طریقہ ہے؟ آئین میں سب کچھ درج ہے۔ کل کوئی ایسا ہی کرنے کو کہے گا!!