آج ''ایشیا ٹائمز آن لائن‘‘ میں‘ پاک طالبان مذاکرات کے موضوع پر‘شمس الزمان کاتجزیہ آیا ہے۔ اس میں طالبان اور پاکستان کے حکمران طبقوںکے مقاصد اور مسائل کا موازنہ کرنے کے بعد‘آخر میں جو لکھا گیا‘ وہ اردو میں کچھ یوں ہے''(حالات اسی سمت میں آگے بڑھے تو) حکمران طبقوں کو یا تو پہلی فلائٹ لے کر ملک سے بھاگنا پڑے گا یا عوام کے ساتھ واپس پتھر کے زمانے میں رہنا پڑے گا۔‘‘یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ہمارے حکمران طبقے‘ شاہانہ عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر‘شریعت کے نام پرقبائلی طرز زندگی گزارنا برداشت کریں۔ انہوں نے عرصہ پہلے‘ دہشت گردی اور سکیورٹی کے نام پر‘ اپنے آپ کو عوام سے علیحدہ کر لیا ہے۔ کسی زمانے میں سکیورٹی کا مطلب عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنا تھا۔ آج سکیورٹی کا مفہوم بدل چکا ہے۔سکیورٹی صرف اور صرف حکمران خاندانوں کے لئے ہے۔ حد یہ ہے کہ ہمارے دارالحکومت اسلام آباد میں‘ ایک ایک خاندان کی حفاظت پر نہ صرف سینکڑوں سکیورٹی گارڈز مامور ہیں بلکہ جدیدترین الیکٹرانک سسٹم اور مصنوعی سیاروں کی مدد سے نگرانیوں کے انتظامات بھی کر دیئے گئے ہیں۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کی تو تعمیر ہی شہری آبادیوں سے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو میل کے فاصلے پر کی گئی۔ ان کے بعد وزرا کی کالونیاں علیحدہ بنا کر‘ وہاں خصوصی سکیورٹی کا بندوبست کر دیا گیا۔ شہر کے اندر جہاں جہاں اعلیٰ افسر‘ بے وسیلہ وزیر‘ حکمران خاندانوں کے رشتے دار اور سرکاری طاقت استعمال کر کے دونوں ہاتھوں سے دولت بٹورنے والے کارندے رہتے ہیں‘ ان کی رہائش گاہوںکی علیحدہ قلعہ بندیاں کر دی گئی ہیں۔ دو تین ہوٹل‘ جہاں حکمران طبقوں کے حصے دار یا طفیلئے قیام کرتے ہیں‘ وہاں بھی مکمل قلعہ بندی کر کے‘ سکیورٹی کے کیپسول بنا دیئے گئے ہیں۔
وہ زمانے لد گئے‘ جب غالب نے کہا تھا کہ''بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‘‘۔ کسی زمانے میں اسلام آباد کے شہریوں کا یہی حال تھا۔ دوسرے شہروں میں بسنے والے پاکستانی جب اسلام آباد جاتے‘ تو رشک سے دعا کیا کرتے کہ خدا انہیں بھی اسلام آباد کے شہریوں جیسا ماحول عطا کر دے۔ دعا تو سنی گئی مگر ذرا سے فرق کے ساتھ۔ انہیں تو اسلام آباد کے شہریوں جیسی زندگی نہ ملی۔ اسلام آباد والوں کی زندگی پاکستان کے باقی ماندہ شہریوں اور دیہاتیوں جیسی ہو گئی۔ اب اسلام آباد والوں کے گھر بھی اسی طرح غیر محفوظ ہیں‘ جیسے ملک کی دیگر محکوم آبادیوں میں رہنے والوں کے۔ ان کے گھروں میں بھی چوریاں ہوتی ہیں۔ ڈاکے پڑتے ہیں۔ ان کے پیارے بھی تاوان کے لئے اغوا کئے جاتے ہیں۔ ان کے گھروں میں بھی گیس نہیں آتی۔ لوڈشیڈنگ بالکل اسی طرح ہوتی ہے‘ جیسے باقی ماندہ پاکستان میں۔ وہاں بھی خاص خاص سڑکیں‘ عام شہریوں کے لئے بند رہتی ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اب اندرون ملک رہنے والے‘ اسلام آباد آ کر قطعاً اجنبیت محسوس نہیں کرتے۔ حد یہ ہے کہ کچی آبادیوں کے رہنے والے بھی اسلام آباد آئیں‘ تو انہیں اپنے گلی محلے جیسا ماحول میسر آ جاتا ہے۔ سناہے اب حکمران ‘ کچی آبادیوں کے رہنے
والوں کی خوشیاں چھیننے پر تل گئے ہیں۔ اسلام آباد کی کچی آبادیوں کے مکینوں کو دھکے دے کر‘ غریبوں کے پاکستان میں پھینک دیا جائے گا۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جب تک اسلام آباد کچی آبادیوں سے پاک ہو گا‘ تب تک یہاں پختہ گھروںمیں رہنے والے بے وسیلہ رہائشیوں کی زندگی‘ کچی آبادیوں جیسی ہو چکی ہو گی اور پسماندہ قبائلی علاقوں کے خوشحال لوگ نقل مکانی کر کے‘ اسلام آباد منتقل ہو چکے ہوں گے۔ اسی شہر میں قبائلی بودوباش کی سہولتیں حاصل کر کے‘ حکمرانوں کے سینے پر مونگ دلیں گے۔ باقی ملک کے بے وسیلہ پاکستانیوں کو اسلام آباد آنے پر اجنبیت کا احساس نہیں ہو گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ حکمرانوں اور غلاموں کی طبقاتی چھانٹیاں بڑھتے بڑھتے‘ منطقی انجام تک پہنچ جائیں گی۔ جیسے آزادی سے پہلے غیرملکی آقائوں اور مقامی غلاموں کے رہائشی علاقے الگ الگ تھے۔ ''آزاد پاکستان‘‘ میں بھی ہو جائیں گے۔ میں کوئی خیالی محل نہیں بنا رہا۔ حقائق کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں۔ طالبان آسمان سے نہیں اترے۔ ہمارے حکمرانوں نے عوام کے لئے 65سالوں کے دوران جو معیار زندگی حاصل کیا ہے‘ اس میں عوام کے لئے ذرائع روزگار کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ تعلیم کا معیار پست سے پست ہوتا گیا اور سکولوں میں گائے‘ بھینسیں اور گدھے گھوڑے باندھے جانے لگے۔ گندا پانی گھروں کی دہلیزوں تک آتے آتے‘ غریبوں کے ہونٹوں تک پہنچ گیا۔ افلاس کی یہ حالت ہو گئی کہ انہوں نے اپنے بچوں کو‘ گھر کے فاقوں سے بچانے کے لئے‘ مدرسوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔ محروم طبقوں کی آبادیاں بڑھتی گئیں اور حکمرانوں اور حکمران طبقوں کی رہائش گاہیں سمٹتے سمٹتے ہائی سکیورٹی زونز میں بدلتی گئیں۔ ان کی مسجدیں‘ ان کے شاپنگ سنٹرز‘ ان کی سیرگاہیں‘ ان کے ہسپتال‘ ان کے بچوں کے سکول‘ان کی کلبیں‘ سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہوتا گیا۔ دو تین عشرے پہلے تک دیہات کے لوگ شہروں میں آ کر ‘ وہاں کے لوگوں پر رشک کیا کرتے تھے۔ آج دونوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اب دونوں ہی‘ شہروں میں بنائے گئے سکیورٹی زونز کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ٹھنڈی سانسیں بھرتے اور دلوں میں سوچتے ہیں کہ کمزوروں‘ بھوکوںاور غریبوں کے منہ کی روٹی چھین کرجو لوگ ‘ اپنے باتھ رومزایسے قیمتی پتھروں سے سجاتے ہیں‘ جن کا ایک چھوٹا سا پیس انہیں‘ انگوٹھی میں لگانے کے لئے بھی نصیب نہیں ہوتا۔ کیا انہیں انسانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے؟ جب عوام اور حکمرانوں کے مابین فاصلے اتنے بڑھ جائیں اور پستی اور بلندی کا فرق اس حد تک چلا جائے کہ بلندی پر رہنے والوں کی تعداد برائے نام رہ جائے اور پستیوں میں رہنے والے ‘ صحرائوں کی ریت اور سمندروں کے پانیوں کی طرح پھیل جائیں‘ تو
بلندیوں کی حالت یوں ہو جاتی ہے‘ جیسے سمندر کا پانی سطح سے ابھرنے والی ہر چیز کو اپنے برابر کر لیتا ہے اور صحرائوں کی ریت ہوا کے چند جھونکوں سے‘ اپنی سطح سے اوپر اٹھنے والی ہر چیز کو ذرات کے دامن میں لپیٹ لیتی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بالکل درست کہا ہے کہ'' اسلام بم دھماکوں سے نہیں پھیلتا۔‘‘ اسلام تبلیغ‘ محبت اور انسانی رشتوں میں حسن اور توازن پیدا کرنے سے پھیلتا ہے۔ ہمارے ملک میں اسلام‘ دین کے بجائے طبقاتی اظہار نفرت کا وسیلہ بنتا جا رہا ہے۔ حکمرانی کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ایک دلوں پر حکمرانی کا اور دوسرا جسموں پر حکمرانی کا۔ ہمارے حکمران طبقوںنے دلوں پر حکمرانی کا ہر موقع ضائع کر دیا اور جسموں پر حکمرانی کی طاقت ان کے اختیار میں نہیں رہی۔ ہمارے حکمران طبقے کتنے کھوکھلے ہو چکے ہیں؟ اس کا اندازہ کرنے کے لئے طالبان نے مذاکرات کی کسوٹی آزمائی۔ پہلی ہی رگڑائی میں ظاہر ہو گیا کہ سونے میں صرف کھوٹ ہی کھوٹ ہے۔ ایک ہی پرکھ میں حقیقت سامنے آ گئی کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی تمام جماعتیںاور ان کے حامی‘ سپاہ طالبان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کے محروم طبقات‘ طالبان کے قبائلی نظام انصاف کے خوف سے نکلتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔ حکمرانوں نے ناانصافی اور ظلم کے نظام کا شکنجہ کس کے انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ ذلت‘ بے بسی اور بے چارگی کی زندگی سے نکلنے کے لئے جو متبادل بھی دستیاب ہو‘اسے قبول کر لیںگے۔ میں نے وزیراعظم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ وہ ٹریپ میں پھنس گئے ہیں۔ طالبان کا یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ انہیں باقاعدہ مذاکرات کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔ ابتدائی دو جھلکیوں میں ظاہر ہو گیا کہ سامنے تو صرف ریت کی دیوار ہے۔ جنگ لڑنے کے لئے نہ ہمارے حکمرانوں کے پاس پیسہ ہے اور نہ عزم و ارادہ۔ دنیا میں ان کی حمایت کرنے والے اگر ہیں بھی‘ تو برائے نام ہیں اوربدلہ لینے کے خواہش مندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں طالبان سے بچانے کے لئے کوئی ‘مدد کو نہیں آئے گا۔ پاکستانی معاشرہ‘ اخلاق‘ قانون اور انسانیت کے بندھنوں سے محروم ہو چکا ہے۔ یہاں مؤثر گورننس کے لئے صرف جبر کی طاقت کام دے سکتی ہے۔ حکمران اس طاقت سے محروم ہو چکے ہیں۔ طالبان‘ شریعت کے نام پر جبر کی طاقت کا استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ مولانا عبدالعزیز نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا رکن بننے کے بعد جو باتیں کیں‘ مجھے ان کے الفاظ تو یاد نہیں مگر مفہوم کچھ اس طرح کاہے کہ اگر 50ہزار پاکستانی مر گئے تو کیا ہوا؟ نفاذ شریعت کے لئے اس سے بھی زیادہ خون بہانا پڑے‘ تو بہا دینا چاہیے۔یہ مولانا صاحب اس فتوے پر اپنے دستخطوں سے انکار نہیں کرتے‘ جس میں کہا گیا تھا کہ مجاہدین سے لڑتے ہوئے قربان ہونے والے پاکستانی فوجیوں کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ اس وقت ردعمل یہ تھا کہ مولانا کے فرمودات کو میڈیا میں جگہ نہیں ملتی تھی۔ مذاکرات کے طفیل‘یہی مولانا بھرپور انداز میں میڈیا کے سامنے آئے اور ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ اس فتوے پر مجھ سمیت 500علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ اب بتایئے کہ مذاکرت کی تجویز‘ امن کی کوشش ثابت ہوئی یا بھس میں ڈالی گئی چنگاری؟