شہباز شریف نے لاہور کا نقشہ
ہی بدل دیا...صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف نے لاہور کا نقشہ بدل دیا‘‘چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں سارے کام چھوڑ چھاڑ کر نقشہ نویسی کا کاروبار سنبھال لینا چاہئے جبکہ حکومت کا سارا کام تو پہلے ہی عزیزی حمزہ شہباز نے سنبھالا ہوا ہے‘ویسے بھی‘آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے جس میں وہ پوری طرح سے طاق ہو جبکہ بزنس تو وہ پہلے کافی کر چکے ہیں‘علاوہ ازیں بزنس تو اپنے آپ ہی چلتا رہتا ہے‘ خاص طور پر اقتدار کے دنوں میں۔انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعلیٰ دن میں 26گھنٹے کام کرتے ہیں‘‘اور جب 24گھنٹے ختم ہو جاتے ہیں تو دو گھنٹے اگلے دن کے بھی شامل کر لیتے ہیں‘البتہ دن میں 26گھنٹے ہوں تو اُن کا کام زیادہ آسان ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ''دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے لیے بھی یہ باعثِ تقلید ہے‘‘جبکہ سید قائم علی شاہ اور جناب پرویز خٹک کی تو صحت بھی قابلِ رشک ہے اور وہ باقی عمر مسلسل بھی کام کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اپنے اعزاز میں دیے گئے وزیر اعلیٰ کے عشائیے سے خطاب کر رہے تھے۔
والدہ کی طرح چھوٹی عمر میں ہی کانٹوں کا تاج سر پر رکھ دیا گیا...بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''والدہ کی طرح چھوٹی عمر میں ہی میرے سر کانٹوں کا تاج رکھ دیا گیا‘‘جبکہ والد صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا کیونکہ والدہ کی زندگی میں تو وہ ملک میں شاید قدم بھی نہ رکھ سکتے‘ تاہم ‘ اُن کے تاج کے کانٹے جو پہلے ٹین پرسنٹ تھے‘ سینٹ پرسینٹ ہو گئے اور پچھلے دور میں تو کانٹوں کا جیسے انبار ہی لگ گیا بلکہ ان کے نیاز مند ساتھیوں نے بھی خارِ مغیلاں کی یہ روایت خوب خوب نبھائی بلکہ کانٹے ہی کانٹے تھے جن میں سے انہیں تلاش کرنا بیحد مشکل ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اسے ملک کی خدمت کا بہترین موقع سمجھتا ہوں‘‘کیونکہ پارٹی میں موجود چاچوں اور ماموئوں کی صُحبت میں رہ کر میں بھی کافی موقع شناس ہو گیا ہوں اور موقع کے آنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہوں‘ویسے بھی ہم سارے کام صبر و شکر کے ساتھ ہی کرتے ہیں بلکہ ساری قوم کی یہی کیفیت ہے کہ ہم اُسے دیکھ کر شُکر کرتے ہیں اور وہ ہمیں دیکھ کر صبر کر تی ہے۔ ہمیں اپنی صابر قوم پر فخر ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں انٹرویو دے رہے تھے۔
پنجاب میں بلوچستان لبریشن آرمی کا
کوئی وجود نہیں...رانا ثناء اللہ
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ''پنجاب میں بلوچستان لبریشن آرمی کا کوئی وجود نہیں‘‘چنانچہ اُسے آگے بڑھ کر اپنے وجود کا بھر پور ثبوت دینا چاہیے کیونکہ رحیم یار خاں کی پائپ لائن تباہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جو دوسرے تیسرے ہی دن ٹھیک ہو کر پھر سے چالو ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حالیہ دہشت گردی میں طالبان ملّوث نہیں‘‘ ویسے بھی‘ جب سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں انہوں نے ایسی وارداتوں سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ ایسے اقدامات کو تسلیم کرنے سے مذاکرات کی فضا خراب ہو سکتی ہے جس کا الزام وہ ہرگز اپنے سر پر نہیں لینا چاہتے اور حُب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہرائیں گے اور حکومت کو بے عملی کا جو طعنہ دیا جاتا ہے‘ وہ غلط ثابت ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ''پنجاب حکومت بلدیاتی الیکشن کروانا چاہتی ہے‘‘لیکن شومئی قسمت سے وہ ہو نہیں پا رہے جس کی وجہ کوئی سازش ہی ہو سکتی ہے‘ اور حکومت اس کے ذمہ داران کا سراغ لگانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بجلی چوری کو ہر صورت روکنا ہو گا‘‘ اور اُمید ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ آ کر اسے روک دے گا کیونکہ حکومت ذرا اور کاموں میں مصروف ہے۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیاسی قوتیں آئین کے تحفّظ
کے لیے متحد ہو جائیں...منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''سیاسی قوتیں آئین کے تحفّظ کے لیے متّحدہو جائیں‘‘بلکہ سب سے پہلے اُنہیں ہمارے تحفّظ کے لیے متحد ہونا پڑے گا کیونکہ حکومت کے ارادے ہمارے بارے میں کچھ اچھے نظر نہیں آ تے۔حتیٰ کہ خدشہ یہی ہے کہ نیب والے میرے بارے میں بھی کوئی گڑا مردہ اکھاڑ کر لے آئیں گے حالانکہ مُردوں کا احترام کرنا چاہیے اور ہمارا مذہب بھی اس کی تلقین کرتا ہے لیکن افسوس کہ ہم مذہب کی تعلیمات سے بہت دُور ہو گئے ہیں اور میں اکثر سوچتا ہوں کہ آخر اس قوم کا کیا بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین پاکستان ہر طبقہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے‘‘ اور ہم اہلِ سیاست کا تو بطور خاص محافظ ہے اور ان کی عبادات میں کوئی مداخلت نہیں کی جا سکتی اور زمانۂ اقتدار میں ہر شخص پُورا پُورا ثواب کمانے میں پوری یکسوئی سے ایسا مصروف رہتا ہے کہ خدا کی قدرت یاد آ جاتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
اطلاعِ عام
ہرگاہ بذریعہ اشتہارہذا اعلان کیا جاتا ہے کہ جن دو وفاقی وزراء کی کرپشن کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں‘ وزیر اعظم ان کے بارے میں سخت تشویش میں مبتلا ہیں اور بدترین سزا کے طور پر ان کے محکمے تبدیل کر دیے جائیں گے جیسا کہ کرپٹ ایس ایچ او ز کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی دوسرے مقام پر جا کر اپنے کیے کی سزا بُھگتتے رہیں‘چنانچہ جب اس حلقے کے عوام اس کی کرپشن کے خلاف باں باں کرنے لگتے ہیںتو انہیں کہیں اور تبدیل کر دیا جاتا ہے اور کوئی ایکشن لینے یا انکوائریوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے انہیں اس طرح عبرت حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کیونکہ انسان کسی وقت بھی راہِ راست پر آ سکتا ہے چنانچہ یہ وزرائے کرام بھی عبرت پکڑنے کے لیے تیار رہیں۔ویسے بھی ‘ایک علاقے کے وسائل ختم ہو جائیں تو کسی نئے علاقے میں جا کر قسمت آزمائی کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔
المشتہر:حکومت پاکستان عفی عنہ
آج کا مطلع
بے مقصد و بے فائدہ زحمت ہی کیے جائیں
لازم تو نہیں ہے کہ محبّت ہی کئے جائیں