گزشتہ چند مہینوں کے دوران‘ طالبان کے عزائم کے حوالے سے جو کچھ میں اپنی سمجھ بوجھ اور اندازوں کی بنا پر لکھتا رہا ہوں‘ آج طالبان کے ترجمان‘ حرف بہ حرف اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ جب میں نے یہ سب کچھ لکھا‘ اس وقت شاید ہی کسی صحافی نے یوں حقائق بیان کئے ہوں۔ البتہ مجھ پر طنز و تضحیک کے تیر ضرور چلائے گئے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حال ہی میں لکھے گئے میرے بعض کالم‘ قارئین کو ضرور یاد ہوں گے کیونکہ یہ گزشتہ چند روز کے دوران شائع ہوئے۔ جب ملا فضل اللہ کو تحریک طالبان کا امیر چنا گیا تو میں نے فوراً ہی لکھ دیا تھا کہ ملا فضل اللہ کی قیادت میں اب تشدد اور ہلاکتوں کے سلسلے میں تیزی آئے گی اور طالبان کے ساتھ مفاہمت کے امکانات دھندلا جائیں گے۔ قیادت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہونے کے دوران‘ جتنا وقفہ درکار ہوتا ہے‘ اس کے پورا ہوتے ہی معاملات ملا فضل اللہ کے کنٹرول میں آ گئے‘ دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی تیزی آنے لگی اور ظاہر ہو گیا کہ جنگ کا جو انداز شمالی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے ہیڈکوارٹر کے دور میں تھا‘ ملا فضل اللہ کے قیادت پر فائز ہونے کے بعد‘ اس کی جگہ سوات کے طرز جنگ نے لے لی۔ میں نے بڑی وضاحت سے بیان کر دیا تھا کہ ملا فضل اللہ نے ملا عمر کو اپنا امیر مان رکھا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو آئندہ صرف پاکستان تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے‘ اس کے عزائم کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہداللہ شاہد کے ایک انٹرویو میں ان ساری باتو ں کی تصدیق ہو گئی۔ انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ ٹی ٹی پی والوں کے امیرالمومنین ملا عمر ہوں گے‘ ملا فضل اللہ ان کے خلیفہ ہیں اور ہنگو کے واقعے سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے ترجمان موصوف نے یہ بھی بتا دیا کہ ہنگو کے سکول میں خود کش بمبار طالبان نے نہیں‘ لشکر جھنگوی نے بھیجا تھا۔
ایک محاذ کی کمان ملا عمر کریں گے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں پر حملے کرنے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی ہو گی۔ ٹی ٹی پی نے اپنے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ان کے نام دیکھ کر‘ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اہداف کیا ہیں؟ بیشتر قیدی وہ ہیں‘ جنہوں نے پاکستان کے حساس دفاعی ٹھکانوں پر دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔ ایک محاذ میڈیا کا ہے جسے چلانے کی ذمہ داری‘ ٹی ٹی پی کی ایک برانچ کے سپرد ہے۔ اس کی سربراہی شاہداللہ شاہد کر رہے ہیں۔ اس برانچ کی پوری تفصیل تو مجھے معلوم نہیں مگر اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستانی میڈیا کے اندر بیٹھے‘ بہت سے ذہین‘ ملکی و عالمی حالات پر گہری نظر اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے میڈیا پرسنز کی خدمات‘ طالبان کے اس شعبے کو ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ ان کا نیٹ ورک‘ ہر گوریلا جنگ کی طرح خفیہ ہے اور براہ راست ترجمانی کے فرائض‘ شعبہ اطلاعات کے سربراہ انجام دیتے ہیں۔ آج کل یہ ذمہ داری شاہداللہ شاہد کے سپرد ہے۔ طالبان کا باضابطہ موقف‘ اداروں اور رائے عامہ تک پہنچانے کے سوا‘ میڈیا سیل کی باقی تمام سرگرمیاں خفیہ ہیں مگر اتنی موثر اور کارگر کہ طالبان‘ دشمن کی جس پالیسی کو متاثر یا ناکام کرنا چاہتے ہیں‘ زیر عمل آنے سے پہلے ہی‘ اس کی ہوا نکال دی جاتی ہے۔ حکومت کی ردی‘ بے حس اور ذہنی طور پر شکست خوردہ مشینری‘ طالبان کی پریکٹسنگ اور اپ ٹو ڈیٹ مشینری کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ گزشتہ چند روز کے دوران‘ میڈیا کی جنگ میں طالبان نے قدم قدم پر حکومت کو نیچا دکھایا۔ اس کی میڈیا ٹیم نے‘ سیاست دانوں اور حکومتوں کی کرپشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ طالبان کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف اسلام کے نام اور حکومتی کرپشن کو‘ ہنرمندی سے استعمال کرکے ‘ انہیں حکومت کے حامی اور مذہب سے بیزار ثابت کرنے پر مسلسل زور لگایا اور ابھی تک لگا رہے ہیں۔ مذاکرات سے پہلے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے لئے رائے عامہ بڑی حد تک منظم تھی۔ حکومت نے خدا جانے کیا سوچ کر طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی؟ طالبان نے اس پیش کش کو قبول کر نے کے لئے حکومت کے بجائے خود شرطیں عائد کر کے‘ اسے ریسیونگ اینڈ پر کھڑا کر دیا۔ طالبان چھکے اور چوکے لگا رہے ہیں اور حکومتی ٹیم بوکھلاہٹ کی حالت میں بلا گھما رہی ہے۔ طالبان کی میڈیا ٹیم اور باقاعدہ ترجمان نے‘ اپنی اپنی پوزیشن سے‘ شرائط کی ایسی گولہ باری کی جو ابھی تک حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کون سی شرط اصلی ہے اور کون سی دکھاوے کے لئے۔ اسے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کس شرط کو اصلی سمجھے اور کسے آزمائشی غبارہ؟ طالبا ن قدم قدم پر دھواں چھوڑ کے منظر کو دھندلا رہے ہیں اور حکومت حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ وہ کس طرف سے بڑھتے ہوئے‘ کس طرف جا رہے ہیں؟ ایسی ہی صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے‘ میںنے وزیر اعظم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ وہ طالبان کے ٹریپ میں آ گئے ہیں۔ اب میڈیا میں سرخیاں یہ لگتی ہیں کہ ''حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کی ملاقات‘‘ گویا دو ریاستی وفود یا حکومتی سربراہوں کے نمائندے‘ بات چیت کر رہے ہیں۔ چار بندوقوں والوں نے‘ جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج اور ایٹمی اسلحہ والوں کو‘ اپنے برابر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ شاید تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ہمیشہ تہی دست اور فاقہ مستوں کی فوج نے دولت کے تلے دبی اور بسیار خوری کی نیند میں مدہوش‘ فوجوں پر برتری حاصل کی۔ ہمارے حکمرانوں اور طالبان میں یہی فرق ہے۔ ان کے سامنے ایک پورا ملک ہے جس پر حکومت کرنے کے خواب دیکھتے ہوئے‘ وہ آگے بڑھ رہے ہیں اور حکمرانوں کے خزانے ملک سے باہر پڑے ہیں‘ جنہیں وہ دونوں ہاتھوں سے بھرنے میں لگے ہیں۔ ایک فریق کے پیچھے سنگلاخ پہاڑ اور تکلیف دہ زندگی ہے اور سامنے سر سبز کھیت اور زندگی کے سارے آرام و آسائشیں ہیں اور دوسرے فریق کے سامنے موت کا خوف ہے اور پیچھے پڑی دولت سے حاصل ہونے والی آ سائشیں اور عیاشیاں۔
محاذوں کے مجموعی نتائج کا جائزہ ظاہر کر دیتا ہے کہ جنگ کتنی وسیع اور طویل ہے۔ اس جنگ کے دوران کئی طرح کے مراحل آئیں گے۔ جنگ بندیاں بھی ہوں گی‘ فائر بندیاں بھی ہوں گی۔ مذاکرات بھی ہوں گے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی بھی ہو گی۔ فیصلہ مرکزی قیادت کرے گی کہ کب اور کہاں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا ہے؟ کہاں دہشت گردی کی وارداتیں کر کے‘ شہری زندگی کو درہم برہم اور ریاستی مشینری کو کیسے چکرانا ہے؟ معاشی اور صنعتی مراکز کو کب اور کہاں نشانہ بنانا ہے؟ بھتہ خوری کے ہتھیار سے منڈیوں اور بازاروں کے کاروبار کب رکوانا ہیں؟ حکمرانوں کے اعصاب کو کیسے تھکانا ہے؟ اس کی ایک مثال مذاکرات کے دھاگے کا الجھا ہوا لچھا ہے‘ دھاگہ جتنا بھی کھلتا جائے‘ اندر سے کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ مذاکرات کے اندر جو کچھ تھا‘ وہ طالبان نے کرسی پر بیٹھے بغیر حاصل کر لیا۔ آگے جو بھی ہو گا انہی کا نفع ہے۔ تاریخ کے اس مرحلے میں طالبان ہمارے حکمرانوں کو تھکا رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں ا نشاء اللہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام طالبان کو تھکائیں گے اور آخری فتح ہمیشہ کی طرح عوام کی ہو گی۔