پاکستان میں مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے یہ جاننے ‘سمجھنے اور اندازہ لگانے کے لیے سماجی یا سیاسی آئن سٹائن ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔اگر موجودہ منظر نامے پر نظر آنے والے انتہائی واضح لفظوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا جائے تو جو تصویر بنتی نظر آ رہی ہے وہ پاکستانیوں کی دیکھی بھالی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ایک بہتر تصویر پاکستانیوں کے لیے سامنے لے کر آئیں‘ وہی ایسے لفظوں کو جنم دے رہے ہیں کہ جن کو آپس میں ملانے سے جو منظر نامہ سامنے آئے اور جو تصویر بنے‘ وہ خوبصورت‘ حسین‘ پرسکون و پرامن ہونے کے بجائے بدصورت و بدترین ہو۔
ملکی منظر نامے پر مختلف پاکٹس ‘مختلف اداروں اور علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اُن کو ایک ایک نقطے کے تحت دیکھتے جائیں تصویر خود بخود بنتی چلی جائے گی۔
شاہد اللہ شاہد نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ ملا فضل اللہ ہمارے خلیفہ ہوں گے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وزیروں کی بات چیت ریکارڈ کرکے وزیروں کے دلوں کا حال ایک دوسرے تک پہنچا کرکڑوے سچ کو ایک دوسرے کے خلاف سامنے لا کر لڑانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہو رہا ہے تو کس کے کہنے پر اور کیوں؟ انتہائی ڈسپلنڈ اداروں میں نچلی سطح کے اہلکاروں کے لیے اور اتنے لمبے چوڑے پیمانے پر اِس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہونا کیا ممکن ہے؟نہیں‘ تو وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے اہم عہدیداروں اور وزیروں کی سطح پرفون ریکارڈنگ کا کھیل کِس سطح پر کھیلا جا رہا ہے‘ اس کی انسٹرکشنز کہاں سے آ رہی ہیں اور پھر ان ٹیپس کو کس کس طرح استعمال کیا جانا ہے‘ یہ فیصلے کہاں ہو رہے ہیں یہ سمجھنے کے لیے بھی بقراط یا آئن سٹائن ہونے کی ضرورت نہیں۔
البتہ یہ جاننا اور سمجھنا یقینا مشکل ہے کہ یہ سب جاننے کے باوجود بھی جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلوں کو من و عن قبول کرنے کے بجائے قانونی چکر بازیاں کر کے لوگوں کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا اور طارق ملک کی طرح باقاعدہ خوفزدہ کر کے بھگایا جا رہا ہے اس کا حوصلہ اور ہمت حکمران کیسے کر جاتے ہیں۔اسی طرح اپنے ہی بے شمار ایم این ایز کو چھوڑ کر نظرانداز کر کے جنہیں پاکستان کے عوام نے چُنا ہے جن میں سے یقینا کچھ وہ بھی ہیں جن کا شمار 35پنکچروں والوں میں نہیں ہوتا۔انہیں چھوڑ کر شوکت عزیز جیسے پردیس سدھارے لوگوں کو ہی ہر اہم عہدے پر لالا کر فائز کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے منطق کیا ہے اور راز کیا ہے۔ کوئی اس سے بھی تو پردہ اٹھائے؟مُنتظر ہیں کہ کب برادرِ محترم رئوف کلاسرا ان غیر ملکی پاکستانیوں کی دھڑا دھڑ تعیناتیوں کی اصلیت تفصیل کے ساتھ سامنے لے کر آتے ہیں۔ کہ تجار حکمران گھاٹے کا کوئی سودا کرتے تو نہیں۔
کہیں سزاہے کہیں صلہ ہے۔ہر سو یہی کھیل رچا ہے
الغرض یہ کہ کسی کو لگانا ہو کہ ہٹانا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہے ۔الٹی میٹ اور ایبسیلوٹ پاور کا حصول۔ الٹی میٹ و ایبسیلوٹ پاور کا حصول بھی ایک بیماری کی طرح کی خواہش ہوا کرتی ہے ‘جو عین آگ سے کھیلنے بلکہ الجھنے کے مترادف ہوا کرتی ہے جس کا انجام وہی ہوتا ہے جو آگ سے الجھنے والوں کا ہوا کرتا ہے۔اب کوئی کہے کہ پروانہ اپنے قبیلے کا حشر دیکھ بھی رہا ہوتا ہے کہ مرنے والوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں شمع کے گرد ‘مگر پروانہ ہے کہ دیوانہ وار لپکے چلا جاتا ہے ‘شمع کو بوسہ دینے کے لیے اور اگر اس دوران کسی 12اکتوبر کے واقعے کے باوجود بچ بھی جائے تب بھی بار بار جلتی ہوئی شمع کو گلے لگانے کو بے چین ہی کیوں رہتا ہے تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ؎
مجبور ہیں سب اپنی اُفتادِ طبیعت سے
ہو شمع سے کیا شکوہ پروانے کو کیا کہیے
چند نکات اور ۔مذاکرات آگے بڑھنے کے باوجود دھڑا دھڑ دھماکے جاری ہیں اور جو حکومت اور طالبان دونوں کے کنٹرول میں نہیں اورکوئٹہ سے پشاور اور لیاری و جنوبی پنجاب سے گوادر تک ‘پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اُن کے ساتھ کتنے ہزار مزید پاکستانیوں کی قربانی کے بعد بات شروع ہو گی؟
ایم کیو ایم کے صبر کا پیمانہ بقول اُن کے لبریز ہوا جا رہا ہے پولیس انہیں‘ وہ پولیس کو برداشت کے لیے تیار نہیں ۔طاہر القادری صاحب پھر سے کسی تحریک کی تیاریوں میں مگن ہیں۔اندرونی خلفشار میں مبتلا تحریک انصاف کا یقین 35پنکچروں والی خبر اور نجم سیٹھی کی تقرری کے بعد پختہ تو ہو گیا ہے کہ دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا ہوا ہے۔ اور ایسے میں حکمران خود میں اور اپنے خاندان میں مگن ہیں کہ کسی طرح اقتدار کی گلیاں سنجیاں ہو جائیں اور بس صرف اہلِ خاندان اُ س میں پھرتے نظر آئیں۔
نقطے ملاتے جائیں تصویر بنتی چلی جائے گی اب یہ مت پوچھئے گا کہ آخر حکمران دودھ کے جلے ہونے کے باوجود بھی پھونک پھونک کر چھاچھ کیوں نہیں پی رہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ محاوروں اور تاریخ سے عام آدمی کچھ سبق لے تولے حکمرانوں پر تو وہی شعر فٹ ہوتا ہے کہ ؎
مجبور ہیں سب اپنی افتاد طبیعت سے
ہو شمع سے کیا شکوہ‘ پروانے کو کیا کہیے
حضور ِ والا جبلتیں بھی کبھی بدلی ہیں؟!!!