پانچ فروری کو بنیاد پرست تنظیموں کے بھرپور تعاون سے حکومت نے ''یومِ یکجہتی کشمیر‘‘ منایا۔ برصغیر کے حکمران طبقات اور ریاستوں نے اپنے مفادات اور سامراجی عزائم و مقاصد کے لیے مسئلہ کشمیر کا بھرپور استعمال کیا اور کشمیری عوام کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ انگریز سامراج کا لگایا ہوا کشمیر کی تقسیم کا زخم آج بھی رِس رہا ہے۔ اس وادیِ بے نظیر کے نوجوان اور محنت کش کشمیر کی غربت‘ افلاس اور محرومی سے بچنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں سے لے کر مشرقِ وسطیٰ، یورپ سمیت دنیا کے مختلف دیسوں میں روزی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ کشمیر کی اصل آزادی وہاں کے عوام کی سماجی اور معاشی آزادی سے منسلک ہے جو ان سے چھینی جا رہی ہے۔ کشمیرکی معیشت آج بھی بیرون ملک کشمیری محنت کشوں کی ترسیل کردہ رقوم پر استوار ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کراچی سے اسلام آباد پیدل مارچ کرنے والا ماما قدیر کا قافلہ لاہور پہنچنے کو ہے۔ دو ہفتے قبل خضدار میں دریافت ہونے والی تین اجتماعی قبروں میں سے 100 سے زائد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں‘ جس سے بلوچستان کی سلگتی ہوئی صورتحال ایک بار پھر منظر عام پر آگئی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں قومیت کا مسئلہ زیادہ پیچیدہ اورگمبھیر ہو چکا ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں پاکستان جن بنیادوں پر معرضِ وجود میں آیا‘ ان کی وجہ سے اس کی شناخت، ساخت اور وجود جدید قومی وحدت سے محروم تھا۔ جس خطے میں یہ اسلامی مملکت قائم کی گئی وہاں موجود مختلف قومیتوں میں لسانی، ثقافتی اور تہذیبی تفریق بہت نمایاں اور مختلف تھی، اس لیے اپنے جنم کے ساتھ ہی ایک قوم کے حوالے سے اس کی ساخت بہت ہی متفرق اور سطحی نوعیت کی تھی۔ پھر دو قومی نظریے کو 1971ء میں مشرقی بنگال کی علیحدگی سے کاری ضرب لگی۔
حکمران طبقات بھی بحرانوں کی مختلف کیفیتوں میں نظریہ پاکستان کے مختلف متضاد پہلوئوں کو اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ 1949ء کی قراردادِ مقاصد اور 1951ء کی نظریاتی کونسل سے ریاست کے قیام کے مقاصد پورے نہیں ہو سکے۔ پاکستانی قوم پرستی کا روز اول سے ہی اس ملک کی دوسری قومیتوں سے گہرا تضاد تھا۔ استحصال و جبر کے خلاف مختلف خطوں میں مختلف پیمانوں پر عوامی تحریکیں اُبھرتی رہیں، ان میں سب سے بڑی تحریک بلوچستان میں قومی آزادی کی مسلح جدوجہد تھی جس کو ایوبی آمریت نے کچلنے کی کوشش کی۔ 1973-74ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ریاست نے اپنی 71ء کی شکست کے بعد دوبارہ ایرانی شہنشاہیت کی مدد سے ایک بڑا فوجی آپریشن کیا‘ جس میں پانچ ہزار بلوچ اور تین ہزار فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
بلوچستان میں معدنیاتی وسائل اور بندرگاہوں کے کاروبار میں نہ صرف پاکستانی حکمران شریک ہیں بلکہ سامراجی جارحیت اور مداخلت بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ اس کیفیت میں جائداد اور ملکیت کے طبقاتی رشتوں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ حکمران طبقات استحصال کے لیے صرف ریاستی جبر کا سہارا نہیں لیتے بلکہ محنت کشوں کے درمیان ماضی کے تعصبات کے ذریعے پھوٹ ڈالتے ہیں اور استحصال کے خلاف ابھرنے والی قومی تحریکوں کو مختلف قبائلی و لسانی منافرتوں کے ذریعے کمزور کیا جاتا ہے۔ پھر مقامی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں اور سامراجی قوتوں کے درمیان وسائل کی لوٹ مار کی داخلی جنگ اور کشمکش بھی جاری رہتی ہے۔ اس لڑائی میں مظلوم قومیتوں کے بالادست طبقات کے مختلف دھڑوںکو بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان دشمنیوں، رقابتوں اور تنازعات کی جڑیں چونکہ سرمایہ دارانہ معیشت اور نظام میں پیوست ہیں لہٰذا آخری تجزیے میں سامراج، پاکستانی حکمران طبقات اور تنگ نظر قوم پرست لیڈروں کے مفادات کی نوعیت میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ پاکستان میں حکمرانوں اور سامراجیوں کے استحصال اور ہوس پر مبنی یہی پیچیدہ لڑائی ان علاقوں کے عوام کو تباہ و برباد کر رہی ہے جو سٹریٹجک حوالے سے اہم اور معدنیات کے ذخائر سے مالامال ہیں۔ بلوچستان کی بات کی جائے تو نہ صرف یہاں کے باسی غربت، افلاس، بے روزگاری، ناخواندگی اور بیماریوں میں مبتلا ہیں بلکہ انتشار اور خونریزی اب پراکسی جنگوں میں تبدیل ہو کر غریب عوام کو برباد کرتی چلی جا رہی ہے۔
اس کیفیت میں جائداد اور ملکیت کے طبقاتی رشتوں کو سمجھنا لازم ہو جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی اور اس سے پیشتر بلوچستان میں ریاستی جبر اور استحصال کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کی پوزیشن کہیں زیادہ نظریاتی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے
بعد پیدا ہونے والے نظریاتی خلا کے عہد میں بلوچستان میں متحارب سامراجی قوتوںکی مداخلت نے بلوچ محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان قوتوں نے تحریک کے اس سوشلسٹ معاشی پروگرام کو تلف کروانے کی کوشش کی جس کے ذریعے دوسری قومیتوں کے محنت کش عوام کو وسیع حمایت مل سکتی تھی۔ طبقاتی کشمکش جب جمود کا شکار ہو تو موقع پرستی ناگزیر طور پر سر اٹھانے لگتی ہے‘ جسے شعوری طور پر کچلنا ضروری ہوتا ہے۔ محض لسانی اور قومیت کی بنیاد پر چلنے والی تحریک کو منتشر کرنا اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا سامراجیوں کے لیے قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ سندھ میں اگر مہاجر، سندھی، پشتون، پنجابی اور بلوچ کی تفریق کو ابھارا جا سکتا ہے تو یہی حکمران بلوچستان میں بلوچ، پشتون اور براہوی عوام کو آپس میں الجھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ ان کو یہ بھی پروا نہیں ہو گی کہ یہ تعصبات پھٹ کر عام لوگوںکی کتنی بڑے پیمانے پر بربادی کریں گے اور خون بہائیں گے۔
قومی مسئلہ آخری تجزیے میں درحقیقت روٹی کا مسئلہ ہے، کسی نظام کے مساوی طور پر اس ریاست میں موجود مختلف قومیتوں کے عوام کو ترقی دینے کی نااہلیت ناگزیر طور پر قومی استحصال اور ان قومیتوں کے عوام میں احساسِ محرومی کو ابھارتی ہے، لیکن استحصالی نظام اور ریاست فیصلہ کن انداز میں صرف طبقاتی کشمکش سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے قومی استحصال کے خلاف جدوجہد کو طبقاتی استحصال کے خلاف ہونے والی جدوجہد سے جوڑ کر ہی اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی راستہ خواتین پر ہونے والے جبر اور سماج کی دوسری مظلوم پرتوں کی ذلت سے نجات کا بھی ہے۔ لینن نے قومی استحصال پر مارکسی لائحہ عمل کو ان جامع الفاظ میں واضح کیا تھا ''قوموں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہوئے تمام قوموں کے محنت کشوں کو ایک طبقاتی لڑی میں یکجا کرنے کی جدوجہدکا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں‘‘۔
تنگ نظر قوم پرستی کا نظریہ بنیادی طور پر بورژوا ریاست کی نظریاتی اساس ہوتا ہے۔ سامراج کی تاریخ ہی اپنے غلبے اور استحصال کو قائم رکھنے کے لیے ملکوں کو توڑنے اور جوڑنے پر مبنی ہے۔ قومی بنیادوں پر ریاستیں اور ملک تو بدل سکتے ہیں نظام نہیں۔ بلوچستان، سندھ، کشمیر، پختونخوا اور دوسرے محروم خطوں میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی قومی محرومی دراصل طبقاتی محرومی میں لپٹی ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر پاکستان میں قومیتوں کے مسئلے پر بے شمار تنازعات، جنگیں، غداریاں، معاہدے اور مصالحتیں ہوئی ہیں۔ کتنے پیکج دیے گئے لیکن مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتا گیا۔
ذرائع پیداوار اور قدرتی وسائل کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرکے ہی قومی استحصال سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لالچ اور ہوس کی نفسیات کے خاتمے سے ہی خطوں، علاقوں، معدنیات اور دوسرے ذرائع وسائل کی جانب انسانی رویے ہی یکسر بدل جاتے ہیں۔ بلوچستان اور دوسری مظلوم قومیتوں اور خطوں کے عوام کو یہاں کے وسائل سے خوشحالی اور ترقی صرف اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب یہ تمام وسائل انفرادی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی نجی ملکیت سے آزاد ہو کر تمام لوگوں کے مشترکہ اور اجتماعی اختیار میں ہوں گے۔ ایک سوشلسٹ سماج میں ہی وہ وسائل اور مادی حالات میسر ہو سکتے ہیںجن میں قومی حقوق، ثقافتوں اور زبانوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان کو جدید اور زیادہ ترقی یافتہ بنایا جا سکے۔