تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     12-02-2014

آئین کو مقدس کیوں کہا جاتا ہے

موجودہ علم سیاسیات یعنی پولیٹیکل سائنس نے گزشتہ سو سال سے انسانوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کر دیا ہے کہ جدید سیکولر جمہوری ریاست آئین کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ اس طرح کی ایک مقدس کتاب اور ایک مقدس عہدنامے کی تخلیق کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ صدیوں سے انسان مذہب کی الہامی کتابوں کو مقدس ترین سمجھتا اور انہیں اعلیٰ اور ارفع مقام دیتا آیا ہے، اس لیے ایک کتاب کے مقابلے میں جب تک کتاب تخلیق نہ کی جائے اور اسے مقدس ترین قرار نہ دیا جائے، ان الہامی کتابوں کے مقام اور مرتبے کی نفی نہیں ہوتی۔ اس میثاق کی روح یہ ہے کہ اگر آئین یا اس کے بنانے والے مانیں گے تو قرآن یا تورات سپریم لاء قرار پائیں گے لیکن اگر پارلیمانی اکثریت اس کا انکار کر دے تو اس کی حیثیت ثانوی بھی نہیں رہتی۔ دوسرا یہ کہ اسے ایک عہدنامے کا درجہ دیا گیا ہے اور انسانوں کے انسانوں کے ساتھ عہد کو اللہ اور انسانوں کے ساتھ عہد پر مقدم تصور کیا جاتا ہے جبکہ اللہ قرآن پاک میں بندوں کے ساتھ اپنے کیے ہوئے عہد کو سب سے مقدّم، اہم اور مقدس بیان فرماتا ہے اور انسان کی اس دنیا میں آمد بھی اسی عہد کی پاسداری کے لیے ہے۔ یہ وہ عہد ہے جو اللہ نے تمام ارواح سے عالمِ بالا میں لیا تھا۔ اللہ اس میثاق اور اس عہد کو ناقابل تنسیخ سمجھتا ہے اور آخرت میں جزا اور سزا کا انحصار اسی عہد کی پاسداری پر رکھا گیا ہے جبکہ اسمبلی کا بنایا گیا آئین اللہ کے ساتھ کیے گئے اس عہد کی توثیق یا تنسیخ کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی لیے موجودہ علم سیاسیات نے آسمانی کتابوں کے مقابلے میں ہر ملک کے لیے ''آئین‘‘ کی شکل میں ایک مقدس کتاب ترتیب دینا لازمی قرار دیا۔ اسی لیے موجودہ تعلیم کے پروردہ اس وقت ایک حیرت میںگم ہو جاتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کچھ ممالک آئین کی ایک تحریر شدہ ''مقدس کتاب‘‘ کے بغیر بھی چل سکتے ہیں، چلتے ہیں اور چل رہے ہیں۔ وہ اس اٹل حقیقت پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں کہ ان کا محبوب ترین ملک اسرائیل ابھی تک ایک تحریری آئین سے محروم ہے۔ صہیونیت کے عالمی ایجنڈے اور مغرب کی مشترکہ سازشوں سے بننے والے اس ملک نے آج تک دنیا کے تمام آئین پرست لوگوں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اس موضوع پر آخری تقریر 7 مئی 2012 ء کو اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ (Kenesset) میں ان کے وزیر انصاف یعقوب نیمان (Yaacov Nemen) نے کی اور کہا کہ اسرائیل کو ایک تحریری آئین کی شدید ضرورت ہے۔ اس نے کہا کہ اسرائیل کی حکومت میں بل اور قانون کے درمیان فرق کرنا مشکل ہے اور اسرائیل میں سرکاری قانون سازی کا بھی کوئی طریق کار موجود نہیں۔ 25 جنوری 1949ء کو اسرائیل کی پہلی آئین ساز اسمبلی منتخب ہوئی۔ اس سے قبل جب 14 مئی 1948ء کو برطانوی افواج کا آخری دستہ حیفہ کے رستے روانہ ہوا تو اسی دن تل ابیب میں منعقدہ ایک تقریب میں بن گوریان نے اسرائیل کا اعلان آزادی پڑھ کر سنایا۔ اس کے ساتھ یہودی نیشنل کونسل‘ جو 1920ء میں یورپ میں ربائی ابراہیم اسحٰق کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی‘ کا اجلاس ہوا اور اس میں اسرائیل کے قیام کا سات نکاتی اعلان آزادی منظور کیا گیا۔ یہ اعلان پوری دنیا میں بسنے والے یہودیوں کو ایک قوم یا ملت سمجھتا ہے اور ان کی مقدس سرزمین میں واپسی کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ یہودی قوم کو تمام عالمی طاقتوں سے سیاسی اور معاشی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کرتا ہے۔ اس اعلان میں جمہوریت نام کی چڑیا کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ ہم اُس آزادی، انصاف اور امن کے خواہاں ہیں جس کا طریقہ ہمارے پیغمبروں نے ہمیں سکھایا۔ اس اعلان آزادی کے بعد اسرائیلی پا رلیمنٹ میں دو فقرے بار بار گونجے ۔۔۔ ایک توراتی جمہوریت (Torah Democracy ) اور دوسرا ''ہمارا آئین تورات ہے‘‘ اسی لیے جب پہلی آئین ساز اسمبلی میں آئین بنانے کے لیے بحث کا آغاز ہوا تو ایک متفقہ شور اٹھا کہ ہم کوئی ایسی کتاب، دستور یا آئین نہیں بنا سکتے جو حیثیت میں بلکہ تھوڑی سی بھی حیثیت میں ہماری مقدس کتابوں تالمود (Talmud)، تناخ (Tanakh) اور شلخان آرخ (Shulkan Arakh) سے بالاتر تصور کی جائے۔ ہماری مقدس کتابیں بالاتر ہیں اس لیے ہم کوئی ایسی کتاب‘ جسے آئین کہتے ہیں‘ تحریر نہیں کریں گے اور آج 66 سال گزرنے کے باوجود اسرائیل نے ایک آئین مرتب نہیں کیا۔ البتہ اپنے اداروں کو چلانے کے لیے قوانین ضرور بنائے جنہیں وہ Basic Laws کہتے ہیں اور میرے وہ دوست‘ جن کی عقل موجودہ سیکولر جمہوریت کی حدود سے باہر نہیں دیکھ پاتی‘ ان قوانین کو آئین کا متبادل ہی نہیں بلکہ آئین کہتے ہیں، حالانکہ یہ تابع قانون سازی (Subordinate legislation) ہے جبکہ ان تمام قوانین کی منظوری کے طریق کار کا عالم یہ ہے کہ اسرائیل کی اسمبلی میں قانون پاس کرنے کے لیے کورم کی کوئی شرط نہیں ہے۔ حد یہ ہے کہ ان کا سب سے اہم قانون Human dignity and freedom (انسانی وقار اور آزادی) 1992ء میں اسمبلی میں موجود ایک مختصر سی اقلیت نے پاس کیا۔ دنیا بھر کی جمہوریت پسند اور سیکولر جمہوری ریاستوں کو دھوکا دینے کے لیے مئی 2003 ء میں اسرائیلی پارلیمینٹ کی قانون اور انصاف کمیٹی نے‘ جس کی صدارت مائیکل ایٹان (Micheitan Eitan )کر رہا تھا‘ ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا جو آئین بنائے گا اور یہ آئین اسمبلی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ گیارہ سال گزرنے کے بعد اس کمیٹی کا مرتب کردہ کوئی مسودہ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہو سکا۔ وہ بنیادی قوانین‘ جنہیں یہ لوگ آئین تصور کر بیٹھے ہیں‘ اساسی نوعیت کے نہیں بلکہ کارروائی یعنی Procedure کے قوانین ہیں۔ پہلا بنیادی قانون آزادی کے دس سال بعد 1958ء میں مرتب کیے گئے اسمبلی کے رولز ہیں۔ دوسرا 1960ء میں اسرائیلی قوانین اور زمین کے بارے میں، تیسرا 1964ء میں صدر کے عہدے کے متعلق، چوتھا 1968ء میں حکومت، پانچواں 1975ء میں معیشت، چھٹا 1979ء میں فوج کے متعلق اور ساتواں 1980ء میں یہ بنیادی قانون پاس ہوا کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا۔ ان تمام قوانین کا تعلق روزمرہ کے معمولات سے ہے۔ ایسے قوانین عوماً اسمبلیاں منظور کرتی رہتی ہیں جنہیں آئین کا نعم البدل نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی پارلیمنٹ میں کوئی عالمی معاہدہ پیش نہیں ہوتا، کہیں ریفرنڈم یا دو تہائی اکثریت کا کوئی تصور نہیں، اس لیے کہ اسرائیل نے اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ سوچا تک نہیں کہ ان کی مقدس کتابوں میں دیے گئے اصول کسی اسمبلی میں زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔
یہاں اسرائیل کی مثال اس لیے پیش کی ہے کہ یہ ریاست پوری مغربی دنیا نے مذہب، ایک یہودی ملت اور ایک قوم کے طور پر زبردستی دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو ایک خطۂ زمین دے کر بنائی جبکہ پاکستان کا تو معاملہ اس سے بالاتر ہے۔ ہمارے آبائواجداد نے اپنے پنجابی، سندھی، پشتون اور بلوچ ہونے سے انکار کیا اور مسلمان ہونے کی بنیاد پر اپنے نسلی بھائیوں سے علیحدگی کا اعلان کر کے مذہب کے نام پر ملک یا ریاست تخلیق کی۔ مثالیں بہت ہیں کہ برطانیہ اورآئرلینڈ کی روایات بہت مستحکم ہیں اور انہیں کسی تحریری آئین کی ضرورت نہیں ہے، کس قدر شرم کی بات ہے کہ برطانیہ اپنی روایات کا احترام اس قدر کرتا ہے کہ وہ اس سے بالاتر کسی آئین کی مقدس کتاب تحریر کرنے کا تصور نہیں کرتا، اسرائیل یہودیت کی کتب کو اساسی قانون کے طور پر لیتا ہے، لیکن یہ لوگ اسلام کو صرف ایک سو سال سے عالمی دستوری پابندی کے پیمانے میں کھینچ کر لانا چاہتے ہیں۔ آئین کو کس قدر محنت سے مقدس بنایا جاتا ہے؟ غور کریں، دنیا کے تمام آئینوں کی تشریحات پر ہزاروں کتابیں ایسے لکھی گئی ہیں جیسے قرآن کی تفاسیر ہوتی ہیں۔ آئین کی شقوں کو سمجھنے کے لیے باقاعدہ ایک سائنس بنائی گئی جسے آئینی قانون (Constitutional Law) کہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے ہاں فقہ ہوتی ہے۔ آئین کی تعلیم کو دنیا بھر میں عام کیا گیا اور عالمی سطح کے آئینی ماہرین کی ایک فوج ظفر موج تیار کی گئی۔ دنیا کاکون سا آئین ہے جس کی ایک سے زیادہ تشریحات اور تفسیریں نہ ہوں، ان پر اختلاف نہ ہو، لیکن سب کے سب نافذ ہیں۔ کوئی سوال نہیں کرتا کہ کون سی تشریح نافذ کریں، لیکن جیسے ہی قرآن و سنت کی بات آتی ہے تو کوئی ان کے آئینی ماہرین کا تذکرہ نہیں کرتا جنہیں مفسرین کہتے ہیں، نہ اس کو سمجھنے کی سائنس کی بات ہوتی ہے جسے فقہ کہتے ہیں اور نہ ہی اس کو اساسی آئین بنا لینے کی بات کی جاتی ہے۔ ہمیشہ اختلافِ امت کا بہانہ گھڑا جاتا ہے اور اس مملکتِ خداداد پاکستان میں یہ سب کہا جاتا ہے جس کے تمام فرقوں۔۔۔ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث و دیگر نے مل کر 22 نکات اربابِ اقتدار کے سامنے پیش کیے تھے کہ ان کو نافذ کر دو، ہمیں کوئی اختلاف نہیں۔ کیا آج تک ان 22 نکات کے مطابق عمل درآمد ہوا؟ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ ہم غیرمہذب، فرسودہ اور دقیانوس کیسے کہلا سکتے ہیں۔ ہمیں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق زندہ رہنا ہے اور کسی قوم کے زندہ رہنے کے لیے امن، انصاف، عزت و وقار، رزق، خوشحالی، مساوات اور بنیادی سہولیات نہیں بلکہ ''مقدس ترین‘‘ کتاب آئین ضروری ہے۔ ایک ایسی دستاویز جسے کارپوریٹ سرمائے، قبائلی تعصب، علاقائی غنڈہ گردی اور حکومتی سرپرستی میں منتخب ہونے والے اراکین اِسمبلی جب اور جس وقت چاہیں بدل دیں یا کوئی آمر اسے معطل کر دے۔ یہ ہے اس مقدس کتاب کی اساس۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved