تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     09-02-2014

طالبان اور دستورِ پاکستان

طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، یہ کب اور کہاں جا کر ٹھہرے گا، یہ کہنا مشکل ہے۔ پاکستانی قوم کے انتہائی غالب حصے کی خواہش ہے کہ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوں، وہ امن کی فضا لوٹ آئے جو کبھی پاکستانی معاشرے کا خاصہ تھی۔ ایسے لوگ موجود ہیں جو فوجی آپریشن کو ناگزیر سمجھتے ہیں، اس کے حق میں دلائل دیتے رہتے اور مذاکرات پر غم و غصے کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دلائل ان کے پاس بھی ہیں اور ان میں وزن ڈھونڈا جا سکتا ہے، لیکن زمینی حقائق بعض اوقات منطق اور دلیل سے مطابقت نہیں رکھتے۔ پاکستان جس صورت حال سے دوچار ہے، اس کے اسباب اور وجوہات پر پی ایچ ڈی کے کئی مقالے تحریر کئے جا سکتے ہیں، ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو افغانستان میں سوویت فوجوں کے داخلے کو نہیں، ان کے خلاف مزاحمت کو آج کے تمام مصائب کا سبب گردانتے ہیں اور دن رات یہ قوالی کرتے رہتے ہیں کہ اگر پاکستان اس وقت افغان عوام کی تحریک آزادی کا ساتھ نہ دیتا تو آج ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ ان عناصر کی طرف سے افغانوں کی اس تحریک کو امریکی قرار دینے میں کوئی تامل نہیں برتا جاتا اور پاکستان کی عزیمت کو بھی وہ ''ڈالروں‘‘ کی محبت میں کیا جانے والا کاروبار قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ دانش کی انتہائی معمولی مقدار سے کام لیا جائے تو حقائق واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔
(1) سوویت فوجوں کو افغانستان میں داخل ہو کر اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی حق حاصل نہیں تھا۔ (2) بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ کھلی جارحیت تھی اور اس کے خلاف مزاحمت کا حق افغانستان کے عوام کو حاصل تھا۔ (3) افغان مجاہدین نے اس حق کا استعمال کسی لالچ یا ترغیب میں نہیں، اپنی تاریخی روایات کے مطابق کیا اور اپنی سرزمین کی حرمت اور آزادی برقرار رکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی۔ (4) لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان پہنچے اور اس طرح انہوں نے اس مسئلے کو پاکستان کا داخلی معاملہ بنا دیا۔ (5) امریکی فوجوں کے خلاف ویت نام میں لڑی جانے والی جنگ کی امداد چین اور سوویت یونین کھلم کھلا کر رہے تھے اور انہیں کئی ملکوں کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ ویت نامی عوام کی جدوجہد کو کسی نے ''روبل‘‘ کے حصول کی کوشش قرار نہیں دیا۔ آج تک اس جنگ میں ویت نام کی امداد کرنے والے اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ (6) پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دیا، ان کی میزبانی کی اور انہیں پناہ دی تو اسلامی بھائی چارے کی ناقابلِ فراموش داستان رقم کی، اس پر طعنہ زنی کرنے والے دو ٹانگوں والے جانور تو ہو سکتے ہیں انسان نہیں۔ (7) افغان مجاہدین اور پاکستان کو دنیا میں جہاں جہاں سے بھی تعاون مل سکتا تھا، وہ حاصل کرنا ان کا حق تھا۔ امریکہ، چین، سعودی عرب اور دوسرے ممالک نے سوویت فوجوں کے خلاف اس مزاحمت میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے لئے عزت کا سامان کیا، اس پر افغان مجاہدین یا پاکستان کو موردالزام ٹھہرانا، نوعِ انسانی کی اعلیٰ اقدار سے روگردانی کرنا ہے۔ (8) افغان مجاہدین نے افغانستان میں اپنی لڑائی خود لڑی اور انہی کے زورِ بازو نے سوویت دانت کھٹے کئے، انہیں پاکستان یا کسی اور ملک سے کسی افرادی طاقت کی ضرورت نہیں تھی۔ (9) پاکستان نے افغانستان میں لڑنے کے لئے کوئی (پاکستانیوں پر مشتمل) جہادی تنظیم قائم نہیں کی، نہ ہی سعودی عرب یا کسی اور ملک سے ان کی امداد کے لئے جتھے روانہ کئے گئے۔ شوقِ جہاد اور شوق شہادت میں مبتلا باوسیلہ (یا بے وسیلہ) اہلِ ایمان میں سے جو لوگ افغانستان پہنچے، ان کی سعی انفرادی تھی۔ میدانِ جنگ میں افغان کسی بیرونی افرادی مدد کے نہ محتاج تھے، نہ اس کا تقاضا کر رہے تھے۔ ان کی طرح کندھوں پر میزائل اٹھا کر داغنے کا مظاہرہ کرنے والی قومیں دنیا میں عام نہیں ہیں۔ (10) سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکلنا پڑا تو اس کا سہرا وسائل فراہم کرنے والوں سے کہیں زیادہ، ان کا استعمال کرنے والوں کے سر تھا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اگر سوویت فوجیں افغانستان میں داخل نہ ہوتیں تو آج یہاں آگ اور خون کا کھیل نہ کھیلا جا رہا ہوتا۔ یہ اس ایک وارادت کے اثرات ہیں جو اس خطے کو بھگتنا پڑ رہے ہیں، اور جانے کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔ یہ درست ہے کہ سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد افغان ایک قابل قبول حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، ان کی دھڑے بندی نے معاملات کو بگاڑا، کہ اس وقت کوئی بین الاقوامی ادارہ یا ایجنسی یہاں موجود نہیں تھی۔ سی آئی اے افغان سرزمین سے ناواقف تھی اور اپنا بستر لپیٹ کر جا چکی تھی۔ اب یہاں، افغان تھے، پاکستان تھا اور اس کے ادارے تھے، لیکن معاملات ہاتھ سے نکل گئے۔ طالبان نے اپنے بڑوں کے خلاف بغاوت کر کے میدان مارا، لیکن اسامہ بن لادن سے اپنے آپ کو نہ بچا سکے۔ اسامہ کی ''مہمان نوازی‘‘ کی قیمت ان کو ادا کرنا پڑی اور پورا خطہ ایک بار پھر جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا۔
اب امریکہ اور نیٹو افواج واپسی کا اعلان کر رہی ہیں، لیکن ان کی افغانستان میں آمد نے جو مسائل پیدا کئے، انہیں سمیٹنے میں وقت لگے گا۔ پاکستان افغانستان کا ایسا ہمسایہ ہے کہ جو اس کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ ہمارے قبائلی علاقے اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہاں کے رہنے والے افغان قبائل سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ پاتے۔ پاکستان کے دستور نے ان کا خصوصی درجہ متعین کر رکھا ہے۔ یہاں وہ عدالتی اور انتظامی ادارے موجود نہیں ہیں جو پاکستان کے دستور نے اپنے دوسرے شہریوں اور علاقوں کو عطا کئے ہیں۔ اس لئے یہاں جب دستور کے مطابق مسائل حل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ الگ معاملہ ہو سکتا ہے، ان کے ادارے پہلے ہی دوسرے صوبوں اور علاقوں سے الگ ہیں، ان کی کوئی بھی نئی صورت گری بالاتر از دستور نہیں ہو سکتی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved