آفتاب نے اگلے روز مجھ سے کہا کہ اپنے کالموں میں فارم ہائوس کا ذکر بار بار نہ کریں کیونکہ اس سے خودنمائی کا احساس ہوتا ہے۔ میرا جواب یہ تھا کہ جو لوگ میرے کام سے سروکار رکھیں گے انہیں میرے شب و روز اور بودوباش سے بھی دلچسپی ہوگی۔ پھر یہ کہ یہ میری خودنوشت کے سلسلے کی کڑی ہیں اور اگر میں فارم ہائوس کا ذکر کرتا ہوں تو میں نے اپنی تنگدستی کے زمانے کا احوال بھی مزے لے کے بیان کر رکھا ہے۔ شہزاد احمد نے مجھے ردِ تعلّی کا شاعر کہا تھا اور ردتعلّی کا شاعر خودنمائی کا شکار تو شاید نہیں ہو سکتا۔
اوکاڑہ میں میرا آبائی اور پرانا گھر جو واقعتاً پرانا تھا اور جس میں محمد خالد اختر سمیت کئی اور پرانے پرانے لوگ بھی آتے جاتے رہے‘ جب زیادہ خستگی کے قریب پہنچا تو اس کی تعمیرِ نو کا بھوت بھی مجھ پر سوار ہوا ‘اگرچہ میں اس لحاظ سے اس سے مطمئن بھی تھا کہ ؎
ٹوٹا مکاں سہی‘ مگر اپنا تو ہے میاں
اس دورِ سخت میں تو ہے یہ ٹھور بھی بہت
ریلوے لائن اس کے قریب سے ہو کر گزرتی تھی کہ بیچ میں صرف ایک سڑک تھی اور گزرتی ریل کا نظارہ گھر کی کھڑکیوں سے بھی کیا جا سکتا تھا اور جس کے دھڑ دھڑ کر کے گزرنے کا نقشہ اس شعر میں کھینچا گیا ؎
ریل کے زور شور سے سارا مکاں لرز اٹھا
اوس الگ نہ ہو سکی کھِلتے ہوئے گلاب سے
اس سے یاد آیا کہ اسی سلسلے کے گزشتہ کالم میں میں نے گلاب کے نیلے‘ پیلے اور کالے پھولوں کی جن قسموں کا تذکرہ کیا تھا ایک ویرائٹی رہ گئی تھی جس کا ذکرِ خیر اس شعر میں موجود ہے ؎
ہجومِ رنگ وہ چہرہ‘ بڑے گلاب کا پھول
ملا نہ پھر کبھی شاخوں میں منہ چھپا کے مجھے
واضح رہے کہ اشعار کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے گا کیونکہ میں نے اپنے ماحول کو اکثر و بیشتر اپنی شاعری میں قید کر رکھا ہے؛ تاہم اسی حد تک کہ جہاں تک مجھے زبانی یاد آتے رہیں گے کیونکہ شاعری اگر آپ کا اوڑھنا بچھونا ہو جائے تو یہی صورت ہو جاتی ہے؛ حتیٰ کہ میں نے اپنے گھر کا محلِ وقوع بھی بیان کر رکھا ہے ؎
ڈیوڑھی بڑی سی ریلوے کراسنگ کے سامنے
ڈیوڑھی سے چار چھ قدم آگے مکان ہے
عذرا وقار نے ایک بار مجھے لکھا تھا کہ اللہ میاں کے بعد آپ کا پتہ بھی مختصر ترین ہے کہ شہر اور آپ کا نام لکھ دیں تو خط ملنا یقینی ہوتا ہے۔ آمدنی کی صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن ایک دن میں نے ایک مزدور کو چھت پر چڑھوا کر منڈیروں سے اُدھڑوانا شروع کردیا۔ تاہم نیا مکان اگر بنانا ہی تھا تو وہاں سے منتقل ہو کر کسی بہتر جگہ پر بھی یہ جوکھم اٹھایا جا سکتا تھا لیکن محلے داروں کو پتہ چلا تو وفد بن کر آ گئے کہ ہم نے آپ کو اور کہیں جانے نہیں دینا؛ چنانچہ ''پبلک کے پُرزور اصرار پر‘‘ کہیں اور گھر بنانے کا ارادہ ترک کیا حالانکہ والد مرحوم کے ایک دوست شیخ دوست محمد نے ‘جو شہر کی تحصیل روڈ جسے ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا ہے اور جس پر وسیع و عریض میونسپل پارک بھی واقع ہے‘ پیشکش کی کہ اگر میں چاہوں تو وہ وہاں میرے لیے ایک پلاٹ مختص کر سکتے ہیں۔ مکان گرنا شروع ہوا تو وہاں کی ایک نو تعمیر کالونی میں گھر کرائے پر لیا۔ اسے سیٹھ کالونی کہتے ہیں جس کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں۔ مجھے سہولت یہ رہی کہ اس میں سے اینٹیں اتنی نکل آئیں کہ نئے گھر کی تعمیر کے لیے تقریباً کافی تھیں۔ پھر‘ اس کی چھت پر بڑے بڑے شہتیر اور بالے پڑے ہوئے تھے جنہیں چروا کر دروازوں اور کھڑکیوں وغیرہ میں استعمال کیا گیا۔ نئی اینٹیں بہت کم خریدنا پڑیں لیکن ہائوس بلڈنگ کارپوریشن سے قرضہ بھی لینا پڑا اور پھر کہیں جا کر یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکا۔ کفایت شعاری کی غرض سے‘ اس کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی ہم نے وہاں رہائش بھی اختیار کر لی۔
واضح رہے کہ اس کا نقشہ میرے شاعر دوست صلاح الدین محمود سے تیار کروایا گیا تھا جو ان دنوں واپڈا ہائوس میں انجینئر کے عہدے پر فائز تھے۔ اسی زمانے کا یہ شعر ؎
کھِلائیں اُس کو اوکاڑے کے امرود
اگر آئے صلاح الدین محمود
یہ غزل بعد میں بھارت سے پہلی بار شائع ہونے والے میرے تیسرے مجموعۂ کلام ''رطب دیا بس‘‘ میں شامل ہوئی۔ سو‘ جہاں نیا گھر مکمل ہونے کی خوشی تھی وہاں پرانے مکان کی یاد بھی دل سے محو نہ ہو سکی تھی‘ یعنی ؎
آنکھوں میں کیا ہنسے نئی تعمیر کی خوشی
دل میں ابھی تو غم ہے پرانے مکان کا
پرانا گھر اس لیے بھی یادگار تھا کہ اس میں میری شادی ہوئی اور چاروں بچے بھی وہیں پیدا ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے ساتھ بہت سی خوشگوار اور غمناک یادیں وابستہ ہیں‘ مثلاً میرے والد اور والدہ نے اسی گھر میں انتقال کیا۔ انہی وقتوں کا ہمارا ایک ملازم علم دین جسے سب پیار سے چاچا علما کہا کرتے تھے‘ اس نے پچھلے دنوں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ پھر‘ اس سے بھی بہت پہلے یعنی قبل از تقسیم ملک وہاں لالہ رتن لال بدھوار کی رہائش تھی جن کا بیٹا رمیش سکول میں میرے ساتھ پڑھتا رہا تھا۔ یہ لوگ بعد میں بھی ہمیں ملنے کے لیے آتے رہے جو یہاں سے جا کر ڈیرہ دون میں سیٹل ہو گئے تھے۔ میری چھوٹی پھوپھی اور پھوپھا میاں عبدالخالق بھی اس گھر میں ہمارے ساتھ ہی رہے جن کے بڑے بیٹے محمد آصف کے ساتھ میری چھوٹی بہن کی شادی ہوئی اور ان سے چھوٹے محمد صفدر نے سول سروس اختیار کر کے سیالکوٹ اور جہلم میں بطور ڈپٹی کمشنر بھی خدمات سرانجام دیں۔ میرے پھوپھا موصوف سیاسی ذوق بھی رکھتے تھے اور تحریک پاکستان میں کچھ عرصہ جیل بھی کاٹی۔ میرے دو اور چچا اور پارلیمنٹیرین میاں عبدالخالق اور میاں غلام محمد کے علاوہ میرے برادرِ نسبتی قاضی احسان الحق بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ میاں عبدالخالق اور والد صاحب بعدازاں میونسپل کمیٹی کے رکن اور والد صاحب وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔
میرے پہلے چار شعری مجموعے قیام اوکاڑہ کے دوران اسی پرانے گھر میں تخلیق ہوئے۔ وہیں پر روٹری کلب کے ڈنر بھی ہوا کیے جس کا میں اساسی رکن تھا۔ علاوہ ازیں‘ میں نے چھ ماہ کے لیے راولپنڈی ہجرت بھی اسی پرانے گھر سے کی۔ پرانے گھر کی ایک اپنی بھی خاصیت ہوتی ہے ؎
ظفرؔ، دل سے نکل تو جائیں گے ہم
بہت یاد آئے گا یہ گھر پرانا
آج کا مطلع
جو بھی تھا بس فالتو تھا‘ جو بھی ہے بے کار ہے
ایک سیڑھی چڑھ گئے ہیں‘ دوسری تیار ہے