تحریر : ڈاکٹر اختر شمار تاریخ اشاعت     10-02-2014

دانشِ یونان، ظفر سپل اور بارش

نہ جانے بارش کی آواز مجھے کیوں اچھی لگتی ہے ؟ہم مصر میں تھے تو بارش کو ترس گئے تھے۔ قاہرہ میں بارش بہت ہی کم ہوتی ہے۔اپنے پانچ برسوں کے قیام میں ہم صرف ایک بار بارش سے لطف اندوز ہوسکے ، لیکن الحمدللہ وطنِ عزیزمیں دیگر موسموں کی طرح برسات کا موسم بھی دیدنی ہے۔پاکستان میں گرمی سردی کے علاوہ موسم ِبہارکے علاوہ برسات کی اپنی بہاریں بھی ہوتی ہیں۔ اِس وقت باہر بارش ہے اور میر ے سامنے کتاب ہے ۔ لمحۂ موجود میںظفر سپل کی کتاب بارش کی آواز کے ساتھ مری روح میں اتر رہی ہے۔لیکن ٹھہرئیے! پہلے ظفر سپل سے تو مل لیں: ''ظفر سپل کبھی ظفر اقبال ہوا کرتا تھا۔ میری اس سے ملاقات اطہر ناسک کے ساتھ ہوئی تھی۔ہم تینوں کبیر والہ میں استاد شاعر بیدل حیدری صاحب کے مطب پر اکٹھے ہوئے تھے۔ ان دنوںشاعری کے دلدادہ نوجوان اسرارورموزِ سخن سیکھنے کبیروالہ میںبیدل صاحب کے پاس جایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ، بیدل صاحب نے ظفر اقبال کو مشورہ دیا تھا کہ ''ظفر اقبال‘‘ کے نام سے شاعری میں ایک بڑا نام پہلے سے موجود ہے، آپ اپنا نام ذرا سابدل کر اسے اقبال ظفرکر لیں۔ یہی نام لے کر ظفر ہمارے ساتھ ملتان لوٹ آیا تھا۔ ان دنوں اطہر ناسک ایک مقامی اخبار کے ادبی ایڈیشن کا انچارج تھا۔اس ادبی ایڈیشن میں اقبال ظفرکی چند نظمیں بھی شائع ہوئی تھیں۔پھر یوں ہوا کہ درمیان میں اقبال ظفرکیرئیر کے جھمیلوں میں گم ہوگیااور ہم لاہور آگئے۔ کافی عرصہ بعد میں نے لاہور سے ادبی اخبار بجنگ آمد شروع کیا تو ظفر رحیم یار خان سے برآمد ہو گیا ، وہ کسی بڑی کمپنی میں ملازمت کر رہا تھا۔ایک روز اس کا خط آیا تو پتا چلا وہ ظفر سپل ہوگیا ہے۔ رفتہ رفتہ بڑے بڑے ادبی جرائد میں اس کے مضامین شائع ہونے لگے۔احمد ندیم قاسمی کے ادبی جریدے فنون میں وہ باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا۔ اب تو اس کا شمار اہم اور سنجیدہ موضوعات پر لکھنے والوں میں ہوتا ہے ۔اگلے روز اچانک اس سے ملاقات ہوئی مگر اس سے ملاقات سے پہلے مجھ تک اس کی کتاب پہنچ چکی تھی۔اس نے فلسفیوں کے بارے میں بڑی سادگی اور سلیقے سے لکھا ہے۔
تو میں کہہ رہا تھا باہر بارش ہو رہی ہے اور مجھ پر ظفر سپل کی کتاب کھُل رہی ہے۔یوں لگتا ہے بارش کی رم جھم مجھے عظیم فلسفی'' ایپی کیورس‘‘ کے باغ میں لے گئی ہے۔ باغ کے صدر دروازے کی پیشانی پر درج ہے : '' اجنبی ! تم یہاں بہت اچھی زندگی گزاروگے۔ یہاں لذت اعلیٰ ترین اچھائی سمجھی جاتی ہے‘‘۔
اس باغ نما اکیڈیمی میں ایپی کیورس کے طلبا ہی نہیں معاشرے کے کئی دیگرکردار بھی دکھائی دے رہے تھے۔ باغ والوں کی زندگی بہت سادہ تھی۔ان کی غذا میںصرف روٹی اور پانی شامل تھا۔ایپی کیورس کا فلسفہ کچھ بھی ہو،مجھے اس کا '' ان پانی ‘‘ والا فلسفہ اچھا لگتا ہے اوراس سے مجھے درویشوں اور ملنگوں کے ڈیرے یاد آجاتے ہیں جہاں یہی '' اَن پانی‘‘ ملتا ہے۔اس حوالے سے میں نے بہت پہلے ایک مختصر پنجابی نظم کہی تھی:
رُکھی روٹی کجھ کھجوراں...پیالہ پانی...ہیٹھ چٹائی...فکر نہ کائی
