خَس کی زبان پر چنگاری بیٹھی ہے۔ جن کے ذمے امن و امان کا قیام ہے اور جو خلقِ خدا کی حفاظت کے نام پر تخت نشینی کے مزے اڑا رہے ہیں، مکمل طور پر غافل ہیں۔
آج کے پاکستان کو آدھے فقرے میں سمونا ہو تو دو لفظ کافی ہیں۔۔۔ نااہلی اور خیانت۔ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت کے نیچے بارود کی تہیں بچھائی جا چکی ہیں ۔ دوسری طرف سطحیت کا عالم یہ ہے کہ میگا پراجیکٹ ہوائی قلعوں کی طرح تعمیر ہو رہے ہیں۔ باتیں ترکی کی ہو رہی ہیں ، ملک شام اور عراق بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیرستان صرف وزیرستان ہے ،کراچی صرف کراچی ہے مگر پنجاب کے اکثر شہر بالخصوص راولپنڈی اور لاہور بیک وقت وزیرستان بھی بنتے جا رہے ہیں اورکراچی بھی۔ غیر ملکیوں نے محاصرہ کر لیا ہے۔ بازار کے بازار، مارکیٹوں کی مارکیٹیں، محلوں کے محلے لسانی بنیادوں پر یوں الگ بسا لیے گئے ہیں جیسے سمندر کے درمیان جزیرے ہوں۔ ہزاروں محافظ عوام کے ٹیکسوں سے محلات کے اردگرد تعینات کرکے حکمران اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں اور بھول رہے ہیں کہ محافظ سلمان تاثیر کے بھی تھے!
روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق راولپنڈی کے نواحی علاقوں میں شدت پسندوں نے وسیع پیمانے پر پلاٹ اور مکان خرید لیے ہیں اور ایک منصوبے کے تحت منتقل ہو رہے ہیں۔ بات بات پر ترکی اور بھارت کے دورے کر کے وہاں کے ترقیاتی منصوبوں کا ''مطالعہ‘‘ کرنے والوں کو شاید معلوم نہیں کہ نائن الیون کا سانحہ امریکہ میں ہوا تھا۔ امریکی حکومت کی اصلاحات ، انتظامات اور دوراندیشی کا یہ عالم ہے کہ القاعدہ پوری کوشش کے باوجود وہاں دوبارہ ایسی کارروائی نہیں کر سکی۔ ہمارے حکمرانوں کو خود تو خیر کیا خیال آتا، سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والے مشیروں اور مددگاروں کی فوجِِ ظفر موج میں سے بھی کسی نے نصیحت نہیں کی کہ ذرا امریکہ جا کربھی حفاظتی انتظامات کا مطالعہ اور مشاہدہ کریں اور پھر ان کی روشنی میں اپنے عوام کی حفاظت کا بندوبست کریں۔
لاکھوں افراد باہر سے آ کر پنجاب میں بس چکے ہیں ، وہ اپنے ساتھ اسلحہ بھی لائے ہیں اور دشمنیاں بھی۔ ہزار طریقے ہو سکتے تھے حفاظتی بندوبست کو مستحکم کرنے کے۔ بیچنے والوں پر پابندی لگائی جا سکتی تھی کہ جب تک کوئی مقامی معتبر جانا پہچانا شخص خریدار کے کردار کی گارنٹی نہ دے، جائداد خریدار کے نام پر منتقل نہیں ہو گی! جاسوسوں کا جال پھیلایا جا سکتا تھا اور جہاں بھی کوئی شدت پسند پلاٹ یا مکان کی خریداری کرنے لگتا، خفیہ ادارے حرکت میں آ جاتے۔ ہر محلے، ہر آبادی میں ذمہ دارافراد کی کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی تھیں جوکسی مشکوک اجنبی کو اپنی حدود میں بسنے نہ دیتیں۔ غرض سرکاری، غیر سرکاری اور نیم سرکاری خطوط پر ایک سو ایک طریقے تھے جن کے تحت عوام کی حفاظت یقینی بنائی جا سکتی تھی اور نئے آباد ہونے والوں کی جانچ پڑتال ہو سکتی تھی۔ صوبے کی حدود میں یہ جو دھڑا دھڑ اسلحہ لایا جا رہا ہے، اس کی بھی پیش بندی کی جا سکتی تھی مگر یہ ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ اس میں رمق بھر مبالغہ نہیں کہ صوبہ ڈاکوئوں، چوروں، بھتہ خوروں، اغوا کاروں اورکار ہائی جیکروں کا مسکن بن چکا ہے۔ شاہی خاندان کے افراد مست ہیں ، اس لیے کہ ان کے محلات کے اردگرد کوسوں تک حفاظتی حصار باندھ دیے گئے ہیں۔ طریق واردات یہ ہے کہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو چیف منسٹر ہائوس میں بلا کر تقریرکر دی جائے اور ہوائی قلعوں کاذکردل نشین پیرائے میں کیا جائے۔ مخصوص فقرے اس طرح کے ہوتے ہیں:
صوبے کو ترقی کے لحاظ سے مثالی صوبہ بنائیں گے۔
سڑکوں، پُلوں اور انڈر پاسوں کا جال بچھا دیں گے۔
کم ترقی یافتہ علاقوں میں ترجیحی بنیادوں پرکام ہوگا۔
فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد جاری رہے گا۔
خدمتِ خلق کی نئی تاریخ رقم کریں گے۔
یہ اراکین اسمبلی اس قسم کے فقرے سنتے ہیں، بُزِ اخفش کی طرح سر ہلاتے ہیں۔ پر تکلف کھانے سے تنورِ شکم میں آگ بھرتے ہیں اور بڑی بڑی گاڑیوں پر سوار ہوکر اپنی اپنی ''جاگیروں‘‘ کو واپس چلے جاتے ہیں۔ جاگیریں، اس لیے کہ ان میں اکثر کے ڈیرے ہیں، جہاں ''نیکو کار‘‘ پناہ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ ان کے ذاتی ملازمین کا کردار کامیابی سے ادا کرتی ہے۔
روزنامہ ''دنیا‘‘ ہی نے پنجاب حکومت کے حوالے سے ایسی خبر دی ہے جو خیانت، چوری اور بدعنوانی کے حوالے سے تھری ان وَن کہلائی جانے کی مستحق ہے۔ انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ بقول منیر نیازی ؎
ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے
ایک صوتِ گنگ جیسے گنبدوں کے سامنے
نوکر شاہی کے 29اعلیٰ گماشتے سرکاری گاڑیوں کو دھاندلی سے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ، یہ قبضہ غیر قانونی ہے ، واپس دینے سے انکاری ہیں۔ پٹرول اور مرمت کی مد میں فی گاڑی 22ہزار سے پچپن ہزار تک ماہانہ اخراجات اُٹھ رہے ہیں۔ یہ ماہانہ لاکھوں اور سالانہ کروڑوں میں بنتے ہیں۔ دیدہ دلیری بلکہ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ پریس میں اِن ''دیانت دار‘‘ افسروں کے نام آ چکے ہیں اور گاڑیوں کے نمبر بھی... ایک صاحب جو صوبے کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری تھے دوگاڑیوں پر قابض ہیں۔ تبادلہ وفاق میں ہو گیا لیکن پھر بھی سواریاں تحویل میں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک افسر جو سیکرٹری امپلی منٹیشن (Implementation)تھے، ان کے پاس بھی ناجائز گاڑیاں ہیں۔ طرفہ تماشا بلکہ مقامِ عبرت یہ ہے کہ Implementationکا معنی نفاذ ہے۔ اب جو لوگ خود خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، دوسروں پر قانون کیا نافذکریں گے؟ اس حوالے سے زیادہ سوچنا بے کار ہے۔ ٹرانسپورٹ کا محکمہ ممیایا ہے کہ ''تمام افسران کو سرکاری گاڑیاں واپس کرنے کے لیے کئی بار کہا مگر صرف دو افسروں نے گزشتہ ہفتے گاڑیاں واپس کیں‘‘۔ یہ ہے پنجاب کو ''مثالی صوبہ بنانے کی عملی کارروائی‘‘ جس کا ذکر حاکمِ اعلیٰ محل میں جمع ہونے والے اراکینِ اسمبلی کے سامنے فخر سے کرتے ہیں ۔ ان کی ناک کے نیچے لاکھوں روپے ماہانہ اور کروڑوں سالانہ چولہے میں جھونکے جا رہے ہیں مگر خیانت کرنے والوں کا بال بھی کوئی نہیں بیکا کر سکتا۔ اس قبیل کے حکمران اپنی سلطنتوں کی حدود کا کیا خیال رکھیں گے اور شدت پسندوں کو آباد ہونے سے کیا روکیں گے؟
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
کے فارمولے کے مطابق عوام کے پاس ایک ہی چارۂ کار رہ گیا ہے کہ شدت پسندوں ہی کو اپنی حفاظت کا کام سونپ دیں!