تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     12-02-2014

اپنی ہی صورت نہ بگاڑ

پانی و بجلی کے جواں سال وزیرمملکت عابد شیر علی نے ایک انوکھی بحث چھیڑ رکھی ہے۔ وہ اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کے حلقوں میں چوری ہونے والی بجلی کے اعداد وشمار جمع کرتے ہیں اور اس کے بعد بجلی کی چوری کا الزام قومی یا صوبائی اسمبلی کے کسی رکن پر لگا دیتے ہیں۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس چوری کا ذمہ دار وہاں کا منتخب نمائندہ ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے۔ اس سے آگے تو یہی رہ گیا کہ باقی جرائم بھی منتخب نمائندوں کے کھاتے میں ڈال دیئے جائیں۔ پولیس مختلف تھانوں کے اعداد و شمار باقاعدگی سے تیار کر کے شائع کراتی رہتی ہے۔ عابد شیرعلی کو چاہیے کہ یہ اعدادوشمار بھی جمع کر لیں اور بیان جاری کیا کریں کہ قومی اسمبلی کے فلاں ممبر نے اپنے حلقے میں ایک سال کے دوران 2ہزار چوریاں کرائیں۔ اغوا کی 15 وارداتوں کے ذمہ دار وہ ہیں۔ ان کے حلقے میں 12 قتل ہوئے۔ علیٰ ہذ القیاس۔ یہ رواج چل نکلا‘ تو کسی بھی رکن اسمبلی کا دامن صاف نہیں رہے گا۔ اب بھی کہاں ہے؟ پاکستان میں جمہوریت اور سیاستدانوں کا حال پہلے ہی برا ہے۔ چار فوجی حکومتوں نے طویل ادواراقتدار میں زور ہی اس بات پر لگایا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو‘ سیاستدانوں کو رسوا کیا جائے۔ ہر فوجی آمر نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی سب سے پہلے‘ سیاستدانوں کی کردار کشی کی۔ ان پر مقدمے بنائے۔ کرپشن کے الزامات لگائے۔ ان کی خفیہ فائلیں تیار کرائیں۔ انہیں جیلوں میں ڈالا۔ ان کے کاروبار تباہ کئے اور جو ان کے سامنے جھک گئے‘ ان سب کے دامن بے داغ قرار دیئے گئے۔ 
اقتدار کو تحفظ اور طول دینے کا یہ آمرانہ حربہ ‘خود سیاستدانوں کو بھی اچھا لگا۔ جمہوریت میں حکومتیں اپنی کارکردگی سے‘ عوام کی حمایت برقرار رکھنے یا اس میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سرکاری مشینری استعمال کر کے‘ ممبران اسمبلی کو دبائو میں رکھنا اور اپنی حکومت کے حق میں ووٹ‘ حکمرانی کا سب سے آسان طریقہ قرار پایا۔ آمریتوںاور جمہوریتوں میں ‘ اقتدار پر فائز رہنے والوں کے طور طریقے ایک ہی جیسے ہو گئے۔ زیادہ پرانی بات نہیں‘ جب پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا ‘ تو انہیں اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کوئی نیا کام نہیں کرنا پڑا۔ ان سے پہلے جمہوریت کے عشرے میں دو پارٹیوں کی چار حکومتیں کام کر چکی تھیں۔ ان دونوں حکومتوں نے اپنے اپنے دورحکومت میں‘ اقتدار سے نکلنے والی پارٹی کے لیڈروں کے خلاف جھوٹی سچی تحقیقات کر کے‘ ان کی فائلیں تیار کرائیں اور پھر یہ فائلیں دکھا کر‘ اراکین اسمبلی کو بلیک میل کیا۔ نیشنل اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کی خاطر‘ نوٹوں سے بھرے صندوق استعمال ہوئے اور جب پرویزمشرف نے اچانک جمہوریت کی بساط لپیٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا‘ تو عوام‘ میڈیا اور سیاستدانوں کی طرف سے برائے نام مزاحمت بھی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس قومی تاریخ کے بدترین آمر کی تائید و حمایت کرنے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ مشرف نے صرف اتنا کیا کہ سیاستی حکومتوں نے ایک دوسرے کے لیڈروں کے خلاف جو فائلیں تیار کی تھیں‘ وہ ایک تحقیقاتی ایجنسی کے سپرد کیں۔ ایجنسی نے سیاستدانوں کو اٹھا کر مختلف مقامات پر پھینک دیا۔ آمریت کے نمائندے ان کے پاس سودے بازی کے لئے آئے اور کم و بیش سب کے سب لیڈر‘ غیرجمہوری حکومت میں شریک ہونے پر تیار ہو گئے۔ میں نے پرویزمشرف کو بدترین آمر اس لئے لکھا کہ ان سے پہلے جو تین آمر آئے تھے‘ انہوں نے جوڑتوڑ اور سازشوں کے ذریعے تبدیلی کا ماحول ضرور پیدا کر لیا تھا۔ ایوب خان نے کرپشن اور سیاسی عدم استحکام کا الزام لگا کر مارشل لا نافذ کیا۔ یحییٰ خان کو ان کے پیشرو نے اقتدار منتقل کر دیا اور ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی قوم پرستانہ پالیسیوں کی مخالف بیرونی قوتوں کی مدد سے ملک میں احتجاجی تحریک کا بندوبست کیا اور بدامنی کے خطرے کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ لیکن پرویزمشرف کے پاس اقتدار پر قبضہ جمانے کا برائے نام بھی اخلاقی‘ سیاسی یا قانونی جواز نہیں تھا۔ انہیں ملک کے آئینی صدر اور وزیر اعظم نے برطرف کر کے ‘ جانشین کا تقرر کر دیا تھا۔ پرویزمشرف نے برطرف شدہ جنرل کی حیثیت میں چیف آف آرمی سٹاف کے اختیارات استعمال کرکے‘ منتخب اداروں اور حکومتوں کو جبراً برطرف کیا۔ یہ بدترین ڈاکہ زنی تھی۔ مگر پاکستان میں ہر طرح کی لاقانونیت کے لئے فضا اتنی سازگار ہو چکی ہے کہ اب اقتدار میں آنے کے لئے اخلاقی اور قانونی جواز کی ضرورت رہ گئی ہے اور نہ عوامی تائید و حمایت کی۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز چند افراد کا ایک ٹولہ سازش کر کے‘ حکومت پر قبضہ کر لے تو پاکستان میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے ‘ نہ مزاحمت۔ تین ڈکٹیٹروں کے اقتدار کا عرصہ تو کسی بھی جمہوری حکومت سے زیادہ رہا۔ حکمران جنرلوں اور سیاسی حکومتوں نے جمہوریت اور سیاستدانوں کو بدنام اور بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج حالت یہ ہے کہ عوام ‘ آمروں اور منتخب حکومتوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ ہر مرتبہ وہ انتخابات سے امیدیں لگاتے ہیںکہ وہ اپنی مرضی کی حکومت لے آئیں گے۔ لیکن جب انتخابی نتائج آتے ہیں‘ تو ایسے لوگوں کو منتخب قرار دے دیا جاتا ہے‘ جنہیں لوگوں نے ووٹ ہی نہیں ڈالے ہوتے۔ 
پاکستان میں 1956ء کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ میں ان سب کا شاہد رہا ہوں۔ ہر مرتبہ دھن‘ دھونس اور دھاندلی کا بے محابا استعمال ہوا اور ہرمرتبہ سیاسی تاریخ میں کوئی نہ کوئی جانا بوجھا لفظ نئے مفہوم کے ساتھ مشہور ہوا۔ 50ء کے عشرے میں ''جھرلو‘‘کو شہرت ملی۔ 60ء کے عشرے میںبی ڈی ممبروں کی خرید و فروخت کا بازار لگا۔70ء کے عشرے میں جذبات کی آندھیوں نے خاک اڑائی۔ 80ء کے عشرے میں شوریٰ والے آئے۔ 90ء کے عشرے میں'' لوٹوں‘‘ کے چرچے ہوئے اور گزشتہ عشرے میں جمہوری اور آمرانہ حکومتوں میں فرق ڈھونڈنا دشوار ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اقتدار‘ عزت و تکریم کا ذریعہ نہیں بلکہ نفرت اور ناپسندیدگی کا ہدف بن چکا ہے۔ حکمران سیاستدان ہوں یا جنرل‘ اب کم ازکم عوام انہیں ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ صرف معاشرے کے بااثر طبقے جمہوریت کا نام لیتے ہیں مگر اس کی وجہ‘ کوئی اصولی یا نظریاتی سوچ نہیں ہوتی۔ صرف یہ تلخ حقیقت ہوتی ہے کہ اقتدار میں آنے والے جنرل حضرات تک‘ سیاسی لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی جبکہ سیاسی قبیلوں میں سب ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے والے ہوتے ہیں۔ طویل آمریتوں کے دوران‘ حکمران جنرلوں کے پروان چڑھائے ہوئے سیاستدانوں کی فصل بھی تیار ہو چکی ہے۔ اسمبلیوں کے اندر ریٹائرڈ فوجی بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے پروردہ سیاستدان بھی اور رشتے داروں اور حواریوں کی شکل میں بیوروکریٹ بھی۔ ممبران اسمبلی کی فہرستیں نکال کر دیکھئے‘ تو ان میں آپ کو بیوروکریٹس کے رشتے دار اور عزیز بھی کثرت سے نظر آئیں گے۔ 
اہل سیاست کی بدنامی اور رسوائی میں کوئی کسر باقی نہیں جسے عابد شیرعلی مزید الزام تراشیوں سے پرکر سکیں۔ کرپشن کے لفظ کا وزن ختم ہو چکا ہے۔ اب اس کی شدت کا احساس دلانے کے لئے لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے الفاظ بھی ہلکے لگتے ہیں۔ کسی بھی دور میں شریک اقتدار رہنے والوں پربدعنوانی کا الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ فلاں کا تعلق حکومت سے ہے یا رہا ہے۔ سچی بات ہے کہ کوئی بھی نیا الزام‘ ارباب اقتدار کی بدنامی میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ عابدشیر علی خواہ مخواہ اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں۔حکمران طبقوں کا انجام بہت نزدیک آ چکا ہے۔ حالیہ انتخابات میںعوام نے تبدیلی کے حق میں جس جوش و خروش اور تمنائوں کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لیا‘ اس میں پوشیدہ طوفان کا غیظ و غضب واضح دکھائی دے رہا تھا۔ عمران خان کو بپھرے ہوئے غم و غصے پر سوار ہونے کی مہلت نہ ملی۔ اگر وہ صحت مند ہوتے اور نتائج کے فوراً ہی بعد سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیتے‘ تو کسی میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ عوامی یلغار کو روک لے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف‘ دونوں نے انتخابی نتائج قبول کر کے ایک دوسرے کے لئے مہلت حاصل کر لی۔ مگر یہ زیادہ دیرکام نہیں دے گی۔ معاشرے میں جگہ جگہ طاقت کا خلا پیدا ہورہا ہے۔ حکومت کی اتھارٹی سمٹ رہی ہے۔ طاقت کے اس خلا کو دہشت گرد‘ بھتہ خور‘ رشوت خور‘ طرح طرح کے مافیا‘ رسہ گیر‘ نفع خور‘ غنڈہ عناصر اور انتہاپسند جگہ جگہ سے پر کر رہے ہیں۔ سنٹرل اتھارٹی کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 18کروڑ کی آبادی طویل عرصے تک‘ قومی سطح کی اتھارٹی کے بغیرمنضبط نہیں رہ سکتی۔ اہل سیاست اس بات کو سمجھے بغیر اپنی ہی صو رت کو بگاڑتے رہیں گے‘ توکوئی ان کا منہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ ذمہ دار یہ خود ہوں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved