الطاف بھائی
اپنے خلاف عالمی سازشوں اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی انتقامی کارروائیوں سے دل برداشتہ ہو کر ایک رات سانس بند کر کے سو گئے اور اسی عالم میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جنازہ پڑھانے کے لیے گورنر عشرت العباد اور فاروق ستار کے درمیان پھڈّا ہو گیااور نوبت سر پھٹول تک جا پہنچی لیکن سکاٹ لینڈ یارڈ والے چونکہ تفتیش وغیرہ کے سلسلے میں موقع پر ہی موجود تھے جنہوں نے بیچ بچائو کرا دیاکہ اسی اثناء میں عمران خاں بھی دھاڑیں مارتے ہوئے آ پہنچے اور جنازہ کی امامت کے لیے اُنہی پر اتفاق ہو گیا۔ جسد خاکی تدفین کے لیے کراچی لایا گیا جس کی زیارت کے لیے دھکم پیل کے دوران متعدد کارکنان نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ نئے سربراہ کے انتخاب تک عرصۂ سوگ کا اعلان کیا گیا ؎
جان دی ‘دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو
ممتاز بھٹو
صوبہ سندھ کی گورنری سے مایوس ہو کر اپنی پارٹی بحال کرنی چاہی لیکن پارٹی نے یہ کہہ کر بحال ہونے سے انکار کر دیا کہ روز روز کا یہ کیا مذاق ہے چنانچہ اس صدمے سے جانبر نہ ہو سکے۔ وزیر اعظم نے آنسو بہاتے ہوئے اہلِ سندھ کو صبر کی تلقین کی اور بعداز مرگ تمغۂ حسرت سے نوازا۔ علاوہ ازیں اُن کی یاد میں ایک شایانِ شان مقبرہ تعمیر کرانے کا بھی وعدہ کیا جو قوم سے کیے گئے دیگر لاتعداد وعدے پورے ہونے کے ساتھ ہی ایفا ہو جائے گا۔ قاسم پیرزادہ نے مرحوم کا مرثیہ لکھا اور قلم توڑ کر رکھ دیا‘ چنانچہ نیا قلم خریدنا پڑا اور آئندہ کسی کا مرثیہ لکھنے سے کانوں کو ہاتھ لگایا ؎
مرگیا صدمۂ یک جُنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریف ِ دمِ عیسیٰ نہ ہُوا
اسفند یار ولی
اے این پی میں سے ایک نئی پارٹی نکل آنے کا سانحہ آخر جان لیوا ثابت ہوا۔ اس سے پہلے اپنی وصیت میں تاکید کر دی کہ ماموں جان کو اُن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ہی والدہ صاحبہ کو اُن کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ چالیس دن تک صوبہ بھر میں اس ناگہانی موت پر کہرام مچا رہا جسے بالآخر کرفیو لگا کر نارمل کیا گیا۔ نئی جماعت باچہ خاں پارٹی نے اس سانحہ پر رنج و غم کے ساتھ ساتھ اطمینان کا بھی اظہار کیا۔ طالبان سے خصُوصی اپیل کی گئی کہ ان کے جنازے پر دھماکہ وغیرہ نہ کیا جائے‘ جسے قبولیت بخشی گئی اور جس پر اظہارِ تشکر کے طور پر پارٹی نے متفقہ قرار داد منظور کی ؎
ہوئے مر کے ہم جو رُسوا‘ ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کوئی جنازہ اٹھتا ‘ نہ کہیں مزار ہوتا
راجہ ظفر الحق
چونکہ طبعی عمر کافی عرصہ پہلے گزار چکے تھے اس لیے فرشتۂ اجل سے اس تاخیر پر اہل خاندان نے فرشتہ اجل کی کافی سرزنش کی اور پھر اُس کی معذرت قبول کی۔ میاں نواز شریف نے بھی اس بے وقت موت پر اللہ میاں سے شکایت کی‘ان کا خیال تھا کہ ہر کام اپنے وقت پر ہی اچھا لگتا ہے کیونکہ نماز وقت کی ہی ہوتی ہے جبکہ بے وقت کی تو ٹکریں ہی ہوتی ہیں۔ اس قیمتی جسدِ خاکی کی حفاظت کے لیے چالیسویں تک قبر پر پہرے کا اہتمام کیا گیا۔ چونکہ خود بھی ایک یادگار بن چکے تھے‘اس لیے ن لیگ نے ان کے لیے کوئی یادگار تعمیر کروانے کا کوئی تردد نہ کیا۔ البتہ سوگ میں ایک دن کی ہڑتال کی کال دینے میں مضائقہ نہیں سمجھا ؎
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے ‘باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
یوسف رضا گیلانی
نیب کی طرف سے توقیر صادق والے کیس سے نام نکالے جانے پر شادیٔ مرگ میں مبتلا ہو کرراہی ملکِ عدم ہوئے۔ نزعی بیان میں اس خاص مہربانی پر وزیر اعظم کا خصُوصی شکریہ ادا کیا۔ مفلوک الحالی کی وجہ سے کفن دفن کے انتظامات کے لیے چندہ اکٹھا کرنا پڑا اور پُوری درویشانہ شان و شوکت سے قبر میں اُتارا گیا۔ سابق صدر زرداری کی طرف سے قبر پر نوٹوں کی چادر چڑھائی گئی اور شہید پارٹی کا لقب عطا فرمایا ۔ چونکہ ایم بی بی ایس بھی تھے اس لیے اہلیان حلقہ ان کی گرانقدر طبّی خدمات سے محروم ہو کر رہ گئے۔درگاہ شریف کے تعمیر ہونے سے پہلے ملنگ حضرات کی ریل پیل شروع ہو گئی ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صُحبت نہیں رہی
قائم علی شاہ
نماز جنازہ کئی سال پہلے ہی پڑھ لی گئی تھی کیونکہ مرحوم رحلت فرمانے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔تدفین کے موقع پر ٹپّی شاہ صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے دھڑام سے مرحوم کے جسدِ خاکی کے اوپر گرے اور جان جاں آفریں کے سپرد کر دی ‘چنانچہ موصوف کو بھی شاہ صاحب کی قبر میں ہی دفن کر دیا گیا تاکہ دونوں کی زندگی میں جو یگانگت قائم تھی وہ بعداز مرگ بھی قائم و دائم رہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کئی دن بعد قبر پر آ کر اس قدر زور دار تقریر کی کہ دونوں اُٹھ کر بیٹھ گئے جنہیں کافی اصرار‘ منت سماجت اور مذاکرات کے بعد دوبارہ لٹایا گیا۔ وفات پر گورنر عشرت العباد نے تعزیتی آرڈی ننس جاری کیا ؎
مری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
اشتہار
محفوظ ترین قبرستان
مرتے وقت ہمارے پُر آسائش قبرستان کو نہ بھولیے جہاں حفاظتی انتظامات تسلی بخش اور مثالی ہیں کیونکہ ایک تو بجّو وغیرہ قبر اکھاڑ کر مُردہ کھا جاتے ہیں اور دوسرے ڈاکٹری کرنے والے طالب علم تجربات کرنے کے لیے مُردوں کی ہڈیاں وغیرہ چُرا لے جاتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے قبرستان میں اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو وہاں چرس وغیرہ پینے والے جہازوں کا جمگھٹا رہتا ہے اور دوسرے جُوّا کھیلنے والے حضرات کی رونق لگی رہتی ہے جن میں کئی پولیس معززین بھی شامل ہوتے ہیں اور اس طرح کی کسی واردات کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا جبکہ مُلک عزیز میں زندہ لوگوں کی نسبت مُردوں کی حفاظت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ قبروں کے لیے مناسب معاوضہ پر ایڈوانس بکنگ بھی کی جاتی ہے تاکہ ایسا نہ ہو کر آپ مر بھی جائیں اور قبر کے لیے جگہ ہی میّسر نہ آئے۔ پہلے آ ئو‘پہلے پائو۔ نقّالوں سے ہوشیار رہیں۔
المشتہر: منتظم قبرستان کاکے شاہ‘ لاہور
آج کا مطلع
کھڑکیاں کس طرح کی ہیں اور در کیسا ہے وہ
سوچتا ہوں جس میں وہ رہتا ہے‘ گھر کیسا ہے وہ