تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-02-2014

زیادہ حدّ ادب

صبر انہیں کیسے نصیب ہو کہ ادراک ہی نہیں ۔ اضطراب اتناہی ہوا کرتاہے ، جتنا کہ آدمی سچائی سے دور ہو ۔ احساس ہی نہیں کہ غلطی سے نہیں ، انسان غلطی پر اصرار سے تباہ ہوا کرتے ہیں ۔ بہت سے رازوں کا میں امین ہوں لیکن زیادہ حدّ ادب !
بے خوابی اور صحرا کی سفاک سردی ۔ دھوپ میں بیٹھا میں انتظار کرتا رہا۔ عمران خان بولے : دیکھو ، تمہارے لیے ہم نے دیسی مرغی پکائی اور تم سنتے ہی نہیں ۔ یہ فورٹ عباس تھا، ریگ زار کے کنارے ایک چھوٹا سا قصبہ ۔ پارٹی کے نوجوان صدر نے اس پر یہ کہا : دیسی مرغی تو میں نے ہارون الرشید کی وجہ سے پکائی ہے اور انہی کے کالم پڑھ کر میں تحریکِ انصاف میں شامل ہوا۔
جناب شفقت محمود کا میں شکر گزار ہوں ۔ کم از کم وہ اس شخص سے مختلف ہیں ، ڈھٹائی سے جس نے مجھ پر الزام لگایا کہ کچھ امیدواروں سے میں نے روپیہ لیا تھا، انہیں ٹکٹ نہ ملا تو ناراض ہوگیا۔ 45برس صحافت میں ، میں نے گزارے ہیں ۔ روپے پیسے کے معاملے میں میرے طرزِعمل سے لوگ واقف ہیں ۔ میرا کوئی دشمن بھی یہ الزام مجھ پر نہ لگا سکا۔ 
ادبار کے برسوں میں ، تحریکِ انصاف کی اتنی محدود سی مدد نہیں کی ، جس کا ذکر شائستگی کے ساتھ کیا گیا۔ جدید صحافت کی دو سو سالہ تاریخ میں کوئی واقعہ نہیں کہ 16برس تک تنِ تنہا ایک اخبار نویس نے ڈٹ کر ایک پارٹی کی مدد کی ہوگی ، جب کہ ساری صحافت اس کی مخالف یا غیر جانبدار ہو ۔ ہزاروں کارکن اس ناچیزکی وجہ سے شامل ہوئے۔ کارکن ہی نہیں ، لیڈر بھی ۔ کسی دن جاوید ہاشمی سے پوچھیے ۔ جہانگیر ترین اور ان کے گروپ سے ۔ اعظم سواتی سے کہ تین دن تک کون ان سے بات کرتا رہا ، جب نون لیگ کے لیڈروں کا وفد ان کے گھر میں براجمان تھا۔ 
جسٹس وجیہ الدین کی قیادت میں ایک کمیٹی بنا ئی جائے ۔ مالی خرابی تو دور کی بات ہے ، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کبھی کسی امیدوار سے ذرا سا ذاتی فائدہ بھی میں نے اٹھایا تو میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں ۔مالی فوائد بٹورنے کے خواہش مند تو پچھلے دو عشروںمیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ساتھ چمٹے رہے ۔ ادھر میں ان کی حمایت کرتا رہا، عبدالعلیم خان جنہیں ''کنگلے‘‘ کہا کرتے۔ 30اکتوبر 2011ء کے جلسے کے بعد جب ابن الوقتوں کے ٹولے دیوانہ وار اس کی صفوں میں گھس رہے تھے، میں نے کسی پارٹی عہدے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔ الزام لگانے والے کی بے حیائی پر تعجب نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور شفقت محمود کہاں تھے اور انہوں نے اس شخص کی زبان بند کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ جب جناب شفقت محمود پروپیگنڈے کی زد میں تھے تو کس نے ان کا دفاع کیا تھا؟ کون تھا جو ڈیڑھ عشرے تک کردار کشی کی مہمات کے مقابل ڈٹا رہا؟ کیا نجیب اور معزز لوگوںکا قرینہ یہی ہوتاہے ؟ 
2002ء میں عمران خان کی پارٹی بجھ گئی تھی ۔ ان کے لوگ تتّر بتّر تھے ۔ جنرل پرویز مشرف کی آئی ایس آئی نے ہر قابلِ ذکر امیدوار سے انہیں محروم کر دیاتھا ۔ فوراً بعد عراق پہ بمباری ہوئی تو میں نے احتجاجی جلوس کی تجویز دی ۔ اس وقت جب پُراسرار وجوہ کی بنا پر مولانا فضل الرحمن اس پر آمادہ نہ تھے اور متحدہ مجلسِ عمل بیچ چوراہے متذبذب کھڑی تھی ۔ اجلاس جاری تھا ، جب عمران خان نے میرے کان میںکہا: پارٹی کے پاس پیسہ نام کی کوئی چیز نہیں ۔ عرض کیا کہ جلوس کی وہ تیار ی کریں ، اخراجات کا میں ذمہ لیتا ہوں ۔ پارٹی کے کسی کارکن ، کسی لیڈر نے ایک روپیہ بھی عطا نہ کیا۔ ایک نہیں ، ایسے کتنے ہی واقعات ہیں ۔ خود ستائی کا پہلو نہ ہوتا تو میں تفصیل عرض کر دیتا۔ 
رہا ٹکٹ نہ دینے پر ناراضی کا سوال تو الیکشن کے دن کی نشریات دیکھ لیجئے ۔ بعض اخبار نویسوں نے صوبہ سرحد میں مولانا فضل الرحمن اور راولپنڈی میں عمران خان والی سیٹ پر نون لیگ کے امیدواروں کی برتری کا گانا گایا تو خاکسار نے کیا عرض کیا تھا؟ دھاندلی ہوئی تو اس پر کس نے آواز بلند کی ؟ مئی کے آخری ایّام میں ، لاہور دھوپ سے پگھل رہا تھا،کون تھا، شب تین بجے جو پنج ستارہ ہوٹل میں اپنے کمرے سے اٹھا اور اگلے دن دوپہر تک تارکول کی سڑک پہ پڑا رہا۔ کون تھا، بار بار اسلام آبادسے لاہور جا کر جو مظاہرین کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ خواجہ سعد رفیق نے جب یہ کہا کہ عمران خان اپنی پارٹی میں انہیں شامل کرنے کے لیے مرے جاتے تھے تو کس نے ان کے حق میں گواہی دی ؟ کیا ایک ناراض آدمی کا وتیرہ یہ ہوا کرتا ہے ؟ 
جناب شفقت محمود اور اسد عمر الیکشن کے نتائج قبول کرنے کا مشورہ دے رہے تھے ، کس نے ڈٹ جانے اور دھاندلی کے خلاف تحریک برپا کرنے پہ اصرار کیا تھا؟ 16برس تک تحریکِ انصاف کی غیر مشروط حمایت کر کے اس ناچیز نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ۔ اتنی ہی بڑی دوسری غلطی میں نہیں کرنا چاہتا کہ بے سبب اس پہ تنقید کرتا رہوں ۔ پختون خوا میں پٹواریوں کی رشوت خوری کا سدّباب کیا تو قصیدہ کس نے لکھا۔ ابتدا ہی میں عرض کر دیا تھا کہ کبھی پارٹی کا کوئی عہدہ قبول کروں گا اور نہ اقتدار میں شریک ہوں گا۔ اللہ کے فضل سے اس بارے میں کبھی میں ابہام اور التباس کا شکار نہ ہوا۔ قلق یہ تھا کہ موزوں تر امیدوار مستر د کر دیے گئے ۔ بے وقت الیکشن کرائے گئے اور اتنے بھدّے انداز میں کہ بعض مقامات پر جرائم پیشہ مسلط ہو گئے ۔ سپریم کورٹ سے فیصلہ صادر ہونے کے باوجود ، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ یقینی بنا دینے کے لیے تحریک نہ چلائی گئی ۔ چھ ماہ تک میں اصرار کرتا رہا کہ جو امیدوار یقینی ہیں ، انہیں ٹکٹ جاری کر دیا جائے مگر ایک نہ سنی گئی۔ این اے 174میں جب معزز اور معتبر رانا محبوب اختر کی بجائے ذوالفقار قریشی کو نامزد کیا گیا تو عرض کیا کہ آدمی کی بجائے آپ نے بوسکی کے ایک کرتے کو ٹکٹ دیا ہے ۔ 2008ء میں رانا محبوب اختر صرف تین سو ووٹوں سے ہارے تھے ۔حماقتوں کی حماقت یہ کہ اسّی فیصد پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ ہی موجود نہ تھے ۔ اللہ کے بندو، یہ بات تمہاری سمجھ میں کیو ںنہیں آتی کہ اگر میری بات کا کچھ اعتبار تھا تو اس لیے کہ میں سچ بولتا تھا۔اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں کھلی دھاندلی پر میں احتجاج نہ کرتا توکیا کچوکے دیتے ہوئے ضمیر کے ساتھ زندہ رہتا؟ 
احتساب کا مطالبہ کرنے والے کارکنوں کوشفقت محمودنے شرپسند کہا ہے ۔ جو کل لاہور میں اپنا اجتماع منعقد کرنے والے ہیں۔ ایک سیاسی رہنما کی بجائے ، یہ ایک ڈپٹی کمشنر کی زبان ہے۔ پرسوں پرلے روز پشاور میں ، ان کے اجلاس میں ناچیز موجود تھا۔ پارٹی کے خلاف انہوں نے بات کی اور نہ اپنے لیڈرکی مخالفت میں۔ کہا تو یہ کہا کہ جوابدہی کا ایک مربوط نظام نافذ کیا جائے۔ اعلان کیا کہ وہ پارٹی کا حصہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ، فارورڈ بلاک تک نہ بنائیں گے ۔ میں نے ان سے کہا : سچائی کافی نہیں ہوتی بلکہ صبر اور خلوص بھی ۔ ایسا ایک الزام بھی انہیں عائد نہ کرنا چاہیے، جس کا ثبوت نہ ہو ۔ شفقت محمود یہ کہتے ہیں کہ پارٹی قیادت سے میں نے رابطہ کیا ہوتا۔مئی 2013ء میں تنقید کا اوّلین جملہ کہنے کے بعد کبھی کسی تقریب میں مجھے مدعو نہ کیا گیا۔ مکمل طور پر بائیکاٹ کر دیا گیا۔ کس سے میں رابطہ کرتا؟ اس شخص سے ، جو یہ کہتا ہے کہ میںنے امیدواروں سے رقم اینٹھی تھی؟متوقع امیدوار وں سے کیا پنجاب اور مرکز کی حکومتوں سے زیادہ مالی فائدہ اٹھایا جا سکتاہے، جن کے بعض لیڈر منّت سماجت کرتے رہے ؟ 
افسوس کہ تحریکِ انصاف دوسری پارٹیوں ایسی ایک پارٹی بن چکی۔ اگر وہ اپنی اصلاح نہ کر سکی اور اسی حال میں برسرِ اقتدار آگئی تو تباہی لائے گی ۔ مایوسی اور بڑھے گی ۔ نون لیگ کی کردار کشی کی مہم میں بھگتا چکا۔ اب تحریکِ انصاف یہ ہنر آزما لے ۔
صبر انہیں کیسے نصیب ہو کہ ادراک ہی نہیں ۔ اضطراب اتناہی ہوا کرتاہے ، جتنا کہ آدمی سچائی سے دور ہو ۔ احساس ہی نہیں کہ غلطی سے نہیں ، انسان غلطی پر اصرار سے تباہ ہوا کرتے ہیں ۔ بہت سے رازوں کا میں امین ہوں لیکن زیادہ حدّ ادب! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved