اس دور کو رہنے دیجئے ، جب تحریکِ انصاف کے جلسوں میں شرکا کی تعداد سینکڑوں میں ہوا کرتی تھی۔ 2 دسمبر2010ء کو ڈاکٹر معید پیر زادہ کا پروگرام دیکھئے۔ وکی لیکس کے انکشافات سے ایک ہنگامہ برپا تھا اور کیوں نہ ہوتا۔ سیاسی سٹیج سے غلط وقت پہ پردہ اٹھا تھا اور منظر یہ تھا کہ ساری پاکستانی قیادت امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز تھی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں پر حکومت دکھاوے کا احتجاج کرے گی۔ مولانا فضل الرحمن امریکی سفیر سے وزیراعظم بننے میں مدد چاہتے ہیں ۔ دوسرے لیڈران کا حال بھی پتلا ہے؛البتہ این ڈبلیو پیٹر سن کہتی ہیں کہ واحد عمران خان ہے جو عالمی طاقت کے اثر و رسوخ سے آزاد ہے ۔ ڈاکٹر معید پیر زادہ سوال کرتے ہیں کہ ان معلومات کے منظرعام پر آنے سے زرداری حکومت کو جتنا نقصان ہو گا، اتنا ہی مسلم لیگ نوا ز کوفائدہ پہنچے گا۔جواب ملتا ہے : فائدہ تو عمران خان کوہوگا۔ معید پیر زادہ حیران ہو کر یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی تو سیاسی اہمیت (Political Significance) اتنی زیادہ نہیں ۔جواب: اہمیت کیوں نہیں ؟ آپ جیسے ہی تجزیہ نگار تھے جو 70ء میں کہا کرتے کہ بھٹو تو بچّہ ہے، کبھی نہیں آ سکتا۔ آپ کے خیال میں جو لوگ جو مارشل لا کی گود میں پروان چڑھے، جنہوں نے عرب شیوخ سے ہدایات لینی اور اربوں روپے کے کاروبار کرنے ہیں ، وکی لیکس آشکار ہونے سے فائدہ انہیں ہوگا، عمران خان کو نہیں ؟
16برس سے میڈیا میں واحد وہ ایک شخص تھا ، جو عمران خان کوآنے والے وقت کا لیڈر قرار دیا کرتا۔ اُس کا برتا ہوا لفظ ''کپتان‘‘ہی اس کی پہچان بن گیا۔ڈاکٹر معید پیرزادہ اپنی جگہ درست تھے۔ بظاہر تب تحریکِ انصاف کا کہیں نام ونشان تک نہ تھا۔ وہی نہیں ، نواز شریف سے عمران خان کا موازنہ کرنے پر ہر چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آ جاتی ۔ 30اکتوبر2011ء کے جلسے کے بعد بھی سوائے محترم رئوف کلاسرا کے، کسی نے کھلے دل سے یہ تسلیم نہ کیا کہ عمران خان کے بارے میں سب اندازے غلط ثابت ہوئے ۔
ڈاکٹر معید پیرزادہ کے پروگرام میں جو کلمات مخالف سیاستدانوں کی تعریف میں کہے گئے، ظاہر ہے کہ وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیے جا سکتے تھے ۔حال ہی میں چیئرمین نادرا، چیئر مین پیمرا اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ سمیت کئی افسروں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے، وہ برداشت کا حکومتی پیمانہ ظاہر کرتاہے ۔ اس معاملے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا روّیہ کہیں بہتر تھا۔ لیگی لیڈر قطار اندر قطار میدان میں اترے ۔ سوشل میڈیا پہ عمران خان کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے خلاف بھی مہم چلائی گئی ۔ جب یہ سب ہو رہا تھا تو جناب شفقت محمود صاحب نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ وہ تحریکِ انصاف میں شامل نہ ہوئے تھے۔ وہ 30اکتوبر 2011ء کا جلسہ رونما ہونے کا انتظار فرما رہے تھے ۔ جلسے کے بعد بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ان پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ کپتان ایک عظیم لیڈر ہے ۔یہ محبت اس قدر بڑھی کہ تحریکِ انصاف پر جائز تنقید بھی انہیں گراں گزرنے لگی۔ یو ٹیوب پر وہ وڈیو موجود ہے ، جس میں بیرونِ ملک ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ اس تاریخ ساز جلسے کے بعد ہر سیاست دان انہیں کہنے لگا کہ وہ تو شروع ہی سے دل و جان سے ان کا حامی تھا۔
سوات اور جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے موقع پر عمران خان آپریشن کے سخت مخالف تھے ۔ اس پر ببانگِ دہل جب یہ کہا اور لکھا گیا کہ وہ غلطی پر ہیں تو میڈیا کے لیے یہ ایک حیرت انگیز بات تھی ۔ اس لیے کہ سیاسی قائدین کی حمایت کرنے (اور موقع ملنے پر حکومتی عہدوں سے فیض یاب ہونے) والے صحافی ان کے غلط فیصلوں کو بھی درست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کرتے ہیں ۔ اس پر ٹی وی پروگراموں میں انہیں عمران خان کے ساتھ مناظرے کے لیے بلایا گیا۔ صاف صاف انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے معاملے میں عمران خان نے اعتدال کو طلاق دے دی ہے ۔آج ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا جو کپتان کو اس کی غلطیوں پر ٹوک سکے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے ہفتے تحریکِ انصاف کا وفد مال روڈ پر سانحۂ مستونگ پر احتجاج کرنے والوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے گیا تومظاہرین نے اسے دھتکار دیا۔کہا کہ انہیں طالبان کے ہمدردوں کی ضرورت نہیں۔
صحافت اور بالخصوص سیاست میں انگلیاں اٹھا ہی کرتی ہیں لیکن الزام ایسا ہونا چاہیے ، جو ملزم کے شایانِ شان ہو۔ایسا شخص جو ابتلا کے سارے زمانوں میں ثابت قدم رہا ہو۔میڈیا میں جو ایک بلند آواز رکھتا ہو اور دونوں بڑی جماعتوں کو ایک ہی سانس میں کرپٹ قرار دیتا ہو۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں جسے رام کرنے کی ہر ممکن کوشش میں ناکام رہی ہوں ، جسے کوئی پارٹی عہدہ درکار ہو نہ پختون خوا کی صوبائی حکومت میں کسی محکمے کی سربراہی، اس پر متوقع امیدواروں سے مالی فوائد حاصل کرنے کا الزام؟ پھر صرف وہی نہیں ، سر خالد مسعود خان بڑی تفصیل سے جنوبی پنجاب اور سندھ میںتحریکِ انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم پر ہونے والا کھلواڑ بیان کر رہے تھے ۔عمران خان یہ مانتے ہیں کہ پارٹی میں گڑ بڑ ہو رہی ہے لیکن اصلاحِ احوال کی کوئی کوشش نہیں ۔
پختون خوا میں کارکردگی کے بل پر تحریکِ انصاف اگلی مرکزی حکومت بنا سکتی ہے ۔رجب طیب ایردوان نے اسی قرینے سے استنبول کے مئیر سے وزیراعظم تک کا سفر طے کیا۔دھاندلی پر احتجاج برحق لیکن 2008ء میں قاف لیگ اور 2013ء میں پیپلز پارٹی بھی کسی قیمت پر اقتدار سے محرومی نہ چاہتی تھی ۔ مخلوق جب گھروں سے نکلتی ہے توسارے منصوبے دھرّے کے دھّرے رہ جاتے ہیں۔ تاحال نون لیگ قومی مسائل سے نمٹنے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ خدانخواستہ تحریکِ انصاف بھی پٹ گئی تو جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ نئی سیاسی جماعت تشکیل دینا بچّوں کا کھیل نہیں۔ خدا عمران خان کو کامیاب کرے لیکن بڑے نامی لوگ گواہی دیتے ہیں کہ پارٹی کے معاملات ان کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں ۔ جو ساکھ انہوں نے دہائیوں میں بنائی تھی، چند لوگ اسے اب نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ۔ خان صاحب نے اپنی زندگی میں بہت سے کارنامے انجام دئیے ہیں ۔ کیا مصلحتوں کا شکار کوئی شخص عظیم کامیابی حاصل کر سکتاہے ؟