تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-02-2014

گانے والے اور محض ہونٹ ہلانے والے

ایک شخص ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اونٹ اور بکری لے کر آیا اور انتظامیہ سے کہا کہ یہ دونوں گانا بہت اچھا گاتے ہیں‘ آپ کو ان کا گانا پسند آ جائے تو اپنے مہمانوں کے تفنن طبع کے لیے انہیں خرید سکتے ہیں۔ ہوٹل والوں نے اس پر حیرت اور دلچسپی کا اظہار کیا اور ہوٹل میں ٹھہرے جملہ مہمانوں کو بڑے ہال میں اکٹھا کر لیا۔ اونٹ اور بکری کو سٹیج پر لایا گیا‘ جہاں انہوں نے ایسا گانا گایا کہ پورا ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ انتظامیہ نے اس جوڑے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی اور مختصر بھائو تائو کے بعد دونوں جانور خرید لیے۔ ہوٹل سے جاتے ہوئے وہ شخص بولا: سودا ہو چکا ہے اور میں رقم بھی وصول کر چکا ہوں لیکن دیانتداری کے تقاضے کے تحت ایک بات آپ لوگوں کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ گانا بکری گاتی ہے ‘ اونٹ ساتھ ساتھ صرف ہونٹ ہلاتا جاتا ہے۔ 
مذاکرات کے لیے فریقین کی طے کردہ کمیٹیوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں اصل گانے والا کون ہو گا اور محض ہونٹ کون کون ہلائے گا جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے اختیارات کے بارے میں بھی لاعلم بلکہ مشکوک ہیں۔ اگرچہ برف کے ٹوٹنے پر خوشیاں تو بہت منائی جا رہی ہیں لیکن اسے محض ابتدائی پیش رفت ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ طالبان کی طرف سے شرائط کا اظہار ابھی ہونا ہے جن کا یا تو اندازہ نہیں کیا گیا یا انتہائی سادہ دلی سے کام لیا گیا ہے‘ مثلاً مذاکرات شورش زدہ علاقوں تک محدود ہوں گے‘ پورے ملک کا احاطہ نہیں کریں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ 
اسے زیادہ سے زیادہ تجاہلِ عارفانہ ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ طالبان شروع ہی سے پورے پاکستان کی بات کر رہے ہیں‘ اور اگر شورش زدہ علاقوں والی بات بھی مان لی جائے تو اس میں بھی اِلّا ماشااللہ پورا پاکستان ہی آتا ہے کیونکہ جس امن و امان کی دہائی دی جا رہی ہے وہ تو پورے پاکستان ہی سے مفقود ہے‘ جس میں بھتہ خوری کا عنصر بھی ہے جو صرف کراچی ہی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پنجاب اور اسلام آباد تک زور و شور سے رائج ہو چکا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ شریعت‘ شورش زدہ علاقوں ہی میں نہیں ‘پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ نہ وہ جمہوری نظام کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے نزدیک شریعت نافذ ہے جبکہ شریعت کے عدم نفاذ پر اکثر دینی جماعتیں بھی مکمل طور پر ان کی ہم نوا ہیں‘ کیونکہ ان کے نقطۂ نظر کے مطابق ملک میں شریعت کا نفاذ محض کاغذی اور زبانی کلامی ہے اور حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ملک کا ماحول ہی کسی طور اسلامی نظر نہیں آتا اور بہت سے معاملات پر شریعت سے واضح پہلوتہی کی جا رہی ہے جبکہ شریعت کورٹ سے بھی خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں ہو رہے‘ نہ ہی سزائے موت کے کسی مجرم کو پھانسی دی جاتی ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو جو کچھ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے‘ اس سے بڑا فراڈ کسی قوم کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا‘ حتیٰ کہ معیشت میں اسلام کے سب سے بڑے اصول مساوات کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا اور ملک کے سارے وسائل ایک یا دو فیصد اشرافیہ کی دستبرد میں ہیں۔ اسی نظام کی وجہ سے ملک عزیز میں روز بروز امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ شہنشاہوں کے ملکی اور بیرون ملکی اثاثوں کا کوئی شمار ہی نہیں اور لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں یا اپنے بچے بیچنے پر۔ یہ وہ اسلامی معاشرہ ہے جو ہماری اسلامی مملکت میں اب تک قائم ہو سکا ہے۔ 
اس کے علاوہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ بھی ہے جس کا وہ پُرزور مطالبہ کریں گے اور جن میں ان کے کئی اہم رہنما بھی شامل ہیں جن پر دہشت گردی کے بڑے بڑے الزام ہیں اور جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں چھوڑ دیا گیا تو مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں وہ دوبارہ اسی کام پر لگ جائیں گے؛ چنانچہ مطالبات سامنے آنے پر ہی معلوم ہو گا کہ ان کی نوعیت اور تعداد کیا ہے اور حکومت ان میں سے کسی کو تسلیم کر بھی سکتی ہے یا نہیں۔ حکومت کا بنیادی مسئلہ امن و امان کی بحالی ہے جو طالبان کا ہرگز نہیں ہے‘ اپنی شرائط منوائے بغیر۔ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ طالبان محض فراخ دلی اور سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں بند کر دیں گے تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ 
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت‘ بلکہ طالبان بھی‘ مذاکرات کی آڑ میں‘ اپنی اپنی تیاری کے سلسلے میں وقت حاصل کرنا چاہتے ہوں اور یہ سارا کچھ محض اتمامِ حجت ہی کے طور پر ہو رہا ہو اور ناکامی کی صورت میں کچھ عرصے بعد حکومت آپریشن کے آپشن کی طرف رجوع کرے۔ صورتحال جو بھی سامنے آئے محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک کو انتہائی مشکل صورتِ حال سے گزرنا ہوگا جس کا دورانیہ طویل بھی ہو سکتا ہے اور خون خرابے کی یہ آگ اپنی ساری حدوں کو توڑ کر پورے ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ حکومت اگر شورش زدہ مقام فاٹا تک ہی طالبان کی رٹ تسلیم کر لیتی ہے‘ جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر وہ وہاں اپنا شرعی نظام نافذ کر لیتے ہیں تو بھی وقتی طور پر ہی امن و امان کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے جبکہ اس حوصلہ افزائی کے بعد ہل من مزید کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ اوّل تو طالبان کے سارے دھڑوں کا یکجا ہونا ہی ایک امر محال ہے۔ علاوہ ازیں بات صرف طالبان ہی تک محدود نہیں بلکہ ان غیرملکی عناصر کی بھی ہے جو اس لاغر حکومت نیز بدنصیب ملک کی سلامتی ہی کے در پے ہیں؛ چنانچہ راوی اس بارے میں چین ہرگز نہیں لکھتا۔ 
یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ طالبان کمیٹی کے ایک اہم رکن مولانا عبدالعزیز نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ آئین پاکستان کے اندر رہ کر یہ مذاکرات ممکن نہیں اور وہ حکومتی کمیٹی کے اس فیصلے سے متفق نہیں کہ اس کے دائرے کے اندر رہ کر ہی مذاکرات کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور یہ کہ جب تک شریعت کے حدود میں رہ کر مذاکرات کا اعلان یا اس پر رضامندی ظاہر نہیں کی جاتی وہ اس کمیٹی میں نہیں بیٹھیں گے اور انہوں نے حکومتی کمیٹی کو اس سے آگاہ بھی کر دیا ہے۔ اگرچہ پہلے دن جب ابتدائی معاملات طے ہوئے تھے تو اس وقت مولانا موصوف نے اپنا یہ نقطۂ اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔ اس کے علاوہ پہلے جب کبھی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے‘ کبھی طالبان کی طرف سے یہ شرط عائد نہیں کی گئی اور جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ فریق پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہے جو بجائے خود ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ طالبان کی طرف سے ایک نیا مطالبہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ اس مرحلے پر وزیر اعظم‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے دُوبدو ملاقات کرنا چاہیں گے۔ واضح رہے کہ طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے ان مطالبات کی تصدیق بھی کر دی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے تو یہ جنگ شروع ہی نفاذِ شریعت کے لیے کی تھی۔ 
چنانچہ یہ سلسلہ جاری ہوتا اور بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ عسکری حلقوں نے بھی اس نئے مطالبے پر اپنی رضامندی کا اظہار نہیں کیا جبکہ مولانا عبدالعزیز کے بقول انہوں نے حکومتی کمیٹی کو اس صورت حال سے آگاہ بھی کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں واضح حکومتی موقف انہی دنوں ظاہر کر دیا جائے گا؛ چنانچہ حکومت اگر اس سلسلے میں واقعی سنجیدہ ہے اور مذاکرات کو اس ابتدائی سطح پر ٹوٹنے سے بچانا چاہتی ہے تو یہ درمیانی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ وہ آئین پاکستان کو شریعت کے عین مطابق بنانے پر تیار ہو جائے اور اس میں جو جو شقیں خلافِ شریعت ہیں‘ وہ نکالنے پر رضامند ہو جائے جو ظاہر ہے کہ ایک بھرپور مباحثے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے‘ حالانکہ اس آئین پر مولانا مفتی محمود جیسے جید علماء کے دستخط بھی موجود ہیں۔ مزید برآں طالبان وزیر اعظم‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ملاقات کے مطالبے سے (فی الحال) دستکش بھی ہو سکتے ہیں۔ وما علینا الاّلبلاغ۔ 
آج کا مقطع 
پار جو ہوتا نہیں دریا ہے وہ میرا‘ ظفرؔ 
در نہیں جس میں‘ وہ میرے نام کی دیوار ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved