اس ملک کے سیاسی اور سماجی افق پر نان ایشوز کی مسلسل بوچھاڑ عوام کے ذہنوں کو شل کر رہی ہے اوریہ بوچھاڑ انہیںاپنی اذیتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے جاری ہے۔ لیکن بلبلے جتنی تیزی سے ابھرتے ہیںاتنی ہی تیزی سے پھول کر پھٹ جاتے ہیں۔ چند دن میں کسی کو یاد نہیں رہتے ، لیکن معیشت اور معاشرے کے ہرآن سلگتے ہوئے ایشوز زیادہ دیر میڈیا پر نہیں لائے جاتے اور حکمرانوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں دبانے کا عمل جاری رہے، لیکن یہ ایسی ٹھوس بنیادیں ہیں جن پر ہر معاشرہ آباد یا برباد ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس خوفناک کیفیت سے معاشی زوال بڑھ رہا ہے اس کی سنگینی کا اندازہ عوام کو نہیں ہے۔ حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ، لیکن اگر ہم غور سے اس معاشی زوال کا جائزہ لیں تو یہ المناک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ معیشت ایک بہت بڑی تباہی کا شکار ہو کر سماجی بربادی لانے والی ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اس ملک میں معیشت نہ صرف ترقی نہیں کر سکتی بلکہ اب اس کا وجود قائم رکھنا بھی مشکل ہوتا جائے گا۔ اس نظام کو بدلے بغیر اب کوئی راستہ نہیں رہ گیا۔
پاکستان کی معیشت کی حالت کسی یونانی المیے کی طرح طویل اوردرد ناک ہوتی جا رہی ہے۔ ایک جانب قرضوں اور سود کی ادائیگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس کی کمر توڑ رہا ہے اور دوسری جانب کالے دھن کی معیشت اسے اندر سے کھاتی چلی جارہی ہے۔ بورژوا تجزیہ نگار اور معیشت دان بھی اب اس معیشت کے لیے کفِ افسوس ہی مل رہے ہیں اور ان کے پاس بھی سود کے چنگل میں پھنسی معیشت کو نکالنے کا کوئی حل نہیں رہ گیا ۔ دوسری جانب اس ملک کے حکمرانوں کی تمام تر ترجیح عالمی مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی کے علاوہ ان کی سود اور منافعوں کی ہوس کی پیاس بجھانا رہ گیا ہے۔گزشتہ 67برسوں میں کئی حکومتیں بدل چکی ہیں ، بہت سے وزرائے خزانہ اپنی باریاں لگا چکے ہیں لیکن نہ تو محنت کشوں کی حالت بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی اس ملک پر موجود قرضوں کا بوجھ اتر سکا ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سرکاری معیشت میںاس وقت پاکستان پر کل قرضہ 17356 ارب روپے سے زیادہ ہے جس کے باعث ہر پاکستانی تقریباً ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ موجودہ حکومت کے صرف پہلے تین ماہ میں اس قرضے میں 1128ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن میں رہتے وقت موجودہ وزیر خزانہ نے کشکول توڑنے کے نعرے لگائے تھے لیکن اقتدار میں آتے ہی پہلے چند دنوں میں آئی ایم ایف سے بھیک مانگنی شروع کر دی جس کے بعد انتہائی سخت شرائط پر 6.7ارب ڈالر کا قرضہ ملا ۔ یہ قرضہ 2008ء میں لیے گئے قرضے کا سود ادا کرنے کے لیے لیا گیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معیشت کی حالت کتنی نازک ہے۔ پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کو 60ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے ادا کرنے ہیں جو جی ڈی پی کے 62.7فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے کل ذخائر اس وقت3.2ارب ڈالر کی نحیف سطح تک پہنچے ہوئے ہیں ۔ جون 2013ء میں یہ ذخائر 11.01ارب ڈالر تھے یعنی چھ ماہ میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں 8ارب ڈالرکی کمی آئی ہے۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ اقتدار میں اتنے قرضے لیے گئے جتنے اس سے پہلے کے ساٹھ برسوں میں نہیں لیے گئے تھے ۔ 2007ء میں پاکستان پرکل قرضے 6,691 ارب روپے تھے جو جون 2013ء میں 16228ارب روپے ہو چکے تھے۔ موجودہ حکومت یہ ریکارڈ توڑنے کے در پے ہے اور اس سے کہیں زیادہ قرضے حاصل کر رہی ہے۔ یہ حالت دراصل انہی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تسلسل کا نتیجہ ہے جو یہاں کے حکمران طبقات نے اپنائی ہوئی ہیں اور حکومتوں یا وزرائے خزانہ کی تبدیلی سے ان پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، صرف چہرے بدلتے ہیں جبکہ کشکول وہی رہتا ہے۔گزشتہ چھ ماہ کا جائزہ لیں تو معیشت کی نازک حالت مزید عیاں ہوتی ہے۔ پہلے ہی بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے باوجودمعاشی زوال میں شدت آئی ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1589ملین ڈالر ہو گیا ہے جبکہ اس دوران آئی ایم ایف کی جانب سے 1.1ارب ڈالر قرضے کی مد میں جاری بھی کیا گیا ہے۔ اس سے پچھلے سال اسی عرصے کے دوران یہ قرض صرف 83ملین ڈالر تھا۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مزید بڑھ جاتا اگروزیرخزانہ دسمبر میں مصنوعی اقدامات سے برآمد کرنے والے تاجروں پر دباؤ نہ ڈالتا اور وہ اپنی رقوم جلد بازی میں نہ منگواتے۔ اس وقت حکومت نے تاجروں اور اسٹاک ایکسچینجوں پر شدید دباؤ ڈال کر روپے کی قدرکو ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے بچایا ہوا ہے جس کے لیے مختلف مصنوعی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل تک ڈالر 110روپے کی سطح پر پہنچ چکا تھا اور روپے کی قدر مزید گرنے کے امکانات موجود تھے۔اسی قسم کی غلط پالیسیوں کے باعث ہی وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کے مابین اختلافات ابھرے اورموخرالذکر نے استعفیٰ دے دیا ۔ وہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے پہلے مستعفی ہونے والا تیسرا اسٹیٹ بینک کا گورنر ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی اعدادو شماراور پالیسیوں میں کتنی مکاری اور فریب ہے کہ ان کے اپنے نمائندے اور مقررکردہ عہدیدار بھی تنگ آکر ان کی اطاعت سے انکارکر دیتے ہیں۔
موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ (جولائی تا دسمبر) میں تجارتی خسارہ گزشتہ سال کی نسبت 400ملین ڈالر زیادہ ہے جبکہ خدمات (سروسز) کے شعبے میں بھی 1383ملین ڈالر خسارہ ہے جو 2012ء میں 10ملین ڈالرسے زائد تھا۔اس کی ایک وجہ امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ روکنا ہے۔ پاکستان کے حکمران امریکہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے 2014ء میں اپنی فوجوں کے انخلاء کے بعد بھی وہ اس مد میں دیے جانے والے فنڈزجاری رکھے جس پر امریکہ نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیںکیا۔
پاکستان کے حکمران اور عالمی مالیاتی ادارے معاشی مسائل حل کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اکسیر کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ایسی سرمایہ کاری کے لیے اپنے ملک کوپر کشش بنانے کے لیے درحقیقت اپنے ملک میں غریبوں اور بھوکوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہے جسے عرف عام میں سستی لیبرکہتے ہیں۔ محنت کشوں کو جتنی کم اجرت دینی پڑے گی سرمایہ داروں کے منافعے اتنے ہی بڑھتے جائیں گے۔گزشتہ دہائی میں چین، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ایسے ممالک میں غیر ملکی سرمایہ کاری اسی لیے آئی تھی ، لیکن اس کے باوجود یہ سرمایہ کاری ملکی معیشت میں بہتری لانے کے بجائے ابتری لاتی ہے کیونکہ بیرونی سرمایہ کار اپنے تمام تر منافعے یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں جمع کرا دیتے ہیں اور ان ممالک میں صرف استحصال زدہ عوام ہی بچتے ہیں جن کے خون پسینے کی محنت سے پیدا ہونے والی کئی گنا زیادہ دولت بیرونی ممالک کے بینکوں ، اسٹاک مارکیٹوں، ہیج فنڈز، ڈیری ویٹوز اور دوسرے سٹہ بازی اور جوے کروانے والے مالیاتی اداروں میں جمع ہوتی ہے۔ پاکستان نے تو اس دولت کو یہاں سے لے جانے کے قوانین میں سب سے زیادہ نرمی کر رکھی ہے اور اس ملک میں آنے والا ہر ایک ڈالر اپنے ساتھ 14ڈالر لے کر واپس چلا جاتا ہے اور یہاں بھوک، غربت اور مہنگائی رہ جاتی ہے۔
لیکن جس ملک کے حکمران اپنی دولت بیرونی ممالک میں محفوظ رکھیں، وہاں کوئی دوسرا کیوں سرمایہ کاری کرے گا۔ موجودہ حکمرانوں کی خود اپنی کئی صنعتیں مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں ہیں۔ جب وہ اپنی صنعتیں پاکستان نہیں لانا چاہتے توکوئی دوسرا اپنا سرمایہ یہاں کیو ں لائے گا۔اس کے باوجود غیر ملکی دوروں میں ڈھٹائی سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی اپیل کی جاتی ہے۔ یہ تمام اپیلیں بھی ناکام ہوئی ہیں اور حکومت کی سر توڑکوششوں کے باوجود گزشتہ عرصے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ پہلے چھ ماہ میں صرف 416ملین ڈالرکی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ 2012ء میں اسی عرصے کے دوران یہ 537ملین ڈالر تھی، اس طرح اس میں 27فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بینک جن میں سنگا پور ٹیلی کام،برٹش پیٹرولیم،شیورون،جی ڈی ایف سوئز،رائل بینک آف سکاٹ لینڈ شامل ہیں پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ کئی جانے کے عمل میں ہیں۔ (جاری)