تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     09-02-2014

سزا

وہ یقیناً قسمت کا دھنی تھا جب وقت کے حکمران نے اُسے فوج کا سپہ سالار بنایا، وہ قواعد و ضوابط اور سنیارٹی لسٹ کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر تھا لیکن وہ دنیا کی بہترین فوج کا آرمی چیف مقرر ہوا۔ اس نے 12 اکتوبر 1999ء کو عوام کی منتخب حکومت کو چلتا کیا‘ ملک کا آئین معطل کیا اور مارشل لاء لگا دیا، اس اقدام پر اُسے پاکستان کے عوام کی طرف سے ایک خاموش حمایت ملی۔ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا تو بھی اُسے عوام کی طرف کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یوں وہ بلا شرکت غیرے ایک مطلق العنان حکمران بن بیٹھا۔ چودھری شجاعت جیسے گھاگ اور جہاندیدہ سیاستدانوں کو اپنی ایک جیب میں ڈالا اور دوسری میں مولانا فضل الرحمٰن جیسے علماء کو اور یوں ایک جانب مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی اور دوسری جانب ایم ایم اے کو مضبوط کیا۔ نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی اسمبلیاں وجود میں آئیں، 17ویں ترمیم کی قینچی سے آئین میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کیں اور آئین معطل کرنے سے متعلق اپنے اقدام کو قانونی چھتری مہیا کر دی۔ آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ اپنے آپ کو ملک کا آئینی صدر بنا لیا۔ گویا آئین کی ناک کو جس طرف چاہا اپنی مرضی سے موڑ لیا۔ آئین معطل کرنے والے نے قومی اسمبلی‘ سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کر لیا کیونکہ یہ ''آئینی ادارے‘‘ مشرف ہی کے ٹیکسال سے نکلے ہوئے سکے تھے۔ پھر ایک اور صدارتی آرڈیننس کے 
ذریعے اپنے دونوں عہدوں کی مدت 2007ء تک بڑھا لی۔ مطلق العنانیت اور فرعونیت کے خمار میں ججوں کو گرفتار کیا‘ چیف جسٹس کو نکال باہر کیا، حکومتی اہلکاروں نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو سر بازار کوٹ کے کالر سے پکڑ کر کھینچا تانی کی، یہ منظر براہِ راست پوری قوم نے دیکھا۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے معزز اور قابلِ قدر سائنسدان عبدالقدیر خان کی ڈی بریفنگ بھی اسی ڈکٹیٹر کا کارنامہ ہے۔ اس جذباتی صدمے سے محسن پاکستان آج بھی سنبھل نہیں پائے۔ یہی ڈکٹیٹر ببانگ دہل کہا کرتا تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر اب پاکستان کبھی نہیں آئیں گے۔ پھر 3 نومبر کو آئین ایک بار پھر معطل کر دیا۔ اس بار سرکاری ٹی وی پر فوج کی نگرانی میں پروگرام نشر ہوئے اور نجی ٹی وی چینلز کو ڈکٹیٹر کے حکم سے آف ایئر کر دیا گیا، صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ غرض‘ ایل ایف او سے لے کر این آر او تک اس ڈکٹیٹر نے جو چاہا وہ کیا، جس طرح چاہا آئین پاکستان کو تبدیل کیا۔ ہر ترمیم ڈکٹیٹر کی مطلق العنانیت کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرتی رہی۔ پھر 2008ء کے الیکشن سے منظر تو بدلا مگر ڈکٹیٹر اپنی جگہ جما رہا؛ تاہم اب اُس کی حکمرانی کی شام ہو چکی تھی اور زوال کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود ڈکٹیٹر کا لہجہ پہلے جیسا ہی 
تھا، ناگزیر ہونے کے احساس نے اسے ایک خمار میں مبتلا کر رکھا تھا۔ شاید یہی وہ احساس تھا جو اُسے چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی میں بار بار ہوتا رہا کہ اُس کا وجود پاکستان کے لیے ناگزیر ہے، اس لیے اُسے بہرصورت واپس پاکستان جانا ہے۔ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران اُس نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنا لی جسے کچھ ہمنوا مِل گئے، خوشامدیوں نے اس کے گرد ایسا گھیرا ڈالا کہ اس کی عقل و فہم کی ساری قوتیں سلب ہو گئیں۔ مشرف نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا، 23 مارچ 2013ء کو ان کی وطن واپسی ہوئی، الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اور 18 اپریل 2013ء کو چترال ٹربیونل نے سابق صدر مشرف کو الیکشن کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ اس کے بعد مشرف پر فرد جُرم عائد ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آئین کی معطلی‘ آئین سے غداری، بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کا قتل‘ لال مسجد کی ہلاکتیں، لاپتہ افراد کا کیس۔۔۔گویا ایک پنڈورا باکس کھل گیا۔ اب مشرف کے قانونی مشیروں کا ایک گروہ اعلیٰ عدالت میں جا کر قانونی موشگافیوں کے ذریعے اپنے موکل کا کیس لڑتا ہے، بات سے بات اور نکتے سے نکتہ نکالا جاتا ہے۔ بیسیوں بار قوم سے خطاب کرتے ہوئے مشرف نے بہادرانہ انداز میں مکا لہرایا، کئی بار کہا ''میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں‘‘ مگر دنیا نے دیکھا کہ کل کا مطلق العنان حکمران عدالت جاتے ہوئے راستے میں شدید نفسیاتی دبائو کا شکار ہوا اور آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جا پہنچا۔ عدالت اور مشرف کے قانونی مشیروں کے درمیان بات اس نکتے پر آ کر ٹھہر گئی ہے کہ ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ 7 فروری کی سماعت میں عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو 18 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کی آخری مہلت دی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر اس دن بھی پیش نہ ہوئے تو ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے جائیں گے۔ 10 سال تک ملک پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والا بہادر جنرل اب ایک نامزد ملزم کی حیثیت سے لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ دنیا میں اپنی گفتگو کی دھاک بٹھانے والا پرویز مشرف خاموش ہے اور ہسپتال کے ایک وی آئی پی کمرے میں شدید نفسیاتی دبائو کا شکار‘ جسمانی عوارض میں مبتلا‘ ایسا مریض ہے جو عدالت میں پیشی سے بچنے کے لیے ہسپتال میں پناہ لیے بیٹھا ہے۔ جس وزیر اعظم کا تختہ چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے مشرف نے الٹا تھا‘ وہ آج تیسری بار ملک کا منتخب وزیر اعظم ہے۔ سانحہ لال مسجد میں تباہ و برباد ہونے والے خاندان کا حصہ مولانا عبدالعزیز آج اس ملک کے اہم ترین مسئلے کے حل کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کا ایک رُکن ہے۔ اگرچہ وہ کمیٹی سے اختلاف کر کے رکنیت چھوڑ چکے ہیں، اس کے باوجود آج وہ اپنے سکول آف تھاٹ کی ایک اہم آواز ہے، جبکہ مشرف اپنے ہی اعمال کے بوجھ تلے دبا ہوا ایک ایسا شخص ہے جسے قدرت نے اتنا عروج دیا کہ 18 کروڑ پاکستانیوں کا حکمران بنا۔ اُسے تقدیر نے مہلت دی کہ وہ غربت‘ کرپشن اور مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کی مسیحائی کرے لیکن وہ خودکو ہی خدا سمجھ بیٹھا اور بقول یگانہ ''خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا‘‘ والی بدقسمتی کا شکار ہو گیا۔ یہ بدقسمتی اس کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہی ہے۔ کیا لال مسجدکی طالبات پر گولیاں برسانے والا پرویز مشرف آج اپنے ضمیر کا قیدی نہیں ہو گیا۔ وقت نے ایک عجیب پلٹا کھایا ہے، کل مشرف نے نواز شریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا اور آج 14 سال بعد وہ غداری کیس میں عدالت کو مطلوب ملزم ہے اور نواز شریف وزیر اعظم۔ ٹوٹے بکھرتے ہوئے اعصاب کے ساتھ ایک بھگوڑے ملزم کی حیثیت سے وہ ہسپتال میں چھپا ہوا کل کا ڈکٹیٹر جو سزا کاٹ رہا ہے کیا وہ کسی عذاب سے کم ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved