تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     10-02-2014

بے نیاز‘ نیاز صاحب

یوں تو اس دفتر کی ترتیب کو بدلے ہوئے ایک عرصہ ہو چکا۔ ایک انتہائی جدید عمارت میں حسنِ ترتیب کے ساتھ رکھی ہوئی کتابیں‘ جن کے ایک جانب اوپر والی منزل کو جاتا ہوا زینہ‘ جسے طے کر کے کسی بڑے کارپوریٹ آفس کی طرح بارعب دروازے کے پیچھے ایک طویل و عریض میز اور کونے پر خوبصورت صوفہ سیٹ‘ لیکن میری آنکھوں میں آج بھی وہی منظر گھومتا رہتا ہے جس میں کتابوں سے بھرا ایک بڑا سا ہال جس کے ایک حصے میں درویش کے تکیے کی طرح ایک پنڈال جس میں اس فقیر صفت انسان کے اردگرد اس شہر کے صاحبانِ علم و دانش میں سے کوئی نہ کوئی شخص ضرور مل جاتا تھا۔ پاک ٹی ہائوس کو اجڑے ایک عرصہ ہو گیا تھا لیکن یہ ڈیرہ ان کی صحت تک آباد رہا۔ ایک مقناطیسی شخصیت جس کے سحر سے نکلنا کسی حصار میں آئے شخص کے لیے ناممکن تھا۔ میں نے جب لاہور کو خیرباد کہا اس وقت لاہور کی ادبی دنیا بہت آباد تھی۔ علم کی پیاس میں طلب کی راہ پر چلتے افراد کے لیے کیا کیا ٹھکانے تھے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا فنون‘ ریڈیو پاکستان کی کینٹین‘ لارڈز ہوٹل کے سامنے سڑک پر رکھی کرسیاں‘ شورش کاشمیری کا چٹان‘ انڈس ہوٹل‘ چائنیز لنچ ہوم‘ مال روڈ کا شیزان‘ ٹولنٹن مارکیٹ کا کیپری‘ لکشمی چوک میں بھیگتی رات کی محفلیں‘ نسبت روڈ کے چائے خانے‘ وائی ایم سی اے کے کمرے میں حلقۂ اربابِ ذوق اور سب سے بڑھ کر پاک ٹی ہائوس۔ مال روڈ کے ایک کونے سے چلنا شروع ہوں تو دائیں بائیں کتابوں کی اتنی دکانیں کہ ان میں ٹھہرتے‘ کتابیں دیکھتے گھنٹے بیت جائیں۔ یہ آج سے 34 سال پہلے کا لاہور تھا کہ مارچ 1980ء میں‘ میں بلوچستان یونیورسٹی میں تدریس کے لیے چلا گیا۔ اس کے بعد ہر سال جب بھی لاہور آتا کوئی نہ کوئی ٹھکانہ اجڑا ہوا نظر آتا‘ لیکن ایک فرد کے تکیے‘ محفل اور رونق میں دن بدن وسعت ہی ہوتی رہی اور وہ تھا نیاز صاحب کا سنگ میل۔ بلوچستان کے چوبیس سالہ قیام کے دوران میری ان سے ملاقاتیں محدود لیکن ان کا تاثر لامحدود تھا۔ ان سے اکثر ملاقاتیں کشور ناہید کے اقبال ٹائون والے گھر میں ہوئیں جہاں میرے لاہور آنے پر کشور شہر بھر کے ادیبوں شاعروں کو جمع کر لیتی۔ کون تھا جو اس محفل میں نہ آتا۔ میرے جیسے ''رجعت پسند‘‘ بھی اور خالصتاً دہریئے بھی لیکن نیاز صاحب کی مسکراتی شخصیت ان محفلوں میں دونوں شدت پسند انتہائوں کے درمیان ایک مرنجاں مرنج صوفی کی طرح موجود ہوتی۔ اس ہجوم میں نیاز صاحب ہنگامۂ ہائے شوق سے بے نیاز ان سب کو اپنی اپنی انائوں میں مست دنیا جہان کے مسائل پر تبصرہ کرتے‘ ان کا حل نکالتے دیکھتے رہتے۔ ان محفلوں میں ان کا قیام بھی اکثر مختصر سا ہوتا۔ وہ چلے جاتے تو محفل کے عین شباب میں ان کا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا تو وہ نظر نہ آتے۔ ایسے میں کبھی کبھی مجھے یہ احساس ہوتا کہ وہ گفتگو کی تلخی اور محفل کے شباب سے دور بھاگتے ہیں لیکن جب کبھی ان سے اکیلے ملنے کا اتفاق ہوا‘ ان کی گفتگو کا رس کانوں میں گھلتا چلا جاتا۔ میرے لیے یہ بہت عجیب تجربہ ہوتا۔ ایک خالصتاً کاروباری پبلشر لیکن سارے کا سارا رکھ رکھائو ایک ملامتی صوفی والا۔ کہیں کسی پر یہ کھل نہ جائے کہ وہ لوگوں کی پریشانیوں پر بے تاب ہو کر کیسے ان کی مدد کو نکل کھڑے ہوتے ہیں اور پھر ان کے اردگرد تو لوگ بھی ادیب‘ شاعر‘ افسانہ نگار تھے‘ جنہوں نے اپنے اردگرد بیش بہا ضروریات ہی لپیٹی ہوتی ہیں۔ 
میں ان کے سنگ میل پبلیکیشنز تک کے سارے سفر سے بہت دور رہا ہوں‘ لیکن گزشتہ دس سال میں ان کے ادارے کا ایک ایک لمحہ میری آنکھوں پر ثبت ہے۔ مجھے نہیں علم کہ انہوں نے کتنی محنت سے اپنی کسمپرسی میں اس انتھک محنت والے کام میں ہاتھ ڈالا ہوگا۔ کام بھی ایسا کہ جس کی قدرو قیمت وقت کے ساتھ اس بے حس معاشرے میں کم ہو رہی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ اگر کسی ادیب یا شاعر کی کتاب چھپ جاتی تو یہ اس پر پبلشر کا ایک احسان ہوتا لیکن نیاز صاحب نے اس رسم کو بالکل الٹ کر رکھ دیا۔ ان کے نزدیک کوئی ادیب یا شاعر اگر انہیں کتاب چھاپنے کے لیے کہتا ہے تو وہ ان پر اور ان کے ادارے پر احسان کر رہا ہوتا۔ جس زمانے میں انہوں نے ادیبوں کو رائلٹی دینے کی رسم ڈالی‘ اس دور میں ایسی خبریں کسی دور دیس سے آیا کرتی تھیں کہ کسی ادیب‘ شاعر یا مصنف کو کتاب لکھنے اور چھپنے کے بعد اتنا معاوضہ مل جاتا ہے کہ وہ چین کی زندگی گزار سکتا ہے۔ مدتوں ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ رہے‘ بلکہ آج بھی زندہ ہیں جہاں کتاب کی اشاعت کے دوران کاغذ ڈھونے والے‘ اسے پریس مشین میں ڈالنے والے‘ کتاب کی جلد کرنے والے‘ اس کی کتابت اور تزئین و آرائش کرنے والے یہاں تک کہ اسے گاڑی میں رکھ کر بک سٹالوں پر پہنچانے والے سب افراد کو ان کی محنت کے مساوی معاوضہ دیا جاتا ہے جبکہ وہ جس کے خونِ جگر کی آمیزش سے یہ تحریر وجود میں آئی تھی اسے معاوضہ نہیں ملتا۔ یہی المیہ مدتوں اخبارات اور ادبی رسالوں کا رہا ہے۔ ان کے چھاپنے والے مصنفین کی عزت و تکریم کریں گے‘ ان کی تصنیفات کے گن گائیں گے‘ ان کی یاد میں تقریبات منعقد کریں گے لیکن انہیں معاوضہ نہیں دیں گے۔ نیاز صاحب نے یہ ریت توڑی۔ وہ پبلشنگ کے برہمن مافیا کے مقابلے میں لنگر بچھانے والے ایسے درویش تھے جن کے لنگر پر ادیب اور پبلشر کے درمیان ذات پات کی تقسیم ختم ہوجاتی تھی۔ ایسا تو کسی نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ سعادت حسن منٹو جیسا مقبول ترین افسانہ نگار فوری ضرورت کے لیے خود ناشر کے پاس جا کر اپنی کہانیاں تھوڑے داموں فروخت کرتا تھا۔ کون تھا جس نے اپنے وقت کے بڑے بڑے ادیبوں کو معاوضے کے لیے خون نہ تھکوایا ہو‘ چکر نہ لگوائے ہوں۔ لیکن انہوں نے تو یہ رسم ہی بدل ڈالی۔ 
لیکن ادب پر ایک بڑا احسان ان کا ایسا ہے کہ جس کی آئندہ آنے والی نسلیں بھی قیمت نہیں ادا کر سکتیں۔ انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ علم کے موتی جو ہمارے آباء نے اپنے قلم سے کتابوں کی صورت پروئے تھے‘ انہیں نکالا اور ازسرنو خوبصورت انداز میں شائع کیا۔ کتاب خواہ یورپ کے کتب خانوں سے ملی یا کسی ناخلف اولاد کے کباڑ خانوں میں‘ انہوں نے اسے حاصل کیا اور آنے والی نسلوں تک یہ ورثہ پہنچایا۔ اس میں انہوں نے زبان کی بھی کوئی تخصیص نہ کی۔ اس خطے سے متعلق کسی نے بھی جو لکھا خواہ وہ انگریز حاکم ہی کیوں نہ تھا‘ اسے شائع کیا۔ سنگ میل ان کے دنیا کے رخصت ہونے سے تھوڑا پہلے بہت بدل چکا تھا۔ وہ بیماری کی وجہ سے صرف دروازے تک آتے‘ گاڑی میں بیٹھے رہتے اور چلے جاتے۔ جاپان سے واپسی پر مجھے جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو میں ان کے بیٹے افضال سے تعزیت کے لیے گیا۔ کس قدر خوش نصیب ہوتا ہے وہ باپ جسے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھانے والا ایسا بیٹا میسر آ جائے جس نے خود اپنے لیے ایک ریاضت کی دنیا منتخب کر رکھی ہو۔ اس نے اچھا کیا‘ نیاز صاحب کی نشست کا وہ منظر ہی بدل دیا۔ ورنہ میرے جیسے لوگ اس بڑی سی نشست گاہ جس پر درویش کے تکیے کا گمان ہوتا تھا‘ وہاں داخل ہوتے تو شاید واپسی کا راستہ بھول جاتے۔ جس عمارت کے دروبام کے ساتھ کسی فقیر کی یادیں وابستہ ہوں وہاں سے بسلامتی ہوش و حواس باہر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved