تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-02-2014

شک پر پکڑا جانے والا گیدڑ!

بڑا عرصہ ہوا میں نے حیران ہونا چھوڑ دیا ہے کہ پاکستان کیسے چل رہا ہے۔ بس چل رہا ہے‘ کافی ہے۔
منصور ناجی کا لاہور سے فون تھا اور ان کے سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں۔ کہنے لگے: رئوف صاحب حیران ہوتا ہوں اپنے بچوں کو کیا بتائوں کہ ان کا رول ماڈل کون ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی میدان میں اب کوئی رول ماڈل نہیں رہ گیا جس کو دیکھ کر بچے کچھ سیکھ سکیں یا اس کی طرح بننا چاہتے ہوں۔ آپ کے ذہن میں کوئی نام ہو تو بتائیں تاکہ اپنے بچوں کو بتائوں کہ انہیں زندگی میں کس طرح کا انسان بننا چاہیے ۔ میں حیران ہو کر چپ رہا تو منصور ناجی خود ہی بول پڑے کہ ''رئوف صاحب‘ میں بازار سے اب پرانی کہانیاں اور کلاسک خریدنے جارہا ہوں کہ چلیں بچوں کو عملی زندگی میں کوئی ہیرو یا رول ماڈل نہیں ملتا تو شاید صدیوں پرانی ان کہانیوں میں ہی کوئی مل جائے۔ جب اس دور کے انسانوں کے نزدیک ان کا کردار، عزت، ایمانداری ہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی مدد یا پھر عمرو عیار جیسے کرداروں کے ساتھ ساتھ حاتم طائی کی افسانوی کہانی کہ کیسے مہمان کو اپنا قیمتی گھوڑا ذبح کر کے کھلا دیا تھا‘‘۔
جب والدین پریشان ہو کر پوچھنے لگ جائیں کہ بچوں کو بتانے کے لیے کوئی رول ماڈل نہیں رہ گیا تو پھر سوچ لیجیے ہمارا معاشرہ کدھر جارہا ہے۔ پھر بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کیسے چل رہا ہے۔ کیا بتایا جائے؟ جب وزیراعظم یہ فرمائیں کہ خوشی کی بات ہے طالبان نے دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے درجنوں بے گناہ افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تو پھر انہیں کون قتل کر رہا ہے؟ اس بارے میں وزیراعظم کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کراچی بدترین صورت حال کا شکار ہے اور مجال ہے کہ حکمرانوں 
کو اس بات کا احساس ہو۔ پھر اندرون سندھ کی بدترین حالت کو تبدیل کرنے کا کسی کو خیال تک نہیں۔ انسان جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر بلاول بھٹو کو کسی دن موقع ملے تو انہیں گاندھی اور نہرو کی سوانح حیات پڑھنی چاہیے کہ کیسے انہوں نے انگریزوں کے دور میں دیہات کے دورے کیے تھے تاکہ کسانوں کو منظم کیا جائے اور ان کی زندگی میں تبدیلی لائی جائے۔ گاندھی اور نہرو پسند نہیں ہیں، تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون(جب وہ اپوزیشن لیڈر تھے) کی طرح کسی عام برطانوی کے گھر ایک رات گزاریں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ عام انسان کیسی زندگی گزارتے ہیں اور پھر جب آپ اقتدار میں آئیں تو آپ کو ان کے دکھ درد کا احساس ہو۔ 
ادھر تحریک انصاف پشاور میں جاری قتل عام پر کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک فاٹا میں امن نہیں ہوگا‘ پشاور میں لوگ مرتے رہیں گے۔ یوں پہلے نو من تیل ڈھونڈا جائے اور پھر رادھا ناچے۔ بعض دفعہ تو تحریک انصاف کے سمجھدار لوگوں کے منہ سے یہ سن کر دکھ ہوتا ہے کہ فاٹا وفاقی حکومت کے زیراثر ہے‘ لہٰذا وہاں سے دہشت گرد اٹھ کر پشاور میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پشاور پولیس پتہ نہیں کرے گی کہ وہ لوگ شہر میں کیسے داخل ہوتے ہیں، کوئی ناکہ نہیں لگے گا، کوئی صوبائی انٹیلی جینس ایجنسی کام نہیں کرے گی۔ ایسا ہے تو پولیس ختم کر کے کچھ بجٹ بچا کیوں نہیں لیتے؟ ایک پولیس افسر کے نو گھر والوں کو قطار میں کھڑا کر کے گولی مار دی گئی اور تحریک 
انصاف نو من تیل ہی ڈھونڈ ے جا رہی ہے۔ 
تحریک انصاف کے حامی بھی اب پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور نواز لیگ کی طرح کے ہوچکے ہیں کہ اپنی قیادت کی نااہلی کا اندھا دھند دفاع کرو۔ بنی گالہ میں جو کچھ امریکہ سے آئے ہوئے محبوب عالم کے ساتھ ہوا‘ انتہائی افسوسناک ہے۔ انہیں عمران خان نے خود گردن سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیا کہ تمہیں جرأت کیسے ہوئی میرے اردگرد بیٹھے وفاداروں سے تیس لاکھ ڈالرز کے عطیے کا حساب مانگنے کی۔ گھر سے دھکے دے کر نکالنے کا محاورہ تو سب نے سنا تھا لیکن اب لوگوں نے دیکھ بھی لیا کہ کیسے عمران خان نے خود ہی اپنے پرانے پارٹی ورکر کو دھکے دے کر نکال باہر کیا۔ 
سیاسی پارٹیوں میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں لیکن کبھی نہیں سنا کہ کسی لیڈر نے خود ورکر کو گردن سے دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیا ہو۔ ایک ٹی وی پروگرام میں تحریک انصاف کے عمران اسماعیل امریکہ سے آئے محبوب عالم کو طنزیہ انداز میں فرما رہے تھے کہ کیا تم بھول گئے کس طرح عمران خان نے تمہیں گردن سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیا تھا؟ میں حیرانی کے عالم میں بیٹھا سنتا رہا کہ یہ سیاست ہے؟ اور یہ سیاستدان ہیں؟ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اس ناپسندیدہ حرکت کو بھی عمران خان کی بڑائی کی صورت بیان کیا جارہا تھا۔ یہ ہے وہ سیاسی کلچر جس سے سب کو نفرت تھی اور جس سے نجات کے لیے بہت سے لکھاریوں نے ان کی حمایت کی تھی۔
باقی چھوڑیں آج عمران خان کے حق میںسترہ برس تک لکھنے والے ہارون الرشید کو سب سے زیادہ گالیوں کا سامنا ہے۔ مجھے اپنے دوست کے ساتھ اس لیے بھی ہمدردی محسوس ہوتی ہے کہ مجھے علم ہے انہوں نے کس حد تک جا کر عمران خان اور ان کی پارٹی کو کھڑا ہونے میں مدد دی۔ میں کہتا تھا کہ قبلہ اس سطح پر جا کر کسی پارٹی کی حمایت نہ کریں‘ اس طرح آپ کو نقصان پہنچے گا۔ بہت سی محفلوں کا میں گواہ ہوں جن میں انہوں نے اپنے دوستوں سے عمران خان کی وجہ سے لڑائی جھگڑا مول لیا اور ذاتی تعلقات خراب کر لیے۔ فرمانے لگے تو کیا کروں؟ ان لٹیروں کے ہاتھوں ملک کو لٹنے دوں؟ ایک تیسری قوت پیداہونی چاہیے جو نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا مقابلہ کر سکے۔ عمران خان کی وجہ سے ان کے شہباز شریف اور ان کی ٹیم سے ذاتی تعلقات خراب ہوئے لیکن وہ ڈٹے رہے اور آج تحریک انصاف ہارون الرشید ہی کے خلاف تحریک چلائے ہوئے ہے۔ کاش میں اس وقت ہارون الرشید کو دو سو سال پہلے لکھا گیا کلاسیک ناول "Frankenstein" بھیجتا‘ جو اٹھارہ برس کی لڑکی Mary Shelley نے لکھا تھا، تاکہ انہیں پتہ چلتا کہ کیسے وہ جن‘ جسے آپ تخلیق کرتے ہیں‘ ایک دن آپ ہی کو کھا جاتا ہے۔ یہ بھی تاریخ کا عجیب سبق ہے کہ جن بتوں کو آپ تراشتے ہیں‘ وہی بعد میں آپ پر سنگ باری کرنے لگتے ہیں۔ 
ہم سب کا خیال تھا کہ عمران خان کا عروج اس ملک کے لیے ضروری ہے تاکہ روایتی سیاست اور سیاستدانوں سے چھٹکارا مل سکے۔ پتہ چلا کہ ان کے اندر بھی ڈکٹیٹر موجود ہے جوناپسندیدگی پر اپنے پارٹی ورکر کو بھی گردن سے پکڑ کر گھر سے باہر پھینک دیتا ہے اور پارٹی لیڈر عمران اسماعیل اس بات پر محبوب عالم کا ٹی وی پر سرعام مذاق اڑاتے ہیں کہ دیکھا ہمارے عالی مرتبت لیڈر نے کیسے آپ کی درگت بنائی؟ 
جاتے جاتے اپنے ان دوستوں کے لیے ایک لطیفہ جو مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ میں طالبان اور حکومتی مذاکرات کے خلاف نہ کچھ لکھتا ہوں‘نہ بولتا ہوں اور میں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ہر دفعہ مجھ جیسے ''شرپسندوں‘‘ ( سابق ڈپٹی کمشنر شفقت محمود کا پسندیدہ لفظ) پر الزام لگتا ہے کہ انہوں نے طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کر کے پورے عمل کو نقصان پہنچایا۔ یوں سارا نزلہ ہم جیسوں پر گرتا ہے۔ اس بار سوچا کہ سارا نزلہ اپنے اوپر ہی کیوں گرائیں۔ پورا ملک طالبان سے شکست کھانے کے لیے تیار ہے تو ہمیں تیس مار خان بننے کی کیا ضرورت ہے۔ اب وہ لطیفہ سن لیں کہ ایک جنگل میں کوئی شیرنی کے ساتھ بدتمیزی کر کے بھاگ گیا۔ شور مچ گیا۔ بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ جنگل کے سب جانورں کو حاضر کیا جائے اور مجرم کو تلاش کیا جائے۔ میرے جیسا ایک گیدڑ یہ سن کر جنگل سے بھاگ گیا ۔ راستے میں کوئی دوست ملا تو پوچھا تم کہاں بھاگ کر جارہے ہو۔ بولا‘ سنا ہے کہ شیرنی کے ساتھ کسی نے زیادتی کی ہے، اور ہو نہ ہو شک میں، میں ہی پکڑا جائوں گا۔ 
سو دوستو، مجھے بھی وہی گیدڑ سمجھو جو چاروں طرف بے گناہ انسانوں کے روزانہ مارے جانے کے باوجود اس لیے ان مذاکرات کا حامی ہے کہ کہیں آخری دن میں بھی شک میں نہ پکڑا جائوں!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved