تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     09-02-2014

قوم کے سپوتوں کو سلام!

لگتا ہے قومی اسمبلی میں لطیفے چل رہے ہیں ۔ روزانہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ سر دھننے کو جی چاہتا ہے۔ سپیکر ایازصادق ایم این ایز کی منتیں کرتے رہے کہ مہربانی فرما کے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں قائم ایف بی آر کے دفتر میں ٹیکس ریٹرن فارم جمع کرادیں۔ کچھ ہنس دیے کہ انہوں نے اپنے ریٹرن فارم میں کون سا یہ بتانا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کوکروڑوں روپے کا قرض حسنہ دے رکھا ہے؛ چنانچہ آخری تاریخ گزرنے کے بعدمعلوم ہوا کہ 422 پارلیمنٹیرینز نے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔ وہ کیوں جمع کرائیں جبکہ ان کی تنخواہیں، مراعات، فری پی آئی اے ٹکٹ، گاڑیاں اور دوسری سہولتیں جاری ہیں اور رہیں گی۔ وہ جانتے ہیں، ایف بی آر ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لگتا ہے ملک میں صرف آٹھ لاکھ افرادکی آمدنی پانچ لاکھ روپے سالانہ ہے۔ 
اللہ عمر دراز کرے سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی، جو جاتے جاتے اپنی مرزا شوگر مل کا 87 کروڑ روپے کا قرضہ معاف کراگئیں۔ فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس میں ایم این ایزکے الائونسز بھی ڈیڑھ لاکھ سے بڑھاکر تین لاکھ روپے کر دیے گئے۔ اور ہاں فہمیدہ مرزا کی نئی پروٹوکول گاڑی پر 46 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے، امریکہ میں فہمیدہ مرزا کے علاج پر بھی حکومت نے چالیس لاکھ روپے ادا کیے تھے۔ کے آر ایل ہسپتال کے پی آراو شمعون ہاشمی کوگریڈ سترہ سے اٹھاکر راتوں رات قومی اسمبلی میں بیسویں گریڈ میں دنیا کا کم عمر ترین جوائنٹ سیکرٹری لگانے کا اعزاز بھی فہمیدہ مرزا کے کھاتے میں تھا۔ 
سپیکرایازصادق نے جو سلوک بلوچستان سے آنے والی واحد خاتون افسر رومانہ کاکڑ کے ساتھ روارکھا، وہ ایک ایسی کہانی ہے جو اگر پوری تفصیل سے بتائی جائے تو سب کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ لگتا ہے کہ وہ پنجاب بلکہ لاہور کے سوا کسی علاقے کے فرد کواعلیٰ عہدے پر نہیں دیکھ سکتے۔اور سن لیجیے، زرعی ترقیاتی بنک کے لیے جو نیا سربراہ چنا جارہا ہے وہ نہ صرف کشمیری ہے بلکہ دبئی میں حکمرانوں کی بڑی خدمت کرتا رہا ہے۔ 
اور سنیے ، وزیراعظم چولستان تشریف لے جاتے ہیں اور رات بھر موسیقی کی محفل سجائی جاتی ہے، لاہور سے گلوکار اور فنکار بلائے جاتے ہیں۔کچھ دن پہلے انہی کالموںمیں بتایا گیا تھاکہ چولستان میں 75 غیررسمی سکول بند ہونے والے ہیں کیونکہ ان کے لیے کوئی فنڈ نہیں رکھاگیا۔ہزاروں چولستانی بچے تعلیم سے محروم ہونے والے ہیں اور میاں صاحب وہاں سہانی رات میں محفل موسیقی سجاتے ہیں۔ ان کی سکیورٹی کے لیے چار ہزار پولیس اہلکاربلائے گئے تھے۔ یہ ہے ہماری حکمران کریسی کا کمال! بیوروکریسی سیکھ چکی ہے کہ لوگوں کوکیسے بیوقوف بنانا ہے۔ 
انفارمیشن گروپ کی ڈی جی ریڈیو پاکستان ثمینہ پرویز نے ایک کمپنی پچیس نومبرکو رجسٹرکرائی اور چھ دسمبر کواسے کروڑوں روپے کی ڈیل دے دی۔ میں نے سٹوری فائل کی تو میرے ادارے کو خط لکھ دیا کہ یہ جھوٹ لکھ رہے ہیں ، یہ تو پاکستانی تاریخ کی شفاف ترین ڈیل ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل سے انکوائری کرائی جس کی رپورٹ سے پتاچلاکہ ثمینہ پرویز نے اس ڈیل میں ایک نہیں تیرہ جھوٹ بول کر یہ ڈیل اپنی پارٹی کو دی۔ اب بتایئے، جھوٹ کون بول رہا تھا ؟ 
وزیراطلاعات پرویز رشید نے یہ سکینڈل سامنے آنے پر بڑے جوش سے مجھے فون کرکے فرمایا کہ اڑتالیس گھنٹوں میں رپورٹ منگوائی ہے ،دیکھیے گا کیسے گڈگورننس کی نئی مثال قائم کی جاتی ہے۔ خالد سرورکی انکوائری رپورٹ ایک ماہ سے پرویز رشید صاحب کی میز پر دھول چاٹ رہی ہے،ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سنا ہے، وزیرمحترم نے اپنے سیکرٹری سے کہا ہے کہ کچھ کریں۔ مگرسیکرٹری کچھ کیسے کریں کیونکہ کہانی کی نئی پرت یہ کھل رہی ہے کہ ریڈیو پاکستان پر کروڑوں روپے کا یہ ڈاکہ انہی سیکرٹری کے کہنے پر ہی مارا جارہا تھا۔کیا پرویز رشید صاحب صرف ٹی وی چینل پر ہی دعوے کر سکتے ہیں،اپنے دفتر میں ان کی نہیں چلتی؟ ابھی تو میں نے یہ سکینڈل فائل نہیں کیا کہ کیسے ڈی جی ریڈیو ثمینہ پرویز کے خلاف پاکستانی سفیر نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھا تھا کہ انہیں اگلے گریڈ میں کیسے ترقی دی گئی تھی کیونکہ ان کی رپورٹ پرانہوں نے بری کارگردگی کی وجہ سے دستخط بھی نہیں کیے تھے۔ پتا چلا کہ انفارمیشن گروپ کے افسران نے مل کر ایک نیا کھیل کھیلا تھا۔ جب انکوائری شروع ہوئی تو اسے بھی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں دبوا دیا گیا اور نہ صرف ترقی دلوائی گئی بلکہ دوستوں نے ثمینہ پرویزکو نگران حکومت میں ڈی جی ریڈیو بھی تعینات کرادیا؛ حالانکہ چند سمجھداروں نے وزارت اطلاعات کے سینئر افسران کو سمجھایا تھا کہ یہ ظلم نہ کریں کیونکہ موصوفہ کی قابلیت اتنے بڑے قومی ادارے کو چلانے کی نہیں ہے۔ 
فارن آفس کے بابوئوں کی داستان بھی سن لیں۔ میرے دوست خواجہ زاہد نے میری توجہ ایک سوال کی طرف دلوائی۔۔۔ ایم این اے نفیسہ شاہ نے ایک سوال میں پوچھا تھا کہ کیا سعودی عرب سے پاکستانی ورکرز کو نکال کر واپس بھیج دیا گیا ہے؟اس کی تفصیل دیں۔ اس سوال کے جواب میں وزیرخارجہ نے فرمایا کہ ان کے ''قابل اعتماد ذرائع‘‘ کے مطابق 56000 پاکستانی واپس بھیج دیے گئے ہیں۔ شاید آپ نے غور نہیں فرمایا، وزیرخارجہ فرماتے ہیں ''قابل اعتماد ذرائع‘‘ کے مطابق ! کیا حکومت کے پاس مصدقہ اعداد وشمار نہیں تھے کہ صحافیوںکی طرح فارن آفس ''قابل اعتمادذرائع‘‘ کا حوالہ دے رہا ہے۔ یقینا جس بابو نے اس سوال کا جواب لکھاہوگااس نے کسی اخبار سے یہ رپورٹ اٹھائی ہوگی۔ کیا فارن آفس کے بابوئوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ پاکستان کے اس ملک میں واقع سفارت خانے یا ایئرپورٹ سے امیگریشن کائونٹر سے یہ اعداد وشمار لے کر اوران کا حوالہ دے کر اپنی بات میں وزن پیدا کرتے؟ 
ایک اور سوال کا جواب بھی سن لیں ۔ ایم این اے بیلم حسنین نے پوچھا تھا کہ حکومت پاکستان نے لائن آف کنٹرول پربھارت کی طرف سے دیوار بنانے کے حوالے سے کیا اقدامات کیے ہیں؟فارن آفس کے بابوکا تحریرکردہ جواب سنیں ، فرماتے ہیں کہ ''میڈیا رپورٹس‘‘ کے مطابق۔۔۔ غور فرمائیں۔۔۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نے دس میٹراونچی کنکریٹ کی دیوارتعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو 179کلومیٹر طویل ہوگی تاہم ابھی اس پرکام شروع نہیں ہوا۔ 
اندازہ فرمائیں کہ فارن آفس کیسے چل رہا ہے ؟اتنے اہم معاملے پر میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیا جارہا ہے۔کتنا آسان کام ہے، سارا دن اخبارات پڑھو یا ٹی وی دیکھو،خبروں کی کٹنگ کر کے اور پیسٹ کر کے ایک فائل تیارکرو اور جب قومی اسمبلی میں سوال پوچھا جائے تو فائل نکال کر ویسے ہی پیسٹ کردو۔ اور تو اور‘ خبر میں لکھے گئے قابل اعتماد ذرائع بھی ویسے ہی جانے دو۔ اسمبلی میں بھلا کون دیکھتا یا پڑھتا ہے، سب حاضری لگوا کر اپنی تنخواہ، مراعات اور الائونس کے لیے آتے ہیں۔ اگر انہیں بتادیا جائے کہ انہیں گھر بیٹھے تنخواہ، الائونس ، پی آئی اے کے درجنوں فری ٹکٹ، اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز ملتے رہیں گے تو یہ لوگ کبھی قومی اسمبلی نہ جائیں۔ 
اگر قومی اسمبلی میں سوالات کے جوابات ''میڈیا کی رپورٹس‘‘ اور ''قابل اعتماد ذرائع‘‘ کی بنیاد پر ہی دینے ہیں تو فارن آفس بند کردیں تاکہ یہ قوم جو دنیا بھر سے ڈالروں میں قرضہ لے کر ان کی شہ خرچیاں پوری کر رہی ہے، ان سے تو نجات ملے۔ 
چولستان کے سرد صحرا میں محفل موسیقی سے لطف اندوز ہونے والے حکمرانوں‘ فارن آفس کے بابوئوں کے ''قابل اعتماد ذرائع‘‘ اور ریڈیو پاکستان کے کروڑوں پر ڈاکے مارنے والے انفارمیشن گروپ اور 422 ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے والے قوم کے بہادر سپوتوں کو سلام۔۔۔!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved