اگر آپ کے پاس وقت کچھ زیادہ ہے، کاٹے نہیں کٹتا اور مارے نہیں مرتا تو پریشان نہ ہوں۔ کسی بُک شاپ پر ''وقت ضائع کرنے کے 100 آزمودہ طریقے‘‘ یا اِس سے ملتے جلتے عنوان کی کوئی اور کتاب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی محفل میں بس ذرا حالات کا ذِکر چھیڑ دیجیے اور پھر دیکھیے کہ لوگ حالات کی سنگینی اور اہل وطن کی بے حِسی ثابت کرنے کے لیے کتنی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں اور کِس کِس طرح روتے، رُلاتے ہیں! اِس دھماچوکڑی میں آپ کا وقت ایسی خوبصورتی سے کٹے گا کہ کہیں cut کا نشان تک نہیں ملے گا۔
ہمارے ہاں لوگوں کو رونے کا بہانہ چاہیے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ تو بالکل چابی والے گڈے کی طرح ہوتے ہیں یعنی چند جملوں کے ذریعے چابی دیجیے اور پھر خاموشی سے کوئی کونا پکڑ کر تماشا دیکھیے! حالات کی خرابی، بدامنی، مہنگائی، حکومت کی بے حِسی، سرکاری مشینری کی کرپشن، اپنوں کی ناقدری، غیروں کی بے رغبتی، دوستوں کی بے اعتنائی، واقفیت رکھنے والوں کی اجنبیت، گلی کے دکاندار کا کمینہ پن، دودھ والے کی بے رُخی ... غرض کون سا موضوع ہے جس میں ہمت ہے کہ بچ کر دِکھائے۔
دوسری طرف اہل مغرب ہیں کہ شدید مصروفیت والی زندگی بسر کرنے کے باعث ہنسنے کو ترس کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں کوئی معمولی سی مضحکہ خیز بات نظر آئے تو وہ قہقہوں کی بارش کردیتے ہیں۔ ہمیں رونے کے لیے بھی جواز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور وہ بے چارے ہنسنے کے لیے بھی جواز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہالینڈ کا ہیو باس انتہائی خوش نصیب ہے کہ قدرت نے اُسے دائمی ہنسی کی دولت سے مالا مال کردیا ہے۔ بات یہ ہے کہ دو سال قبل ہیوباس کا آپریشن ہوا۔ اِس آپریشن میں ڈاکٹرز اللہ جانے کیا غلطی کر بیٹھے کہ ہیو باس کی کوئی عجیب و غریب رگ دب گئی اور اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آپریشن ختم ہونے پر ہوش میں آنے کے بعد اُس نے بات بات پر ہنسنا شروع کردیا۔ پھر تو یہ ہوا کہ ہر معاملہ اُسے ہنسانے لگا۔ ٹھوکر کھاکر گرنے پر وہ ہنستا، کوئی ٹکرا جاتا تو ہونٹوں پر ہنسی سجی ہوئی ملتی اور ٹکرانے والا اُسے ''زندہ دِلی‘‘ پر سراہتا ہوا چل دیتا۔ پھر تو یہ بھی ہونے لگا کہ ہیو باس کسی کے مرنے پر تعزیت کے لیے پہنچتا تو آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر ہنسی ہوتی۔ پس ماندگان یہ سوچ کر چُپ رہتے کہ کیا پتا نفسیات کے ماہرین نے تعزیت کرنے کی کوئی نئی تکنیک متعارف کرائی ہو۔
رشتہ دار اور احباب یہ سمجھے کہ شاید آپریشن کے دوران ڈاکٹرز نے غلطی سے ہیو باس کے دماغ کا کوئی اسکرو ڈھیلا کردیا ہے۔ اُنہوں نے ڈاکٹرز کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ خیر گزری کہ ہیو باس نے اِس مشورے کو، جیسی کہ توقع تھی، ہنسی میں اُڑا دیا‘ یعنی ڈاکٹرز سے اگر کوئی کوتاہی سرزد ہوئی بھی تھی تو اُسی کوتاہی نے اُنہیں بچالیا۔
ہیو باس اگر ہمیں مل جائے تو ہم اُس سے اُن ڈاکٹرز کا پتا ضرور معلوم کریں گے جنہوں نے اُس کا آپریشن کیا تھا۔ بات یہ ہے کہ ہماری زندگی میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو بات بات پر رونے اور رُلانے پر تُل جاتے ہیں۔ اُن کے پاس اور کوئی کام ہے ہی نہیں۔ ہم چاہیں گے کہ اُن کے دماغ کے چند اسکرو ڈھیلے کردیئے جائیں تاکہ وہ بھی نارمل اور اِنسانوں والی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اِس صورت میں اُنہیں کچھ ملے نہ ملے، ہم جیسے مصیبت زدگاں کو تھوڑا بہت سُکون ضرور میسر ہوسکے گا۔
ہمارے دفتری احباب میں ذوالفقار حسین نقوی بھی شامل ہیں۔ نقوی صاحب اِس قدر سیدھے ہیں کہ انتہائی ٹیڑھے ہیں۔ سانس لینا ہم سب کے لیے لازم ہے اور سانس لینے کے لیے آکسیجن ناگزیر ہے۔ نقوی صاحب نے آکسیجن کی طرح پریشانی اور بدحواسی کو بھی اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ نقوی صاحب کا شعبہ وہی ہے جو بیویوں کا ہوا کرتا ہے یعنی دُوسروں کی غلطی کی نشاندہی۔ کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اب وہ ہر معاملے میں غلطی تلاش کرتے ہیں اور مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہی سکون کا سانس لیتے ہیں۔ پروف کی غلطی پکڑنا بھی نقوی صاحب کے فرائض میں شامل ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وہ اب خرابیوں کی نشاندہی میں قلبی راحت محسوس کرنے لگے ہیں۔ یہ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کسی کے مرنے کی اطلاع پاکر گورکن کی آنکھیں چمک اُٹھیں کہ اب دیہاڑی بنے گی! مگر مشکل اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب نقوی صاحب کسی کی غلطی پکڑنے کے بعد خود تو راحت محسوس کرتے ہیں مگر اُس کا رونا روکر دوسروں کو شدید اُلجھن میں مبتلا اور کوفت سے دوچار کرتے ہیں۔
ہم جس ماحول کا حصہ ہیں اُس میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو ہنسی خوشی جینے کی آرزو میں رونے کا بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ غالبؔ کے ایک خط میں مرقوم ہے ؎
پُر ہوں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
بیشتر پاکستانیوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ بہت سے لوگ دو منٹ کی گفتگو ہی میں پھٹ پڑتے ہیں۔ اُنہیں صرف ایڑ لگانے کی دیر ہوتی ہے۔ ذرا سی مہمیز ملتے ہی وہ رونے رُلانے کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے ہاں صرف دُکھ اور پریشانیاں ہیں۔ رونا پیٹنا تو سدا کا ہے، اِسی گُدڑی سے ہم ''لعل‘‘ بھی دریافت کرلیا کرتے ہیں! میرزا نوشہ نے خوب کہا ہے ع
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
یاروں نے اپنی مدد آپ کے اُصول کو بنیاد بناکر رنج و غم کی زمین پر مَسّرت کے محل کھڑے کرلیے ہیں۔ پریشانی میں رونا ہی لازم نہیں، کچھ گنگنانے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ یعنی ؎
دِل کی تنہائی کو آواز بنالیتے ہیں
درد جب حد سے گزرتا ہے تو گالیتے ہیں
حالات کی روش معاشرے کو اُس مقام پر لے آئی ہے کہ جنہیں کل تک موت کا خوف لاحق تھا وہ اب اِس خوف سے لرزاں رہتے ہیں کہ اگر بچ گئے تو کیا ہوگا! یہ خوف کا تازہ ترین ورژن ہے جو ابھی ابھی مارکیٹ میں آیا ہے۔ صبح کام پر جانے والے شام کو بخیریت گھر واپسی کو بھی کارنامہ سمجھنے لگے ہیں۔ ایسے ہی چند لطائف ہیں جو شدید بے کسی اور بے بسی کی حالت میں بھی ہمارے ہونٹوں پر مُسکراہٹ بکھیرتے رہتے ہیں۔ گویا ع
مُشکلیں مُجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں
ہیو باس جیسے لوگ خوش نصیب ہیں کہ بیٹھے بٹھائے ہنسی کی دولت مل گئی۔ دل چاہے یا نہ چاہے، چہرہ تو کِھلکِھلاتا ہی رہتا ہے۔ اور کیا چاہیے؟ ترقی کے معاملے میں خوش بختی مغرب پر ختم ہے۔ وہاں کے ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں بھی اللہ نے ایسی ''شِفا‘‘ رکھی ہے کہ اُن سے سرزد ہونے والی کوتاہی بھی کسی کے لیے مَسرّت کا سامان کرجاتی ہے۔ اور اِدھر ہمارا مقدر دیکھیے کہ اونٹ پر بھی بیٹھیے تو کُتّا کاٹ لیا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ڈاکٹرز بھی ایسے ہیں کہ آپریشن کے دوران غلطی کر بیٹھیں تو مریض مرتے دم تک اپنے وجود کا ماتم کرتا رہتا ہے۔