ملنگوں اور درویشوں کے ڈیروں کی چٹائیوںپر دال چٹنی کا اپنا لطف ہے، خاک نشینوں کو خاک سے لگائو ہوتا ہے۔ایپی کیورس نے اک جگہ لکھا ہے: '' میں اپنی روٹی پانی پرخوش ہوںاور تعیشاتِ زندگی پر تھوکتا ہوں، خود اِن کی وجہ سے نہیں بلکہ اِ ن کے استعمال سے پیدا ہونے والی تکالیف کی وجہ سے‘‘۔
کیا سچ بات کہی ہے، لاریب ہوش مند عیش و آرام سے دور بھاگتے ہیں۔ عیش و آرام بدن کو سہل پسندبنا دیتا ہے۔انسانی بدن کی ضرورت ''حرکت ‘‘ ہے، سکوت موت ہے۔ذرّے کا دل چیرکر دیکھیں ، حرکت موجود ہے۔ سرد گرم موسم بے سبب نہیں ، دنیا کے دکھوں پرکڑھنا دانا ئی نہیں ، ہم آنے والے کل کی فکر میں دُبلے ہوئے جاتے ہیں ؛ حالانکہ ہمیں لمحۂ موجود میں راضی رہنا سیکھنا چاہیے۔ حالات چاہے جو بھی ہوں مثبت رہنا اور ثابت قدمی سے دکھوں کا مقابلہ کرنا اورصبر سے زندگی بسر کرنا، ہمیں اندر سے طاقت ور بناتا ہے اور پھرانسان رفتہ رفتہ ہر قسم کی مادی تعیشات سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ اس حوالے سے ایپی کیورس کی فکر بھی لائق ِ توجہ ہے، وہ کہتا ہے:
'' اصل لذت ،خواہشات کے تعاقب میں مارے مارے پھرنے کی بجائے اُن سے پیچھا چھڑانے اور جسم و جان کو ان کے اثرات سے نجات دلانے سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔ 
غورکریں تو آج کے انسان کو بھی خواہشوں کی غلامی نے کہیں کا نہیں چھوڑا، عام لوگ تو ایک طرف ،انہیں راستہ دکھانے والے خود بھی حرص و ہوس کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ جہاں دانشور حکمرانوں کی خوشنودی کے حصول پراِتراتے پھرتے ہوں یا حکمرانوں کی دعوتوں میں شرکت کو'' اعزاز‘‘ جانتے ہوں ،ان سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔
ابو العلا معرّی کہتا ہے :
'' اگر قبر میں اترنا ہے تو پھر فلک بوس محلوں میں سکونت سے کون سا مقصد پوراکرنا ہے،اے ہم نشین! تن ڈھانپنے کو میرے چیتھڑے کافی اورخوفِ خدا میرا خزانہ ہے ۔ یہ دنیا مُردار ہے اور ہم اِس کے اِرد گرد بھونکنے والے کتے ہیں۔ ناکام ہے وہ جس نے اِس میں سے کھایا اورکامیاب ہے وہ جو خالی پیٹ پلٹا ‘‘۔
مشہور فلسفی سقراط کی زندگی بھی شان و شوکت سے بے نیازی کا نقشہ پیش کرتی تھی۔ سخت سردیوں میں جب لوگ پیروں کو اونی نمدوں سے لپیٹ لیتے، وہ ننگے پائوں ایک ہی لبادے کے ساتھ پھرتا رہتا۔اس کو نہ تو لوگوں کے طعن و تشنیع کی فکر تھی اور نہ مال و دولت اور شان و شوکت کی۔
حضرت محمد واسع ؒ خشک روٹی پانی میں گھول کر کھا لیا کرتے اور فرماتے : '' خشک روٹی پر قانع کبھی مخلوق کا محتاج نہیں ہو سکتا‘‘۔مردِ فقیر فرماتے ہیں: ''بھوک ایسا ابر ہے جس سے رحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے‘‘۔
بارش کی آواز میں صفحہ قرطاس میں جانے کیا بکھرتا جاتا ہے۔ ظفر سپل آپ کے ''ورثۂ دانشِ یونان‘‘کی خیر ہو۔ بلا تبصرہ ، بھرتری ہری کا قول آپ کی نذرہے:
'' فقیر زمین کے فرش پر سوکر اُسی خوابِ شیریں کا مزہ لیتا ہے جو راجائوں کو نرم و خوشنما سیج پر ملتا ہے، فقیر کا بازو نرم سرہانہ ، کھلا آسمان شامیانہ، مہکی ہوا پنکھااور فلک پر جگمگاتا ہوا چاند قندیل کا کام دیتا ہے۔ وہ بیراگ کی رفیقہ حیات کی گرم آغوش میں وہی مسرت حاصل کرتا ہے جو شہنشاہ کو اپنی ملکہ کے وصال سے ہوتی ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved