تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-02-2014

سہ ماہی ’’ادبیات‘‘ کا 100واں شمارہ

اکادمی ادبیات اسلام آباد سے شائع ہونے والا یہ سرکاری رسالہ ہے لیکن اس کا معیار بالعموم سرکاری رسالوں جیسانہیں ہے بلکہ رسائل کی دنیا میں اس نے اپنی ایک شناخت قائم کر لی ہے۔ ادبی اداروں کے ساتھ حکومت کا رویہ ہمدردانہ کم اور لاپروائی کا زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہ مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ چنانچہ ان کی نوع بہ نوع سرگرمیوں میں ایک کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اسی سبب سے اکادمی کے بہت سارے منصوبے التواء اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں حکومت اس کے فنڈز میں اضافہ کرتی لیکن اس کے برعکس اس کے بجٹ میں پہلے 30اور پھر 20فیصد کمی کر دی گئی اور بیمار اور نادار ادیبوں کے لیے جو امدادی وظائف مقرر کیے گئے تھے، وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ چنانچہ یہ ادارے حکومت کی فوری توجہ کے طالب ہیں۔
پچھلے دنوں محمد عاصم بٹ اور اختر رضا سلیمی کی ادارت میں شائع ہونے والے اس وقیع جریدے کا 100واں شمارہ منصۂ شہود پر آیا ہے جس کی مجلس مشاورت میں توصیف تبسم اور احمد جاوید جیسی سینئر ادبی شخصیات موجود ہیں۔ کوئی چھ سو صفحات کو محیط اس اہم ادبی دستاویز کی قیمت 200روپے رکھی گئی ہے جو ظاہر ہے کہ سب سی ڈائزڈ اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ مشمولات کے تنوع کے حوالے سے بھی اس جریدے کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے اور اردو دنیا کے نمائندہ ادباء کا تعاون اسے ہمیشہ سے میسر رہا ہے جبکہ اس کے ایڈیٹروں میں بھی نامی گرامی ادیب شامل رہے ہیں۔ اس ادارے کے چیئرمین عبدالحمید ہیں جبکہ اس پرچے میں شائع ہونے والی تحریروں کا مناسب معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔
کچھ عرصے سے ہمارے ہاں ضخیم اور لحیم و شحیم رسالوں کا سلسلہ اشاعت اطمینان بخش بھی ہے اور تشویش انگیز بھی۔ یہ زیادہ تر کتابی سلسلے ہیں جو ملک کے مختلف ادبی مراکز بالخصوص کراچی سے شائع ہو رہے ہیں۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ رسالے کا پیٹ بھرنے کے لیے کم عیار تحریریں بھی شامل کرنا پڑتی ہیں اور پھر یہ رسالے بالعموم تاخیر سے بھی شائع ہوتے ہیں اور جس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ادبی رسالوں کو اشتہارات نہیں ملتے اور رسالہ نکالنا اپنی ہی جان پر کھیلنے کے مترادف ہوتا ہے جبکہ ماہوار رسالے کا اتنا انتظار بھی نہیں کھینچنا پڑتا، اگرچہ باقاعدگی سے شائع ہونے والے ماہنامے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
حسبِ معمول رسالہ مختلف حصوں میں تقسیم ہے اور نظم و نثر کا خاطر خواہ مواد اس میں موجود ہے جس میں مضامین، افسانے، نظمیں، غزلیں اور تراجم وغیرہ سیر حاصل مقدار میں دستیاب ہیں۔ آغاز حمد اور نعت سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ناول کے نمونے ہیں جن کی تصنیف حسن منظر، آمنہ مفتی اور احمد جاوید کو زیب دے رہی ہے۔ اس کے بعد افسانوں کا حصہ ہے جس میں الطاف فاطمہ، رشید امجد، آغا گل، علی تنہا، اخلاق احمد، زیب اذکار حسین، خالد فتح محمد، محمد امین الدین، عرفان عرفی، غافر شہزاد، فرخ ندیم، کرن شفقت، مبشر زیدی اور سعدیہ کی تحریریں شامل ہیں۔ پھر سفر نامے ہیں جن میں سلمیٰ اعوان اور ڈاکٹر نجیبہ عارف نے حصہ لیا ہے جس کے بعد نظم کا بھاری بھرکم سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں توصیف تبسم، عبدالرشید، محمود شام، محمد اظہار الحق، نصیر احمد ناصر، تبسم کاشمیری، صبا اکرام، زاہد مسعود، ایوب خاور، آصف ہمایوں، ماہ طلعت زیدی، فرخ یار، سعید احمد، بابر یعقوب، ارشد معراج، ناہید قمر، شہزادنیر، فاضل جمیلی، محسن شکیل، نوید صادق، عبدالکریم خالد اور حفیظ اللہ بادل شامل ہیں۔ اس کے بعد نثری نظمیں ہیں جن کے تخلیق کاروں میں زاہد امروز، منیر فیاض، سید کامی شاہ، الیاس بابر اعوان، نینان عادل اور صدف غوری شامل ہیں۔
اس کے بعد غزلوں کا طول طویل سلسلہ ہے جس میں اس خاکسار کے علاوہ افتخار عارف، خورشید رضوی، امجد اسلام امجد، پرتو روہیلہ، ناصر زیدی، نذیر قیصر، سجاد بابر، احمد صغیر صدیقی، صابر ظفر، غلام حسین ساجد، عباس رضوی، تحسین فراقی، نصرت صدیقی، سعید گوہر، شاہدہ حسن، اشرف جاوید، شاہین عباس، سعود عثمانی، افضل گوہر، رخشندہ نوید، طاہر شیرازی، شاہد ذکی، شمشیر حیدر اور دیگران شامل ہیں۔ اس کے بعد '' نئی آوازیں‘‘ کے عنوان سے شعری تخلیقات ہیں جبکہ تراجم میں ملک ملک سے موصول ہونے والی شاعری شامل ہے۔ پھر سلسلہ مضامین ہے اور آفتاب اقبال شمیم پر گوشہ، شعبۂ سرگزشت، موسیقی کے حوالے سے مضامین اور عالمی ادب سے تراجم۔ بہت سارا ذکر اذکار تنگی جا کی وجہ سے رہ گیا ہے جس کیلئے معذرت! اب حصۂ غزل میں سے کچھ شعر:
خاک سے اُڑتے پرندے قیصرؔ
   رنگِ افلاک بدل سکتے ہیں
(نذیر قیصر)
یاد کرنا چاہتا ہوں اور یاد آتا نہیں
کچھ کہیں رکھا گیا اور کچھ کہیں رکھا گیا 
(غلام حسین ساجد)
سرفروشوں نے بھی کب سر دئیے اس معرکے میں
ہم نے بھی ہاتھ کھڑے کر د یے ا س معرکے میں 
(تحسین فراقی)
دل میں اک آگ سرِ شام جلاتی رہی میں
پھر اسی آگ میں کچھ پھول کھلاتی رہی میں 
(شاہدہ حسن)
اس شجر کی جڑیں لہو میں ہیں
روشنی پھوٹتی ہے اندر سے 
(محمدصفیان صفی)
سامنے سے یہ کائنات ہٹائو
ہو رہا ہے مغالطہ سا کچھ 
چاک ادھڑتا ہے، خاک اُکھڑتی ہے
کوئی ہوتا ہے رونما سا کچھ 
(شاہین عباس)
تماشا دیکھنے والوں سے شرمسار ہوں میں
بنا رہا تھا تماشا، بنا نہیں مجھ سے 
(افضل گوہر)
کوئی پہلے مجھے کب دیکھتا تھا
اس کو دیکھا تو نظر آیا ہوں 
(امتیاز الحق امتیاز)
میں پکڑتے پکڑتے ڈوب گئی
مجھ سے کچھ گر گیا تھا پانی میں
(رخشندہ نوید)
اُلجھ گیا ہے مرا دل ترے خیال کے ساتھ 
پرندہ اُڑتے ہوئے زیرِ دام آ گیا ہے
(نوید حیدر ہاشمی ) 
گلاب تھے کسی صحرا مزاج موسم کے
تمہارے خواب کے اطراف میں کھُلے نہیں ہم 
(سجاد بلوچ )
یہ شہر بن رہا تھا میرے سامنے
یہ گیت میرے سامنے لکھا گیا
(تہذیب حافی)
کوئی دن اور کہ آتی ہے اِدھر بادِ شمال
پھر تو یہ رنگِ ہوا ہے نہ چراغِ گلِ سرخ 
(افتخار عارف)
اندرونِ سر ورق اسلم کمال کا کھینچا ہوا شفیع عقیل کا خاکہ ہے اور عجب خان کی بنائی ہوئی متعدد تصویریں جن سے مندرجات کے عنوان سجائے گئے ہیں۔ 
آج کا مطلع
پھر سامنے کیسی یہ ہوا آئی ہمارے
جو ساتھ ہی پتّے بھی اُڑا لائی ہمارے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved