ویسے تو 1984ء سے ہی فروری کا مہینہ کشمیر کے لیے تلخ یادیں لے کر وارد ہوتا ہے مگرگزشتہ برس اسی مہینے میں جب کشمیر ٹھٹھرتی سردی کی آغوش میں نیم جا ن تھا ،دہلی کی تہاڑ جیل میں سزائے موت کے منتظر محمد افضل گوروکو پھانسی دے کر ایک بار پھر کشمیریوں کو ان کی کسمپرسی کا احساس دلایا گیا۔کشمیری قوم کے جذبات انتہائی مجروح ہوئے اوروہ دم بخود ہوکر رہ گئے۔اس سے قبل11 فروری 1984ء کواسی جیل میں بالکل اسی طرح جموںکشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ کو بھی ابدی نیند سلایاگیا۔ بھارتی حکام نے ان دونوں افرادکو سزا دینے میں جس عجلت اور رازداری کا مظاہرہ کیا اورلواحقین سے آخری ملاقات کی اجازت نہ دے کران کی میتوں کو جیل میں ہی دفناکرجس طرح انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کیا، اس کی مثال عہد وسطیٰ کے استعماری حکمرانوں کے ہاں بھی نہیں ملتی۔ایک ساتھی قیدی کے بقول گوروکو صبح پانچ بجے سیل سے نکال کر یہ بتایا گیا کہ آج جیل کی انسپیکشن ہے اس لیے انہیںدوسرے سیل میں منتقل کیا جارہا ہے، بعد میںکوریڈور سے گزرتے ہوئے ایک افسر نے انہیں بتایا کہ ان کی پھانسی کا حکم آیا ہے۔ جب پہریداروں نے ان کے ہاتھ باندھنے اورانہیں دھکیلنے کی کوشش کی تو افضل نے ان سے کہا کہ وہ خود ہی مقتل تک چل کر جائیں گے ۔ آخری خواہش کے طورپر انہوں نے اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کرنے کی اجازت مانگی مگر جیل حکام نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی اورانہیں اپنے اہل خانہ کو خط لکھنے کے لیے کہا۔کوریڈور سے گزرتے ہوئے انہوں نے باقی سیلوں میں بند قیدیوں کو اپنے آخری سفرکے بارے میں بتایا اور بآواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے مقتل کی طرف روانہ ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ آخرکیا وجہ تھی کہ سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی،راجیوگاندھی اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ بینت سنگھ کے قاتلوں اور جنوبی بھارت کے بدنام زمانہ ڈاکو ویراپن کے ساتھیوں کی رحم کی درخواست نا منظور ہونے پر ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا گیا اور انہیں سپر یم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کے لیے مہلت دی گئی لیکن محمد افضل گورو کے سلسلے میںدہرا معیاراپنایاگیا؟ حقیقت یہ ہے کہ محمد افضل گوروکی پھانسی کے سلسلے میں اس لیے جلدی کی گئی تاکہ حکمران کانگریس دکھا سکے کہ وہ اپنی حریف بی جے پی سے بھی زیادہ سخت گیراور ہندوتوا کی حامی ہے۔ جنوری2013 ء میں حکمران کانگریس نے جے پور میں گاندھی خاندان کے جانشین راہول گاندھی کی تاج پوشی کی تھی ،اس کے فیصلہ سازوں کا خیال تھا کہ افضل گوروکوتختہ دار پر لٹکا کر وہ شہری مڈل کلاس اور اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کودوبارہ پارٹی کی طرف راغب کرسکے گی ، مگر ایک سال کے بعداس سوچے سمجھے الیکشن سٹنٹ کے باوجود کانگریس ریاستی انتخابات میں بری طرح ناکام ہوگئی اوراسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے جھاڑو نے اسے کہیں کا نہ رہنے دیا۔صرف یہی نہیں بلکہ اسے اپنی سیاسی خجالت دیکھ کرمئی کے عام انتخابات کے لیے وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار متعارف کرا نے میں شرمندگی محسوس ہورہی ہے۔ رائے عامہ کے سبھی جائزے لوک سبھا کے انتخابات میں پارٹی کی تاریخی شکست کی پیش گوئی کررہے ہیں۔
افضل گورو کی کہانی دراصل حالات و واقعات کی پیچیدگیوں کے گرداب میں الجھے ہوئے ایک عام سے کشمیری نوجوان کی داستان ہے جواس نسل کا احوال بیان کرتی ہے جس نے جمہوری نظام کی ناکامی کی وجہ سے مایوس ہوکراپنے خوابوں کی تکمیل اور امنگوں کے پرواز کے لئے ''آزادی‘‘کاپرچم اٹھایا۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں شروع ہونے والی ''تحریک آزادی‘‘ کے طریقہ کار سے وہ مایوسی کا شکار ہوئی۔ ایسے میں''جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ کے مصداق یہ نسل سکیورٹی ایجنسیوں اورآزادی کا نعرہ بلندکرنے والوں کے مفادات کے درمیان پس کر رہ گئی۔
افضل کی بیوہ 34 سالہ تبسم نے راقم الحروف کو بتایا تھا کہ گوروبھی ہزاروں دوسرے کشمیری نوجوانوں کی طرح جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک سے متاثر ہوئے۔ انہیں بھی جے کے ایل ایف کی تحریک اپنے دل کی آوازاور امیدوں کا سرچشمہ دکھائی دی ؛ چنانچہ وہ تربیت حاصل کرنے کے لیے گئے لیکن جلد ہی حقیقت ان کے سامنے آگئی اور وہ تین ماہ کے اندر ہی مایوس ہوکرکشمیر لوٹ آئے۔ تبسم بتارہی تھیںکہ''میرے شوہر ایک عام انسان کی طرح معمول کی زندگی گزارنا چاہتے تھے ،اس لیے کسی جنگجو تنظیم میں شامل ہونے کے بجائے انہوں نے بارڈر سکیورٹی فورس کے سامنے خود کوپیش کردیا لیکن بی ایس ایف کمانڈنٹ نے یہ کہتے ہوئے انہیں خودسپردگی کا سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کردیااور اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ وہ کچھ اور جنگجوئوں کوبھی خودسپردگی کے لیے تیار کرے۔ گورو نے اس دوران دو نوجوانوں کو خودسپردگی کے لیے آمادہ کرلیا۔
کشمیر میں جنگجوئیت سے تائب ہوکر خودسپردگی کرنے والے نوجوانوں کی زندگی کس عذاب میں گزرتی ہے اور انہیں قدم قدم پر کس طرح کے مصائب اور خطرات سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس کا ہلکا ساخاکہ افضل گوروکی کہانی میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں نرس کے طور پر ملازمت کرنے والی تبسم بتارہی تھیںکہ''1997ء میں شادی سے قبل افضل نے کشمیر میں ادویات اور سرجیکل آلات کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ عا م زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی فورسز نے ان کی زندگی اجیرن کردی۔ سکیورٹی فورسزکی طرف سے ان پر جاسوس بننے کے لیے مسلسل دبائو ڈالا جاتا رہا۔ جب افضل اس کے لیے آمادہ نہیں ہوئے تو ان پر اذیتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ 22 ویں راشٹریہ رائفلز کے میجر رام موہن رائے نے ان کے شوہرپر اذیتوں کی انتہاکردی۔ سکیورٹی فورسز والے افضل کو اکثر اٹھا کر اپنے کیمپوں میں لے جاتے جہاں انہیں ٹارچرکیا جاتا اور بلا وجہ مارا
پیٹا جاتا تھا۔ بعد میں یہ کام جموں و کشمیر کے اسپیشل آپریشن گروپ نے سنبھال لیا۔ ایس او جی والے انہیں پہلے پٹن اور پھر ایک اور جگہ لے گئے ، وہاں بھی انہیں اذیتیں دی گئیں۔ وہاں ڈی ایس پی ونئے گپتا اور دویندر سنگھ نے ان کی رہائی کے بدلے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ، شانتی سنگھ نامی ایک افسر نے تو زیادتی کی انتہا کررکھی تھی‘‘۔ تبسم کا دعویٰ ہے کہ اسپیشل آپریشن گروپ والوں نے ان کے شوہر سے کہا کہ انہیں محمد نامی ایک شخص کوکشمیر سے دہلی لے جانا ہے۔ جب وہ ایس او جی کے کیمپ میںپہنچے تووہاں ان کی ملاقات محمد اور طارق نامی دو افراد سے کرائی گئی ،انہیں ان دونوں کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا اور نہ ہی یہ جانتے تھے کہ آخر ان سے یہ کام کیوں لیاجارہا ہے۔ تبسم کہتی ہیں کہ افضل نے یہ تمام باتیں عدالت کو بھی بتائیں لیکن عدالت نے دو افراد کو لانے سے متعلق ان کا اعترافی بیان تو قبول کرلیا لیکن اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ان دونوں سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔نچلی عدالت میں انہیں اپنے دفاع کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ اعلیٰ عدالت نے بھی گواہوں کے ساتھ دوبارہ جرح کرنے اور اسپیشل آپریشن گروپ کو عدالت کے کٹہرے میں بلانے کی ان کی درخواست ٹھکرا دی۔
افضل گورو کی پھانسی کے بعداگرچہ پارلیمنٹ پر حملے کا ایک باب تو بند ہوگیا لیکن وہ اپنے پیچھے کئی بڑے سوالات چھوڑگیا۔ عدالت عظمیٰ نے افضل گوروکو پھانسی کی سزا سناتے وقت ''سماج کے اجتماعی ضمیرکو مطمئن‘‘ کرنے کا جواز پیش کیا تھا۔ اس فیصلے پر معروف قانون دان اے جی نورانی نے اپنے ایک مضمون میںلکھا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جذباتی الفاظ استعمال کیے۔